حال ہی میں مجھے ڈاک کے ذریعے محترمہ عثمانہ اختر جمال کی تصنیف ’’ لکھنؤ کی تہذیب ‘‘ موصول ہوئی ہے ۔یہ کتاب جسے فضلی بُک،کراچی نے نومبر 2022ء میں شائع کیاہے ایک ایسا جامِ جہاں نما ہے جس میں پوری دنیا کی تہذیبی اقدار کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے ۔ امریکہ میںمقیم ممتاز بھارتی ادیبہ محترہ عثمانہ اختر جمال دنیا بھر کی خواتین کوولولہ ٔ تازہ عطا کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہیں ۔ لکھنؤ کے شہر ِ نگاراں کے زندہ دِل ،شگفتہ مزاج ،مخلص، با وفا اور ہمدرد لوگوں کی تہذیب کی امین محترمہ عثمانہ اختر جمال اپنی اس تصنیف کا تعارف کراتے ہوئے لکھاہے :
’’یہ نوابوں کا شہرہے ،یہ مسکرانے کا شہر ہے ۔یہ میر تقی میرؔ کا شہرہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ میرا شہر ہے ۔جب تک میں لکھنؤ سے باہر نہیںنکلی تھی مجھے معلوم ہی نہیں تھاکہ لکھنؤ کے پاس تہذیب کااتنا بڑا خزانہ ہے ۔اس خزانے کی اتنی شہرت ہے سُنی ہوئی باتوں کے ساتھ اپنی خوددیکھی ہوئی باتیں اور واقعات یاد آنے لگے۔‘‘
اپنی یادداشتوںکو سمیٹتے ہوئے محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اِس کتاب میںیہی پیغام دیا ہے کہ ہجوم ِغم میں بھی دِل کوسنبھالتے ہوئے مسکرائیے کہ آپ لکھنؤ کی تہذیب کے بارے میں پڑھ ر ہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ دور میں نشر و اشاعت اور اظہار و ابلاغ کے شعبوں میں انقلاب بر پا ہوچکا ہے ۔فیس بُک ،یو ٹیوب ،برقی کتب ،ای میل،ڈائجسٹ، علمی و ادبی ویب سائٹس اور اخبارات و جرائد نے افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے متعد د نئے امکانات تک رسائی آسان بنا دی ہے ۔محترمہ عثمانہ اختر جمال نے جدید دور کے اِن تمام ذرائع ابلاغ سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔اُن کی تخلیقی تحریریں بر صغیر کے جن ممتازادبی مجلات کی زینت بنیں اُن میںالاقربا،اسلام آباد( پاکستان)، تریاق ممبئی، تمثیل ِ نو کلکتہ ، دیدہ ور ،بوسٹن۔ امریکہ ،خرمن :پاکستان ،بھارت ، پاکیزہ آنچل دہلی ،مشرقی دلھن دہلی، لاریب لکھنؤ ،بیسویں صدی دہلی، شعر و سخن کینیڈا ، اُردو لِنک امریکہ اور ہفت روزہ گواہ ( حیدر آباد،بھارت ) شامل ہیں ۔کشمکش ِ دہرسے آ شنالوگ جانتے ہیں کہ سیلاب حیات کا بلاخیز طوفان نہایت سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے ۔ اس کے مہیب گرداب میں آلام ِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والے سوزِ غم سے نڈھال مظلوم اور قسمت سے محروم انسان خس وخا شاک کے مانندبہتے چلے جا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس آشوب میں کوئی بھی دُکھی انسانیت کا پرسان حال نہیں ۔آفتاب ،مہتاب ،کہکشاں ،بیاباں میں کھلنے اور بکھرنے والے گل ہا ئے رنگ رنگ کا قدر شناس کو ن ہوگا؟ہوس نے جہاں نوع انسان کو انتشار اور زبوں حالی کی بھینٹ چڑھایا وہاںاس کے تباہ کن اثرات سے نئی نسل بے حسی کا شکار ہوگئی اور قلب وروح بالکل مردہ ہوچکی ہے ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اپنی اس کتاب میں واضح کیا ہے کہ اس خطے میں تہذیبی نمو کا سلسلہ سمے کے سم کے ثمر سے متاثر نہ ہوا۔ اپنی جنم بھومی لکھنو کے حوالے سے اُن کے اسلوب میں متعدد آفاقی صداقتوں کا پرتو ملتا ہے ۔ زندگی میںنئے مفاہیم کی جستجواس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔ خاکِ وطن سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کے اسلوب کو روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترجانے والی اثر آفرینی سے متمتع کرتاہے ۔ اپنی جنم بھومی سے دُوری کا احسا س اُن کی تحریروں کانمایاں وصف ہے ۔جس خلوص اور درد مندی سے انھوں نے لکھنؤ کی یادوں اور تہذیبی اقدار کو زیبِ قرطاس کیا ہے وہ اُن کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ وطن سے دُوری ایک مجبوری بن جائے تو انسان کو جس کرب سے دوچار ہوناپڑتاہے وہ ایک صبر آزما مرحلہ ہے ۔محترمہ شبنم شکیل نے دِل پر گزرنے والے موسموں کے حواے سے سچ کہا تھا:
جوبیتی ہے وہ دہرانے میں کچھ وقت لگے گا اس غم کو اک یاد بنانے میں کچھ وقت لگے گا
یہ مت سمجھو دنیا والو تھک کر بیٹھ گئے ہم پچھلی چوٹو ں کو سہلانے میں کچھ وقت لگے گا (شبنم شکیل)
پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میںتانیثیت پر مبنی تنقیدی انداز فکرنے اپنی اہمیت ، افادیت اور مقبولیت کا لوہا منوایا ہے ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے ادب اور فنون لطیفہ میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی ہے ۔ فطرت اورماحول سے خواتین کی یگانگت اور گہرا ارتباط ان کی تحریروں کاامتیازی وصف ہے ۔ اِسی کے معجز نما اثر سے جہدللبقاکے موجودہ زمانے میں اُن تخلیقی تحریریںخود اپنا اثبات ہیں ۔ موجودہ زمانے میں عالمی ادب میں نفسیاتی حوالے سے عورت ، جنس اور جذبات کونمایاں حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ ارضی ،ثقافتی اور تہذیبی حوالے سے محترہ عثمانہ اختر جمال کی تحریریں خلوص اور درد مندی کی مظہر ہیں ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال کے اسلوب میں جس انداز میں بے لوث محبت کے جذبات سرایت کر چکے ہیں وہ ان کی تخلیقی تحریروں میںنمایاں ہیں ۔تانیثیت پر مبنی تخلیقی تحریروںمیں جہاں حیایتاتی تناظر میں بات کی جاتی ہے وہاں تہذیبی ،ثقافتی اور عمرانی مسائل کے تنوع پر بھی اُن کی توجہ مرکوز رہتی ہے ۔ عالمی کلاسیک کا جائزہ لینے کے بعد یہ احسا س ہوتاہے کہ بعض ناقدین حسن صورت کو تخیل کا منبع قرار دیتے ہیںمگر محترمہ عثمانہ اختر جمال کے اسلوب کے سوتے مٹی کی محبت سے پھوٹتے ہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانیت ، وطن اور اہلِ وطن کے لیے ایثار ، وفا ، محبت اور ہجر و فراق کے موضوعات پراُن کا انداز دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے اور سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں اور بے حِس مجسموں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو الیتاہے ۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تہذیبی ارتقا ایک واضح صداقت کا نام ہے جس میں سے رنگ ،خوشبو،حسن و جمال، راحت و مسرت اور آسودگی کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔ اسے ایک خاص طبقے یا صنف کی تخلیقات کا مخزن قرار دینا درست نہ ہوگا ۔تاریخ کے پیہم رواں عمل کو ذہن میں رکھتے ہوئے حیاتیاتی عوامل کی بنا پر کسی بھی خطے کی تہذیب کو مستقل نوعیت کی اہمیت ملنی چاہیے ۔تہذیبی اقدارسے متعلق یادیں لمحات کے بجائے صدیوں کے سفر کی علامت ہیں ۔ لکھنو ٔ کی تہذیب پر لکھی گئی یہ تصنیف اپنے دامن میں متعدد تاریخی صداقتیں لیے ہوئے ہے ۔لکھنؤ کے ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹیوں میں آصف الدولہ ،خواجہ حیدر علی آتشؔ، میر حسن ، میر انیس ، میر خلیق ،مرزا سلامت علی دبیر ؔ،میر تقی میر ؔ،غلا م ہمدانی مصحفی ؔ،محمد رفیع سوداؔ،عبد الحلیم شررؔ، محسن کاکوروی ، رجب علی بیگ سرورؔ ،امیر مینائی ،اسرار الحق مجازؔ ، سیّد فضل الحسن حسرتؔ موہانی ،اما م بخش ناسخ ؔ،عرفان صدیقی ،قلندر بخش جرأتؔ ،شوقؔ لکھنوی ،منشی سجاد حسین ،مصطفیٰ خان یک رنگؔ ،پنڈت دیا شنکر نسیمؔ ،رتن ناتھ سرشار ؔ،مرزا واجد حسین یاسؔ یگانہ چنگیزی ،امانتؔ لکھنوی ،آنند نرائن ملا،عزیزبانو دراب وفا،بہزاد لکھنوی ،مرزاہادی رسوا ؔ،منشی نول کشور ،نو شاد علی اور واجد علی شاہ اختر شامل ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں اردو زبان و ادب کے قارئین لکھنوی تہذیب کے ان معماروں کے سامنے کلاہ کج کرتے رہیں گے ۔
سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو نیست ونابود کر دیتے ہیں مگر تہذیب جواندیشۂ زوال سے نا آشناہے ہمیشہ محفوظ رہتی ہے ۔محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اپنی تخلیقی تحریروں کے وسیلے سے لکھنؤ کی صدیوں پرانی تہذیبی میراث کو نئی نسل تک منتقل کرنے کے سلسلے میں جس فنی مہارت کا ثبوت دیاہے وہ اُن کی فہم وفراست ،تاریخ سے دلچسپی ،دیانت ،ادبی لگن اور خلوص کاابد آشنا نمونہ ہے ۔ لکھنوی تہذیب کی عکاس یہ تصنیف اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک خاص بودو باش رکھنے والی اور منفرد طرز معاشرت کی حامل ایک فطین ادیبہ سے منسوب ہے ، جہاں کی ہر ادا جہان دیگر کی مظہر ہے ۔ آسماں در آ سماں اسرارکی پرتوں میںپنہاں نظام ہستی کی تفہیم پر توجہ دے کر محترمہ عثمانہ اختر جمال نے ’’ لکھنؤکی تہذیب‘‘ لکھ کر لکھنوی معاشرے میں زیست کی توانائی کوسامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔ فہمیدہ ریا ض نے اپنی آزاد نظم ’’ زادراہ ‘‘ میں جو سوال کیا ہے وہ تہذیبی استحکام کے سلسلے میں ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے :
طویل رات نے آنکھوں کو کردیا بے نور
کبھی کو عکس سحر تھا ، سراب نکلا ہے
سمجھتے آئے تھے جس کو نشان منزل کا
فریب خوردہ نگاہوں کا خواب نکلا ہے
تھکن سے چور ہیں ، آگے بڑھیں کہ لوٹ آئیں
اپنی تحریروں میں محترمہ عثمانہ اختر جمال نے ہمیشہ حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں ادب میں سب سے زیادہ نقصان دہ بات یہ رہی ہے کہ قارئین کی سوچ معطل اور ارادے تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔امرتسر کا قصاب ( ڈائر ) اور اس کے آقا یہ چاہتے تھے کہ اِس خطے میں شعری اور ادبی پذیرائی کم ہوجائے اور استعماری نظام کے پروردہ نام نہاددانش ور اور بغل بچہ قماش کے نقاد اپنے شحصی وجود کو منوانے پر زور دینے لگیں ۔نسائی لب و لہجے ا پناتے ہوئے نسل نو کو تعلیم وتربیت کے ذریعے تہذیبی وثقافتی میراث کی منتقلی محترہ عثمانہ اختر جمال کا ایسا فقید المثال کا ر نامہ ہے جس کے اعتراف میں ہر عہد کے با شعور قارئین کی گردن خم رہے گی ۔اس سلسلے میںانھوں نے جس وسعت ِ نظر کے ساتھ لکھنو کے بام و در اور اس کے مکینوں کے رہن سہن کی لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس رہا ہے کہ تہذیبی وثقافتی اقدار وا روایات کی نمووقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ اس میں کسی کوتاہی کا ارتکاب ایک مہلک غلطی ہے جو پورے معاشرے کو بے حسی کی بھینٹ چڑھا سکتی ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں اردو ادب میں تہذیبی ارتقا پر بالعموم مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اپنی اس تحقیقی تصنیف ’’ لکھنؤ کی تہذیب ‘‘میں قلزم ہستی میں معاشرتی زندگی کے بارے میںاُٹھنے والی لہروں کی جانب متوجہ کیا ہے ۔انھوں نے بے حسی کے مسلط کردہ سکوت اور بے عملی پر کاری ضرب لگائی ہے ۔اُن کی نگاہیں اس خطے کے ماضی ِحال اور مستقبل پر مرکو ز ہیں ۔لکھنو ٔ کی تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے معاشرتی زندگی میں انسانی مساوات ،عدل و انصاف او رسلطانیٔ جمہور کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ہر عہد کے لوگوں کے لیے نشانِ منزل ثابت ہو گا۔انھوں نے اپنی جنم بھومی کے بارے میں شعور وآ گہی کی جو مشعل فروزاں کی ہے اُس کے معجز نما اثر سے سفاک ظلمتیں کافور ہو ں گی اور حوصلے کو نئی جہت نصیب ہو گی ۔
بر صغیر کی خواتین نے ہر دور میں تاریخی آگہی(Historical Awareness) اور عصری آگہی پر توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ ان ہاں معروضیت (Objectivity) کا عنصر نمایا ں رہاہے۔اُن کی تخلیقی تحریروں میںمابعد جدیدیت کی ایک پیچیدہ (Complex) صورت حال واضح دکھائی دیتی ہے ۔ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعدجب اس خطے میں سلطانیٔ جمہور کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تو مٹی کی محبت کا جذبہ زیادہ جوش اور ولولے کے ساتھ اُبھرا۔پس نو آبادیاتی دور میں اِس خطے کی خواتین نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کردیا کہ ان اقدار و روایات کو پروان چڑھانا چاہیے جن کے اعجاز سے تہذیبی تحفظ اور معاشرتی زندگی میں خیر وفلاح کے امکانات کو یقینی بنایا جاسکے ۔محترمہ عثمانہ اختر جمال نے مقدور بھر کوشش کی کہ ہر مصلحت سے بالا تر رہتے ہوئے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا جائے اور اخلاقیا ت کے ارفع معیار تک رسائی پر توجہ دی جائے ۔ انفرادی اور اجتماعی لاشعور کی جو کیفیت محترمہ عثمانہ اختر جمال کی تخلیقات میں جلوہ گر ہے اس کا تعلق دروں بینی سے ہے۔ انھو ں نے حیاتِ مستعار کے حبس زدہ زندان میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کرنے والی غریب عورتوں کی حالتِ زار پر چشم کشا حقائق سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔ شاعری اور افسانہ نگاری کے فن میں اُن کے اسلوب کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔ انھوں نے کٹھن حالات میں بھی شمع وفا کو فروزاں رکھاہے اور مظلوم ، محروم اور مجبور عوام سے جو عہد وفاکیا اسے ہر حال میں استوار رکھنے کی سعی کی ۔