میں استاد لگڑ بگھڑ موڑوی ہوں جہاں میرا نام لیا جاتا ہے ادب کے عشاق آنکھیں جھکا لیتے ہیں کہ کس عظیم ادیب شاعر کانام لیا جا رہا ہے اور غالب کا شعر گنگناتے ہیں
زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے
یہ شعر میرے ذکر پر اور میری ادبی خدمات گنواتے وقت پڑھا جاتا ہے چونکہ اس ناہنجار مختارے سے سہواً مذکورہ شعر کوٹ ہونا رہ گیا تھا اس لیے میں نے خود ہی پڑھ لیا ہے۔میں نے اس قسم کے اور بھی بے شمار اشعار مختارے اور دوسرے شاگردوں کو یاد کرواٸے ہوٸے ہیں اور گاہے گاہے ان کو تاکید اور تنبیہ بھی کرتا رہتا ہوں کہ استاد کا ذکر کرتے وقت یہ اشعار پڑھنے ہیں۔
پچھلے دنوں عزیزی ادبی مختارا منظر عام پر آیا تھا اور اس نے حسب توفیق کچھ باتیں کی ہیں اللہ اس کی توفیقات میں مزید اضافہ فرماٸے۔ میں نے بھی ضروری سمجھا کہ میں وہ باتیں گوش گزار کر دوں جو عزیزی نے بوجوہ نہیں کہیں یا وہ نہیں کہہ سکا اور چند اعترافات میں بھی کروں تا کہ میری ادبی عاقبت بخیر ہو ویسے اس طرح کی امید باندھنا مجھے خود نامناسب سی بات لگتی ہے اور جو میرے کرتوت ہیں ان کو دیکھ کر بخشش بھی منہ چھپاتی پھرتی رہے گی اور میں اکثر ظہیر دہلوی کا یہ شعر دل میں پڑھتارہتا ہوں;ع
شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی
توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی
مگر تمام تلمیذان کو کہہ رکھا ہے کہ جب بھی یہ شعر پڑھیں تو سب کو بتاٸیں کہ یہ استاد لگڑ بھگڑ کا شعر ہے اور اگر وہ کہیں کہ نہیں تمہارے استاد نے سرقہ کیا ہے تو باجماعت اس کے لتّے لینے ہیں اور استاد عروضی کے ساتھ مل کر اس کے اشعار سے وزن کی غلطیاں نکالنی ہیں اور اس کے کلام سے شتر گربگی کی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے منہ پر مارنی ہیں۔
عزیزی مختارے سے بہت سی باتیں بیان کرنے سے رہ گٸی ہیں ان کا اظہار ضروری ہے کہ اگر ادب کی شمع آج استاد لگڑ بھڑ کے ہاتھ میں ہے تو میں چاہتا ہوں کہ علم اور ادب کہ یہ شاندار روایات نسل بہ نسل آگے چلے اور روشنی کا یہ سفر اگلی پود تک منتقل ہو۔سب سے ضروری اور بنیادی شرط یہ ہے کہ شہر سے مختلف شاگرد ڈھونڈنے ہیں اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے اس کے لیے ایک ادبی تنظیم کا ہونا ضروری ہے اس کے لیے سب سے پہلے ادبی تنظیم کے مناسب نام کی تلاش ہے اس کے لیے بہتر یہ ہے اس کا نام "حلقہ ڈکار ماراں غزل" مناسب ترین ہے۔ اس تنظیم کو رجسٹرڈ نہیں کروانا مگر شاگردوں کو یہی بتانا ہے کہ جلد ہی یہ تنظیم رجسٹرڈ کروا لی جاٸے گی۔جو شاگردوں کے دانے چننے ہیں وہ فُقرے نہیں ہونے چاہییں کیوں کہ استاد کے پاس دولت افکار اور دولت شعر و سخن ہے یہ ہاتھ کے میل والی دولت نہ استاد کے باپ دادا نے دیکھی اور نہ استاد نے۔
استاد وقت کی رفتار اور اس کے تقاضوں کو خوب سمجھتا ہے اور ہر مسٸلے کے حسن و قبح پر غور و خوض کر کے حکمت عملی مرتب کرتا ہے اور خود کو مسلسل اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے جب استاد میدانِ غزل میں کودا تھا تب ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں تھی تو ہم نے اپنے اشعار ٹرکوں کے پیچھے لکھواٸے تھے جہاں ایوب خان کی تصویر ہوتی تھی اس کے ساتھ ہمارا شعر درج ہوتا تھا، جس پرچے میں استاد کی غزل شاٸع ہوتی تھی اس کی تعریف میں دو درجن خطوط لکھواٸے جاتے تھے اب زمانہ بدل گیا ہے اور استاد بھی آن لاٸن ہو گیا ہے۔مجھے سوشل میڈیا پر پرموٹ کرنے کا فریضہ ادبی تنظیم " حلقہ ڈکار ماراں غزل" کی ذیلی تنظیم "کم چُک برادران" کے ذمے ہے اور کافی عرصے سے غزل کے فروغ کے لیے یہ تنظیم عمدہ کام کر رہی ہے۔ٹویٹر پر بھی فالورز کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔استاد اکثر ادبی مساٸل پر ٹویٹ بھی کرتا ہے کچھ نمونے مشتے از خروارے کے طور پر نقل کیے جا رہے ہیں۔مثلاً غزل نے استاد موڑوی کی تازہ کلام کے بعد نیا موڑ لیا ہے۔حلیم پر لیموں نچوڑ لیں طبیعت اور کلام میں روانی آ جاٸے گی۔منیر نیازی کا مقام استاد کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔جدت کے رنگ استاد موڑوی کے سنگ۔
