عنوان دیکھ کر کہیں آپ کو یہ خیال تو نہیں آیا کہ میں استاد کے رتبے پر خامہ فرسائی کرنے والی ہوں؟
نہیں ایسی بات نہیں۔
دراصل اس عنوان کا تعلق ایک واقعہ اور اس سے جڑے میرے ادبی سفر کے پہلے قدم سے ہے۔ تب میں ہائی سکول میں تھی۔ ایک روز سائنس کی ٹیچر نے کسی غلط فہمی کی بنا پر مجھے بری طرح ڈانٹا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ میں ان کی عزت نہیں کرتی۔ میرے پاس اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ تب میں نے پہلی بار اپنے قلم سے مدد لینے کی کوشش کی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ میرے دل میں استاد کا جو احترام ہے اگر اسے میں لفظوں کا روپ دوں اور اخبار میں شائع کراوں تو میری ناراض مس اس مضمون کو پڑھ کر اپنی غلط فہمی دور کر لیں گی۔ ان دنوں روزنامہ جنگ راولپنڈی کے بچوں کے صفحے میں میری ابھی تک کوئی تحریر تو نہیں چھپی تھی لیکن اس صفحے میں شائع ہونے والی تحریروں پر ایک دو تبصرے شائع ہو چکے تھے۔ میں نے بہت محنت سے مضمون بعنوان “استاد کا رتبہ” لکھ کر بچوں کے صفحے کے انچارچ کو بھیجا اور بے تابی سے اپنے مضمون کے مستقبل کی خبر کا انتظار کرنے لگی۔ صفحے کے انچارچ مضطر اکبر آبادی مرحوم ہر اتوار کو چھپنے والے اس صفحے میں ایک چھوٹے سے کالم میں قابلِ اشاعت اور ناقابلِ اشاعت تحریروں کی اطلاع بھی دیا کرتے تھے۔ بہت سے اتوار انتظار میں گزر گئے بالآخر ایک خوبصورت اتوار کو خبر ملی کہ میرا مضمون “قابلِ اشاعت” کا رتبہ پانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس خبر نے مجھے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے چند ہی دن میں ایک کہانی لکھ کر روانہ کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ میری کہانی جس کا عنوان “اسمگلر” تھا، دو ہفتوں کے بعد چھپ بھی گئی۔ میرے قلم سے لکھی گئی پہلی کہانی جو شائع ہوئی۔ اس کا چھپنا تھا کہ میرا قلم دوڑنے لگا۔ میں نے کئی کہانیاں لکھیں اور وہ چھپتی چلی گئی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ وہ مضمون جس کا نام ‘استاد کا رتبہ” تھا، قابلِ اشاعت ہونے کے باوجود کبھی نہ چھپا، نہ ہی مجھے اس کی اشاعت کی کبھی ضرورت محسوس ہوئی، کیونکہ جس مس کا میں نے دل جیتنا تھا وہ تو شاید مجھے ڈانٹنے کے بعد اپنا دل صاف کر چکی تھیں۔
آج بھی کبھی کبھی مجھے وہ مضمون یاد آتا ہے جس کا عنوان “استاد کا رتبہ” تھا، جو قابلِ اشاعت تھا مگر کبھی شائع نہ ہوا، لکین جس کے وجہ سے میرے قلم نے تخلیق کے سفر پر پہلا قدم رکھا تھا۔
[کوثر جمال]
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...