معاصر اردو ادب میں جن خواتین نے تہذیبی ترفع کی خاطر پرورش ِلوح و قلم میں گہری دلچسپی لی اُن میں الطاف فاطمہ، افضل تو صیف، امرتا پریتم ، ادا جعفری ، انیس بانو ،بانو قدسیہ ، باراں فاروقی ،بسمل صابری ،پروین شاکر ، پروین فنا سیّد ،بلقیس ظفیر الحسن ،پروین ملک، پروین شاکر ، جہاں آرا حبیب اللہ ،جمیلہ ہاشمی، حمیدہ اختر حسین رائے پوری، خالدہ حسین، خدیجہ مستور، ذکیہ بدر، رضیہ بٹ ،رضیہ فصیح احمد ، زاہدہ حنا، زہرہ نگاہ ،سارا شگفتہ ، سلمیٰ صدیقی ،صالحہ عابد حسین ، صفیہ اختر ،صدیقہ بیگم ،عصمت چغتائی، عذرا پروین ،عثمانہ اختر جمال ، فاطمہ حسن ، فرخ زہرا گیلانی ، فرزانہ اعجاز ،فہمیدہ ریاض،قرۃالعین حیدر ، کشور ناہید ، گلنار آفریں ، ڈاکٹر حمیرہ سعید، ڈاکٹر گُلِ رعنا، مخفی لکھنوی ،ممتاز شیریںاور ہاجرہ مسرور کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اسی درخشاں روایت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے جس کے نقوش ان منفرد اسلوب کی حامل خواتین کی تحریروں میں ملتے ہیں ۔ تہذیبی بقا کی خاطر جدو جہد کرنے کے سلسلے میں ہر عہد کے ادب میں ان یگانۂ روزگار خواتین کے اسلوب کے اثرات موجود ہیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔آج ہمیں ہوا کی دستک کو سن لینا چاہیے کہ آنے والی رت بہت کڑی ہے۔ تہذیبی تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر اور حصار جبر کی اندھی فصیل کو منہدم کرنے کے لیے کوبہ کوبہ بیداری کا پیغام پہنچانا ہوگا ۔ بے چہرہ لوگوں اور بے در گھروں میں حوصلے اور امید کی شمع فروزاں کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ امن عالم اورتہذیبی تحفظ کے لیے خواتین میں احساس ذمہ داری اور بیداری کی جو لہر پیدا ہو گئی ہے وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال کی تمنا ہے کہ اہلِ لکھنوکو جہادِ زندگانی میں اُن کے آ با کی ستیز سے آ گا ہ کیا جائے تا کہ معاشرتی زندگی میںعیش و عشرت سے نمو پانے والے جمود و سکوت کے عفریت کا خاتمہ کیا جائے ۔
محترمہ عثمانہ اختر جمال نے لکھنؤ کی سر زمین کو تہذیب کے ایسے معد ن سے تعبیر کیا ہے جہاں سے تاریخ کے ہر دور میں نادر ہیرے جواہرات نکلے ہیں۔اپنی اس تصنیف میں انھوں نے لکھنؤ کی تہذیب کی نسل درنسل منتقلی کے صدیوں پر محیط عمل پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے ۔ اس تصنیف میںلکھنوکی زندگی کا جو منظم ،مربوط اور دلچسپ ا حوال لکھا گیا ہے اُس سے علم و ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔
محترمہ عثمانہ اختر جمال کی تصانیف
رعنائیاں درد کی ( شاعری ) عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی ،تتلیوں کے رنگ ( افسانوی مجموعہ ) ، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی،تین گلاب ( افسانوی مجموعہ ) فضلی بُک کراچی، پاکستان ۔
افسانوی مجموعے: عظمت کا ستون ،سسکیوں کی آواز،زخم جدائی ،دِل کی معصوم صدا ،ونتی ( ہندی) ،چاندنی کا تحفہ ( ہندی) زیر طبع ہیں۔شعری مجموعہ اُجالوں کی رہ گزر اُردو اور ہندی میںجلد شائع ہو گا۔
ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ لکھنؤ کے باشندے بہت مہذب ہیں اور وہاں کسی قسم کی عصبیت موجود نہیں ۔ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں امن کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔مسلمانوں کی عظیم تقریب عید میلاد النبی ﷺ کے بارے میں محترمہ عثمانہ اختر جمال نے لکھاہے :
’’ ربیع الاول کے مہینے میں گھر گھر سے مجلس کی آوازیں آتی تھیں اور پورے مہینے یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ بارہ ربیع الاوّل کو گھر گھراور پورے شہر میںروشنی ہوتی تھی۔۔۔گیارہ ربیع الاوّل کوپوری رات مشاعرہ ہوتاتھا۔جس میں پوری دنیا کے شاعر مدعو کیے جاتے تھے اور مشاعر ہ سننے والوں میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہوتے تھے۔سُناہے کہ جگر مرادآبادی نے اپنی مشہور نعت ’’ ایک رِند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ ‘‘لکھنؤ کے اِس مشاعرے میں رو رو کر پڑھی تھی اور پُوری پبلک کو رُلا دیا تھا۔‘‘ ( عثمانہ اختر جمال :لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ25)
اِک رِند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطانِ مدینہ
اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِ سلطانِ مدینہ
