استاد دامن کا ایک چاہنے والا اُن کے لیے دیسی گھی میں پکے دو پراٹھے لے کر آیا۔ استاد دامن نے پراٹھے ایک طرف رکھے اور اُٹھ کر ایک بڑا سا پیالہ لیا جس میں چینی ڈالی۔ ایک پراٹھے کو توڑا اور پیالے میں ڈھیر ساری چُوری بنا لی۔ پھر اُٹھے اور کمرے کے چاروں کونوں میں وہ چُوری زمین پر ڈال دی اور واپس آ کر مہمان کو کہا کہ لو ایک پراٹھا مل کر کھائیں۔
مہمان پریشانی سے زمین پر گری چُوری پر نظریں مرکوز کیے تھا کہ اچانک بہت سے بڑے بڑے چوہے کونوں کھدروں سے نکلے اور تیزی سے چوری کھانے لگے۔ مہمان نے حیران ہو کر پوچھا کہ استادِ محترم یہ کیا؟
ہنس کر جواب دیا چُوری ہے اور چوہے کھا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے کے چاروں طرف دیکھو۔ میری ساری عمر کی کمائی۔ میرا خزانہ میری کتابیں تمہیں ہر طرف نظر آئیں گی۔ چوہے خوش ذائقہ چوری کے عادی ہیں۔ ان کو اب کتابوں کے کاغذوں کا بے مزہ ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے چوہوں کو چوری کھلانے کا فائدہ یہ ہے کہ میری کتابیں محفوظ ہیں۔میرا خزانہ محفوظ ہے۔ تم بھی اگر اپنے کسی بھی خزانے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اردگرد کے چوہوں کا خیال رہو۔ انہیں چوری ڈالتے رہو۔ سدا سکھی رہو گے۔
پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد استاد نے مہمان سے مخاطب ہو کر کہا ۔
زندگی بھر ایک بات یاد رکھنا ، رب العزت زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں کچھ دے۔ اُس میں سے کچھ حصہ اپنے اردگرد موجود چوہوں کو ضرور بانٹ دیا کرو ۔ کیونکہ چوہوں کی ہر اُس چیز پر نظر ہوتی ہے جو تمہارے پاس آتی ہے۔ یہ چوہے کوئی اور نہیں تمہارے قریبی لوگ ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔
برادرم سرفراز سید کی ایک یاد:
کافی عرصہ پہلے میں ، سائیں اختر (’’ اللہ میاں تھلے آ ‘‘ نظم والے ) کے ساتھ استاد دامن سے ملنے گیا۔ سائیں اختر نے انارکلی کی مشہور دکان سے آدھا کلو موتی چور لڈو خریدے۔
میں کہا ’’ سائیں جی،استاد جی کو تو شائد مٹھائی کھانے کی اجازت نہیں!‘‘
سائیں نے کہا ’’ وہاں جا کر دیکھ لیں مٹھائی کا کیا بنتا ہے!‘‘
استاد دامن بادشاہی مسجد کے سامنے مشہور صوفی شاعر شاہ حسین والے حجرے میں رہتے تھے ۔ (یہاں فیض احمد فیض اور صوفی تبسم استاد جی کے ہاتھوں کے پکے ھوئے بٹیرے کھانے کے لئے آیا کرتے تھے).
ھم حجرے میں پہنچے۔استاد بہت محبت سے ملے۔ سائیں اختر سے کہا،
مہمانوں کا کھانا لائے ہو؟
سائیں نے لڈو پیش کئے۔ استاد اٹھے، لڈئوں کو توڑ کر دیواروں پر لگی پڑ چھتیوں ( شیلفیں) پر بیشمار پرانےاخبارت اور رسالوں کے ڈھیروں کے سامنے جگہ جگہ رکھ دیا۔ اک دم پیچھے سے بہت سے چوھے نکل آئے اور لڈو کھانے لگے۔ دلچسپ منظر تھا۔
استاد بتانے لگے کہ پہلے جو بھی خوراک ڈالتا تھا وہ انہیں جلدی ہضم ھو جاتی تھی اور یہ کتابوں کو کترنے لگتے تھے۔ لڈو بہت دیر میں ہضم ھوتے ہیں، یہ اگلے روز شام تک چپ پڑے رہتے ہیں۔
میں نے کہا ’’ انہیں نکال کیوں نہیں دیتے؟ ‘‘
کہنے لگے، ’’سرفراز صاحب! یہ شاہ حسین کے مہمان ہیں، میں کیسے نکال دوں!‘‘
“