آج – ١٩ ؍ اگست ١٨٨٤
پاکستان کے استاد شاعر، کئی مقبولِ عام شعروں کے خالق، حضرتِ امیرؔ مینائی ان کے روحانی استاد اور کلاسیکی روایت کے آخری مقبول شاعر” استاد قمرؔ جلالوی صاحب “ کا یومِ ولادت…
قمرؔ جلالوی نام سیّد محمد حسین، قمرؔ تخلص ١٩ ؍ اگست ١٨٨٤ء میں قصبہ جلالی، ضلع علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بچپن میں سیّد زندہ علی سے باقاعدہ اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ضلع علی گڑھ میں بائیسکل کی دکان تھی، یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھا۔ امیرؔ مینائی ان کے روحانی استاد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ معاش کے لیے پاکستان کوارٹرز میں سائیکل کی دکان کرلی تھی۔ شاعری کے جملہ اصناف سخن پر قادر تھے۔ ہندوستان اور پاکستان میں آپ کے متعدد شاگرد تھے۔ ۲۴؍اکتوبر۱۹۶۸ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ یہ کلاسیکی روایت کے آخری مقبول شاعر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے قدر دانوں نے ان کی حسب ذیل کتابیں شائع کیں۔ ’عقیدتِ جاوداں‘ (سلام اور مراثی کا مجموعہ)، ’رشکِ قمر‘، ’روحِ قمر‘، ’غمِ جاوداں‘، ’اوجِ قمر‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:311
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
استاد شاعر قمرؔ جلالوی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
—–
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر
( ان کی لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر کنندہ ہے )
—–
اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی
دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی
—–
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
—–
ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمرؔ
لگ جائیں چار چاند شبِ ماہتاب میں
—–
ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں
کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ
—–
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
—–
پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
—–
قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے
ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں
—–
روشن ہے میرا نام بڑا نامور ہوں میں
شاہد ہیں آسماں کے ستارے قمر ہوں میں
—–
روئیں گے دیکھ کر سب بستر کی ہر شکن کو
وہ حال لکھ چلا ہوں کروٹ بدل بدل کر
—–
رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمرؔ
اس چاندنی میں ان کو بلانے کو جائے کون
—–
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے
—–
جلوہ گر بزمِ حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے
—–
نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے
کہ اب ہم سے کوئی بھی روشنی دیکھی نہیں جاتی
—
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
—
سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو
تو اے بت کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو
—
حسن کب عشق کا ممنونِ وفا ہوتا ہے
لاکھ پروانہ مرے شمع پہ کیا ہوتا ہے
—
صیاد میں اسیر کہوں کس سے حالِ دل
صرف ایک تو ہے وہ بھی مرا ہم زباں نہیں
—
مرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا
—
ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ
عیاں سورج ہوا وقت سحر آہستہ آہستہ
—
لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے
یہاں دھوپ آ نہیں سکتی وہاں سائے نہیں جاتے
—
قمرؔ وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے
کہوں کس سے کہ میری شمع تربت کو بجھا دینا
قمرؔ جلالوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