لکھنؤ شہر کے باشندوں نے صدیوںسے اجتماعی مساعی کو رو بہ عمل لاتے ہوئے معاشرتی فلاح کو مطمح نظربنا رکھا ہے ۔معاشرتی زندگی میں افراد کے باہمی تعلقات اور اُن کے حقوق وفرائض کوبہت اہمیت حاصل ہے اِس کے معجزنمااثرسے امن و عافیت اورمسرت و راحت کاماحول پروان چڑھتاہے ۔ جدید دور میں معاشرے کی حیات آفریں اقدار کا ذکر کرتے ہوئے مصنفہ نے حرفِ صداقت سے قلبی وابستگی کا اظہار کیا ہے ۔اپنے بارے میں تمام حقائق بیان کر کے انھوں نے یہ واضح کر دیاہے کہ حالات اور واقعات کی لفظی مرقع نگار ی کرتے وقت اپنی ذات کا احتساب از بس ضروری ہے ۔تاریخ اور تہذیب کے موضوع پر لکھتے وقت انھوں نے ماضی کے واقعات پر پڑی ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد کو صاف کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔ شہروں کی تہذیب کے موضوع پر لکھنا بڑی احتیاط کا متقاضی ہے ۔یہاں تحریر اور تحریرِ نو کا ایک غیر مختتم سلسلہ جاری رہتاہے جو فعالیتیں آج مقبول ہیں ممکن ہے کہ مستقبل قریب میںلوگ انھیں نظر انداز کر دیں ۔وہ ماضی کے عظیم واقعات سے مواد اور مآخذ کو تلاش کرتی ہیں ۔ اُن کاخیال ہے کہ معاشرتی زندگی کے معمولات کو ایک ایسے ضابطے کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے جو افراد کی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے ۔ لکھنو کی تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے مصنفہ نے یہاں کی مذہبی روادار ی کا حوالہ دیا ہے ۔لکھنؤ کے محرم کے بارے میں محترمہ عثمانہ اختر جمال نے بہت عمدہ پیرائے میں حقائق زیب قرطاس کیے ہیں ۔انھوں نے کر بلاکے شہیدوں کی عظیم قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھاہے :
’’محرم کے غم میں ڈُوبے ہوئے دس دِن لکھنؤ کی تہذیب کا بہت اعلیٰ نمونہ تھے ۔سب ہندو ،مسلم ،سکھ عیسائی تعزیے رکھتے تھے ۔ ۔۔خوب صورت ،عالی شان اِمام باڑوں میںروشنی ہوتی تھی ۔سڑکوں پر جاڑوں میں چائے کی اور گرمی میں شربت کی سبیلیں لگتی تھیں ۔لکھنؤ کا محرم اپنے غم اور اپنے وقار کے لیے پور ی دنیا میںمشہور ہے ۔‘‘ ( عثمانہ اختر جمال :لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ 24)
لکھنؤ میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا عشرہ محرم میں نواسۂ رسول ﷺ کی شہادت پر مجالس میں شرکت کرنا اس شہر کو ممتاز حیثیت عطا کرتاہے ۔
لکھنؤ میں عاشورہ محرم کے بارے میں محترمہ عثمانہ اختر جمال نے لکھا ہے:
’’محرم کے غم میں ڈُوبے دس دِن لکھنؤ کی تہذیب کا بہت اعلیٰ نمونہ تھے ۔سب ہندو ،مسلم ،سکھ، عیسائی تعزیے رکھتے تھے ۔رام سوا رُوپ کا تعزیہ باجوں کے ساتھ اُٹھتا تھا۔رام سوا رُوپ ہندو تھے ۔اُن کوحضرت اِمام حسینؑ سے بہت عقیدت تھی اس لیے وہ تعزیہ رکھتے تھے۔اُن کے گھر کاتعزیہ غمگین دُھن بجاتے ہوئے باجوں کے ساتھ اُٹھتا تھا۔دس دِن تک اُن کا غم میں ڈُوبا باجا بجتا رہتا تھا۔‘‘ ( عثمانہ اختر جمال :لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ24)
کوفہ اور شام کی سفاک سپاہ کے جبر اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے احوال کے نتیجے میں اُن کا نام و نشاں تاریخ کے طوماروں میں دب گیا مگر کاروانِ حسینؑ آج بھی روشنی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔جوش ملیح آبادی نے شہیدِ کربلا حضرت امام حسین ؑکے حضور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک رباعی میں کہا تھا :
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؑ
چرخِ نوع ِ بشر کے تارے ہیں حسین ؑ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؑ
اس کتاب میں محترمہ عثمانہ اختر جمال نے حریت ِ فکر و عمل پر انحصار کرتے ہوئے مدلل انداز میں یہ واضح کیا ہے لکھنؤ کے باشندوں نے اپنی فہم و فراست اور تدبر و بصیرت سے کام لیتے ہوئے اقتضائے وقت کے مطابق تاریخ کے ہر دور میں عصری چیلنجز کا پوری قوت سے جواب دیا ۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ تہذیب کے متعلق حقائق کوجمع کرنا تاریخی اہمیت و افادیت سے لبریز ایسا تحقیقی اور تخلیقی عمل ہے جو وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ لکھنو ٔ کے بارے میں جو کچھ انھوں نے سُنا،دیکھا اور محسوس کیا وہ انھوں نے من و عن بیان کر دیا ہے ۔لکھنؤ کی معاشرتی زندگی سے وابستہ تمام حقائق کوانھوں نے پوری دیانت سے بیان کیا ہے ۔ لکھنؤ کے باشندے ذوقِ سلیم اور بصیرت سے متمتع ہیں اسی بناپر وہ اپنی تہذیب کومستحکم انداز میںپروان چڑھانے میں کامیاب ہو گئے ۔اپنے اسلوب کو حق گوئی و بے باکی سے مزین کرنے والی اس جلیل القدر ادیبہ نے ذاتی مشاہدات،تجربات اور مطالعہ کو جس محنت سے الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے اُس کے اعجا زسے قاری چشمِِ تصور سے لکھنوی تہذیب کوپروان چڑھتے دیکھ لیتا ہے ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے تکلم کے سلسلوں میں تہذیب کی جستجو بہت دلچسپ انداز میں کی ہے ۔لفظ ’’ گھومنا ‘‘ کے استعمال پر انھوںنے بہت خوب لکھا ہے ۔مصنفہ نے اپنی رو ح ور قلب کی گہرائیوں میں مو جزن خیالات کو نہایت موثر انداز میں الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے ۔ لکھنوی تہذیب کے ذکر میں شہر لکھنو کو ایک علامت سمجھنا چاہیے جو ایک نفسیاتی کُل کی صورت میں جلوہ گر ہے ۔در اصل مصنفہ نے دنیا بھر کے شہروں کو تہذیبی تار میں پروئے ہوئے ایسے دانوں کی ایک صورت سمجھا ہے جو اپنے اپنے مقام پر اپنے وجود کا اثبات کرتاہے ۔ لکھنؤ کی دعوتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے وہ خود بھی ان دعوتوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔یہی بے ساختگی ہے جو قاری کو چشمِ تصور سے اُن تمام مقامات اور کرداروں سے متعارف کرا دیتی ہے جن کا مصنفہ نے اس کتاب میںذکر کیا ہے ۔ لکھنؤ کے باشندے محض اسی شہر کے روز وشب میں اُلجھ کر نہیں رہ جاتے بل کہ وہ کہکشاں پر ضو فشاں ستاروں سے بھی آگے کے جہانوں کی تسخیر کی تمنا اپنے دِل میں لے کر آگے بڑھنے اور گھوم پھر کر دنیا دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ آئیے دھنک کے اُس پار دیکھیں اور محترمہ عثمانہ اختر جمال کی گل افشانیٔ گفتار کی ایک مسحور کُن صورت دیکھیں :
’’ابھی جب میں لکھنؤگئی توبدلی ہوئی زبان اورتہذیب دیکھ کر دنگ رہ گئی ۔۔۔۔ جب کبھی لکھنؤ والے ایک دوسرے کو اپنے گھر بُلاتے تو کہتے تھے’’ آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے ۔‘‘ ’’ آپ ہمارے گھر آئیے ہم کوخوشی ہوگی ۔‘‘میری سمجھ میں نہیں آیاتھا کہ جب کسی نے مجھ سے کہا’’ بہت دِن ہوگئے آپ انڈیانہیں آ ئیں ۔آئیے لکھنؤگھوم جائیے ۔‘‘میں نے جواب دیاتھا’’لکھنؤ کو کیا گھومنا۔وہ گھوما ہواہے ۔وہیں پیداہوئے ہیں پلے بڑھے ہیں۔جب لوگ پہلی بار لکھنؤآتے تھے تو ہم لوگ ضرور اُن کولکھنؤ گھومایا کرتے تھے ۔‘‘ مجھ کونہیں معلوم تھاوہ مجھے لکھنؤ آنے کی دعوت دے رہی ہیںجو میں سمجھ نہیں سکی ۔جب میں لکھنؤ گئی اور اُس وقت کسی نے مجھ سے کہا’’آپ لکھنؤ میں ہیں تو ہمارے یہاں بھی گھوم جائیے ۔‘‘ تو میں واقعی میں گھوم گئی ۔میری بہن نے بتایا ’’ اب جب بہت سے لوگ اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ہیں توکہتے ہیں آئیے ہمارے یہاں گھوم جائیے ۔‘‘( ( عثمانہ اختر جمال :لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ 24)
جہاں تک لفظ گھومناکے استعمال کی تاریخ کا تعلق ہے یہ لفظ اردو شاعری تخلیق کاروں نے کثرت سے استعمال کیاہے ۔اس کی چندمثالیں پیش کی جا رہی ہیں :
رات کو باہر اکیلے گھومنا اچھا نہیں
چھوڑ آؤ اس کو گھر تک راستا اچھا نہیں ( افتخار نسیم )
نیم شب کی خامشی میں بھیگتی سڑکو ں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا ( امجد اسلام امجد)
نام آوروں کے شہر میں گم نا م گھومنا
اپنا تو اِک شعار ہے ناکام گھومنا ( شاہد رضوی )
نہ مجھے گھومنا ہے اور نہ گھر جانا ہے
شبِ ہجراں لبِ دریا ہی پہ مر جانا ہے ( تنہا لائل پوری )
گھومنا اور پھرنا ایسے الفاظ ہیں جوایک ہی مفہوم کی ادائیگی کے لیے مستعمل ہیں۔
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا ( منیر نیازی )
لکھنؤ کے باشندوں نے تہذیبی ارتقا کے سلسلے میں تشریف آوری اورقدم رنجہ فرمانے کے بعد گھومنے تک کا جو سفر کیاہے وہ قارئین کی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہے ۔ بر صغیر کے مختلف شہروں اپنے یہاں بلانے کے سیکڑوں طریقے مستعمل ہیں۔