مشاعروں کی اہمیت سے کون واقف نہیں تنظیم ڈکار ماراں غزل کا جو ماہانہ طرحی مشاعرہ ہوتا ہے اس کی فہرست پہلے استاد کو دکھاٸی جاتی ہے اور جو استاد کے دوست احباب ہیں ان کو ہی دعوت دی جاتی ہے باقی کسی شاعر کا نام ہو تو کٹوا دیا جاتا ہے یہی حرکت استاد ادبی کانفرنسوں کے موقع پر بھی کرتا ہے۔یہ کام ایک اور ذیلی تنظیم ”کن ٹُٹی اساسی“ کے سپرد ہے اس کو بھی استاد کی طرف سے علیحدہ داد۔اس مشاعرے کے آخر میں جب ہمیں دعوت سخن دی جاتی ہے تو ہدایت نامہ شاعر مرتّبہ ساقی فاروقی کے مقابلے ہدایت و شکایت نامہ سٹیج سیکرٹری مرتّبہ استاد کے مطابق ہمارے لیے مختلف القاب وضع کیے گٸے ہیں جو ہمارے تعارف کے طور پر پڑھے جاتے ہیں جیسے بیدلِ دوراں، قتیل شفاٸیِ زماں، مجدّدِ طرحی غزل جدید ہمارے ہی تحریر کردہ اور عطا کردہ ہیں اور ہماری عزت افزاٸی کے لیے مستعمل ہیں۔
ہم نے یہ بھی تلمیذان کو بتایا ہے کہ بیوروکریٹس کو بھی اپنی طرف لانا بلکہ کھینچنا ہے یہ جو شہروں میں افسران ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں اصل تے وڈا بیوروکریٹ ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے اس کو قابو کرنا ہے۔استاد کوٸی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہوا اس ڈپٹی کمشنر کو پھانسنے کا طریقہ بھی ہمارا ہی ایجاد کردہ ہے اس نسخے پر عمل کریں تو بڑے سے بڑا بیوروکریٹ آپ کی جانب کھنچتا چلا آٸے گا۔اس کے کان میں فقط یہ بات ڈالنی ہے کہ وہ اس دور کا قدرت اللہ شہاب ہے اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجودہ ہیں جو قدرت اللہ شہاب میں تھیں۔ویسے تو اس جملوی حملے کی تاب نہیں لا سکے گا اور تڑپتے ہوٸے محبوب کی طرح آپ کے قدموں میں پھڑک کر گرے گا بفرض محال یہ کلیہ کامیاب نہیں ہوتا تو ایک آزمودہ اور مجرب نسخہ بھی پیش ہے کہ اسے یقین دلانا ہے کہ آپ میں مصطفٰی زیدی بننے کے بہت امکانات ہیں بلکہ آپ کے سامنے اس کی بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
غیر ممالک کے زرِ مبادلہ پر بھی نظر رکھنی ہے اور ان ممالک میں خواتین شاعرات کو شعری مجموعے پہ مجموعے لکھ کر دینے ہیں اور ان کے نام سے شاٸع کروا کے ان کی مت مار دینی ہے جب وہ کہیں کہ وہ تو شعر کی الف ب بھی نہیں جانتیں اور فوراً کہنا ہے استاد لگڑ بھگڑ بھی نہیں جانتا۔ان سے غیر ممالک میں مشاعروں کا انتظام کروانا ہے اور انہیں نٸی پروین شاکر کا خطاب دینا ہے۔یہاں فاٸیو سٹار ہوٹل میں ان کے اعزاز میں تقریبات پہ تقریبات رکھنی ہیں اور بل ان سے ہی دلوانا ہے۔کسی چینل والے سے منت ترلا کر کے میڈیا کوریج بھی کروانی ہے۔
آخر میں بڑے بڑے زعما ادبا اور شعرا سے نٸی نسل کے لیے پیغام کی بھی درخواست کی جاتی ہے اگرچہ ہم سے درخواست نہیں کی گٸی پھر بھی ہم پیغام ریکارڈ کرا دیتے ہیں۔
اس وقت کرونا کی وبا نے جینا حرام کیا ہوا ہے تمام دنیا کے ساٸنسدان سر جوڑ کر بیٹھے ہوٸے ہیں کہ کسی طرح اس موذی مرض کی ویکسین تیار کی جاٸے استاد کو یقین ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے لہذا اس وقت نٸی نسل کے شعرا کا فرض بنتا ہے کہ وہ سامنے آٸیں اور جنگی بنیادوں پر کرونا پر غزلیں اور نظمیں لکھیں کہ کرونا کا مکّو بھی آپ نے ہی ٹھپنا ہے اور اس کا بیں بھی آپ نے ہی مارنا ہے۔
وما علینا الالبلاغ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...