جب کسی قوم میں اس کی زبان اپنا احترام کھونے لگتی ہے تو اس زبان کے محترم ترین الفاظ بھی اپنا وقار کھو دیتے ہیں۔ اسی طرح طبقاتی سماج میں الفاظ بھی اپنے اپنے طبقے کی توقیر و تحقیر کا ورثہ سنبھالتے ہیں۔ انھی لفظوں میں دو الفاظ "استاد اور استانی" ہیں جو ہم نے بچپن میں پڑھے تھے اور پھر سکول کی ابتدائی جماعتوں کے کسی کمرہ جماعت میں چھوڑ آئے۔ کسی محلے میں رہنے والا پرائمری کا استاد ادریس احمد اپنی پرانی سی سائکل پر سوار گلی کا موڑ مڑا اور پھر ہمیشہ کے لیے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ کچھ یہی سلوک ہمارے معاشرے اور ہماری یادداشت نے استانی رحمت بی بی کے ساتھ کیا۔۔۔۔۔ البتہ، معاشرہ الفاظ کو طبقاتی مراتب دینے اور نسیان گھاٹ اتارنے میں جو تیزی دکھاتا ہے وہ تیزی لغات میں قدرے کم ہوتی ہے۔
چند عشرے ادھر کی ایک شام اور خفت و استہزا بھری معنی خیز مسکراہٹیں آج یاد آ گئیں۔ یہ اسلام آباد کے چینی سفارت خانے کے خوبصورت فوئر میں چین کے یومِ آزادی کی استقبالیہ تقریب کا منظر ہے۔ اسلام آباد میں دیگر ممالک کے سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ مقامی ادیب، صحافی، دفترِ خارجہ کے بعض افراد اور اسی طرح کچھ چین نواز پاکستانی سیاستدان، دانشور خواتین و حضرات میں وہ دونوں بھی شامل تھیں جو چین سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب مقامی یونیورسٹی کے شعبہ چینی میں لیکچرر تھیں۔ ۔۔ جی ہاں "لیکچرر" ۔۔۔۔ چینی سفارت خانے کے میزبانوں میں چین کا کلچرل اتاشی شان بھی شامل تھا جو پیکنگ یونیورسٹی سے اردو میں گریجوئشن [ایم اے] کے بعد وزارتِ ثقافت کی ملازمت سے ہوتا ہوا اب ڈپلومیٹ بن چکا تھا۔ وہ ان دونوں کو یونیورسٹی کے زمانے سے جانتا تھا۔ شان مختلف مہمانوں کا ایک دوسرے سے تعارف کراتے ہوئے جب ان دونوں تک پہنچا تو پرانی پہچان اور دوستی کی وجہ سے اس نے زیادہ اپنائیت محسوس کی اور دور ہی سے مارے جوش کے چلایا: "آ ہا ، ہماری چینی زبان کی استانیاں، خوش آمدید، خوش آمدید ۔۔۔۔ وہ دونوں یہ سن کر خفت بھری ہنسی ہنس دیں، گردنیں مڑیں اور پھر وہاں موجود وہ پاکستانی بھی اس ہنسی میں شامل ہو گئے جو انھیں جانتے تھے اور لفظ "استانی" کے نشیب و فراز بھی سمجھتے تھے۔۔۔۔۔ شان، جس نے غلط سمے پر صحیح اردو بولی تھی، حیران و پریشان سوچنے لگا کہ کیا اس نے کچھ غلط کہہ دیا تھا۔