جھنگ کی تہذیب کا نمایاں وصف یہ ہے کہ یہاں کے باشندے قناعت اور شان ِ استغنا کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں ۔ اس شہرکے باشندے بتانِ وہم و گماںکو توڑ کر تلخ حقائق سے آ نکھیں چار کرنے اور کوہ کن کے مانند پہاڑ کاٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کنگ پینے اور ساگ کھانے کے بعد اپنے خالق کی نعمتوں کے راگ گانے والے جھنگ کے مکینوں کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے والے جھنگ رنگ کے ممتاز شاعر محمدشیر افضل جعفری( 1909-1989) اپنے گھر آنے والے مہمانوں سے وقت رخصت یہ کہاکرتے تھے :
’’ اب جھنگ شہرِ سدا رنگ میں اگلا پھیرا کب ہو گا۔‘‘
اے نسیم زاد جھونکوں کی حسیں حسیں کلیلو
ذرا جھنگ رنگ ٹیلوں کی طرف بھی ایک پھیرا
زندگی رَین بسیرے کے سِوا کچھ بھی نہیں
یہ نفس عمر کے پھیرے کے سِوا کچھ بھی نہیں
محسن کاکوروی( 1825-1905 )نے بھی لفظ ’’ پھیر ‘‘کااستعمال کر کے اسلوب کو مسحور کن بنا دیاہے :
طرفہ گردش میں گرفتار عجب پھیر میں ہے
سُرمہ ہے نیند مِری دیدۂ بیدار کھرل
گزر کے آپ سے ہم آپ تک پہنچ تو گئے
مگر خبر بھی ہے کچھ پھیر کھائے ہیں کیا کیا ( یاس یگانہ چنگیزی )
جھنگ کے ممتاز شاعر سیّد جعفر طاہر بیرونِ شہر مقیم نو نہالانِ چمن سے مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے :
اب ہمارے شہر کے دروبام پر یہ چاند پھر کب طلوع ہو گا؟
سیّد ناصر رضا کاظمی نے استعاراتی اندازمیں کہا تھا:
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر ؔ
چاند کس شہر میں اُترا ہوگا ( ناصر کاظمی)
محسن کاکوروی نے لفظ ’’ چکر ‘‘ کو گھومنے اورپھرنے کے معنوں میں استعمال کیاہے۔
پھر چلاخامہ قصیدہ کی طرف بعد غزل
کہ ہے چکر میں سخن گو کا دماغ ِ مختل ( محسن کاکوروی)
اپنی تعبیر کے چکرمیں مرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتاہے ( راحت اندوری )
فکر معاش ،بروٹس قماش رشتہ داروں کی سازشوں اور فالج سے نڈھال جھنگ میں مقیم اردو کے مایہ نازشاعر رام ریاض اپنی موّاجی طبع کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اپنے قلب ِحزیں میں متعدد خیال باندھتے ہوئے اپنے احباب سے یہی کہتے تھے:
’’ تنہائی کی ایسی منزل آ ئی ہے کہ کوئی رہ گزر میرا ساتھ نہیں دیتی میرے نحیف جسم کا شیرازہ بکھرنے سے پہلے ایک بار ادھر کا چکر لگا جاؤ۔ آئینہ خانوں پہ زدپڑنے سے نہ ڈرو کسی روز ہمارے کھنڈرکا چکر لگا کرمیر ے ویرانۂ جاں میں مرجھائے پھول بھی دیکھو۔ کبھی ہمارے کوچے کابھی چکر لگا لیا کرو جہاں وقت نے اُمیدوں کے سب نقوش دھندلا دئیے ہیں۔اب اس شہر نا پرساں کی بے چراغ گلیوں کے چکر لگانے والے اپنی دُکان بڑھا گئے ۔‘‘
اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ لکھنؤ کے خاندانوں میں کردار سازی اوراخلاقیات پر بہت توجہ دی جاتی ہے ۔اساتذہ کے فیضانِ نظر سے شاگرد علم و ادب کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں ۔ہر عمر کے لوگ اپنے مخاطب کی بات پوری توجہ سے سنتے ہیں اور اپنے جذبات واحساسات کو قابو میںرکھتے ہیں۔کوئی بھی موضوع ہو وہ مبالغہ آرائی اور وادی ٔ خیال میں مستانہ وار گھومنے کی روش پر گرفت کرتے ہیں ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے متعد مثالوں سے واضح کیا ہے کہ رنج کی گفتگو میں بھی لکھنو کے باشندے تہذیب کا خیال رکھتے ہیں اور آپ سے تم اور تم سے تُو کی نوبت کبھی نہیں آتی ۔ لکھنؤ کے باشندے غمزۂ غماز پر گہری نظر رکھتے ہیں تا کہ مرغانِ بادنما، کینہ پروراور حاسد رقیبوں کو شر انگیزی کا کوئی موقع نہ مِل سکے ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا سفہا کے جور و جفا ،مظالم اور ستم آزاری کے باوجود لکھنؤ کے باشندے اپنے غیظ وغضب کامظاہرہ کرتے ہوئے کوئی انتقامی رد عمل ظاہر نہیں کرتے اور نہ ہی کسی اتائی چارہ گر کے مرہم بہ دست آنے کاانتظار کرتے ہیںبل کہ اپنے قلب و جگر کے زخموں کو خود ہی رفو کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں ۔ آداب محفل میں ’’پہلے آپ ‘‘ کو اب لکھنوکی تہذیب و معاشرت کا حصہ قرار دیا گیا ہے ۔یہاں تک کہ رکشاڈرائیور بھی کم سِن بچے سے یہ کہہ کر مخاطب ہوتاہے کہ آپ ابھی چھوٹے ہیں میں آپ کورکشے سے اُتار دیتا ہوں۔انسانی ہمدردی کا یہ انداز لکھنوی تہذیب کی عطا ہے ۔بادی النظر میں احساسِ کم تری کے باعث انسان زود رنجی کا مظاہرہ کرتاہے اور آپے سے باہر ہوکر تلخ کلامی یا گالی گلوچ پر اُتر آتا ہے ۔لکھنوی تہذیب میںاحترامِ انسانیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے اور رنج کی گفتگو سے بالعموم اجتناب کیا جاتاہے ۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم ،تم سے تُو ہونے لگی ( داغؔ دہلوی )
آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آ پ نے نام تو لیامیرا ( جون ایلیا )
تُو ہے ہر جائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی ( قلق میرٹھی )
تم تو کہتے تھے بہار آئی تو لوٹ آؤں گا
لوٹ آؤ مرے پردیسی بہار آئی ہے ( احمدراہی )
محفل میں تیری آ کے یوں بے آبرو ہوئے
پہلے تھے آپ ،آپ سے تم ،تم سے تُوہوئے ( نوح ناروی )
محترمہ عثمانہ اختر جمال کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ محسوس ہوتاہے کہ وہ تخلیقی عمل کودائمی راحت اور مسرت کا معدن سمجھتی ہیں ۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش ِ لوح و قلم میںانہماک کا مظاہر ہ کرتی ہیں۔ نے لکھنؤ کی تہذیب کو پوری دنیا کے لیے ایک لائق تقلید مثال کے طور پر پیش کیاہے ۔انھوں نے لکھنو کی تہذیب کو روشنی کے ایک ایسے مینار کے طور پر پیش کیاہے جو آنے والی نسلوں کے لیے منزلوں تک رسائی کی صورت پیش کرے گا۔تاریخ ،علم بشریات ،عمرانیات اور فلسفہ سے اُنھیں گہری دلچسپی ہے وہ جانتی ہیں کہ اگر کسی خطے کی تہذیب کونئی نسل تک منتقل کرنے میں غفلت کی جائے اور تہذیب کی منتقلی کی تاخیر کاعرصہ ایک صدی سے بڑھ جائے توتو وہا ں کی تہذیب ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہوجاتی ہے اوروہاں جنگل کے سخت اور بد بخت قانون کا غلبہ ہو جاتاہے اور پورا معاشرہ پتھر کے زمانے کا ماحول پیش کرنے لگتاہے ۔ اپنی اس تصنیف میں محترہ عثمانہ اختر جمال نے تہذیبی ارتقا کے لیے تمام ضروری عوامل کو پیشِ نظر رکھا ہے۔اہلِ لکھنونے تاریخ کے ہر دور میں جہد للبقا کوپیشِ نظر رکھاہے خاص طور پر انھوں نے نوآبادیاتی دور میں مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے سپر انداز ہو نے سے انکار کرکے جریدۂ عالم پر اپنا تہذیبی دوام ثبت کر دیا۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اس کتاب میں تاریخ کے پیہم روا ںعمل کی جانب متوجہ کیا ہے ۔ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے مصنفہ نے متعدد مثالوں اور حوالوں سے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ ماضی کی یادیں اپنے دامن میں مستقبل کے لیے بہت سی چشم کشا صداقتیں اور حکایتیں لیے ہوئے ہیں ۔تہذیبی میراث کی یہ نشانیاں آنے والی نسلوں کے لیے ایسا قابل عمل طرزِ زندگی پیش کرتی ہیں جو منزلوں کی جستجو میں بے حدمعاون ثابت ہو سکتاہے ۔ اپنے بچپن اور زمانہ طالب علمی کی جد و جہد کا ماضی کے واقعات سے انسلاک ،رفتگاں کی یادوں ،اسلاف کے فکر پرور اور خیال افروز مباحث سے تہذیب کو صیقل کرنے کی تمنا اُن کے اسلوب کا نمایا ں ترین وصف ہے۔مثال کے طور پر میر تقی میرؔ کی قبرکے آثار اور کتبہ تک مٹ جانا نشان ِ عبرت ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں میرتقی میر ؔ کے مزار پر لکھنو ریلوے لائن کا گزرنااور وہاں ریلوے سٹیشن کی تعمیرایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔بر طانوی استعمار کے فسطائی جبر پر وہ بہت دل گرفتہ ہیں اور ان کی تحریر میں ماضی کے حالات ،نو آبادیاتی دور میں لکھنؤ کے باشندوں پر ٹوٹنے والے کوہِ ستم پر ان کے جذبا ت و احساسات اُن کی تحریر کے ایک ایک لفظ میں نمایاں ہیں ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے نو آبادیاتی دور میں لکھنؤ کے باشندوں کے فکر و خیا ل کی منہاج اور مظلومیت کی جس درمندی سے لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ اُن کی انسان دوستی اور حب الوطنی کی عمدہ مثال ہے ۔ بے مہری ٔ عالم کے ایک نوحے کی صورت اختیار کرجانے والی یہ تحریر پڑھ کر قاری کی روح زخم زخم او ر دِل کرچی کرچی ہوجاتاہے اور اُس کی آ نکھوں سے جوئے خوں روا ںہو جاتی ہے ۔
لکھنو کی تاریخ اور یہاں کے باشندوں کے طرز زندگی سے محترمہ عثمانہ اختر جمال کوگہری دلچسپی ہے ۔انھوں نے لکھنو کے مہذب اور زندہ دِل لوگوں کی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کر کے قارئین کو چشمِ تصور سے اس شہر ِ بے مثال کی تہذیب کا دھنک رنگ منظر نامہ دیکھنے پر مائل کیاہے ۔لکھنو کے با شندوں نے تاریخ کے ہر دور میں صبر واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قسم کے صبر آزما حالات اور کٹھن مسائل کا خندہ پیشانی سے سامناکیا ۔ ان کی وضع داری ، انسانی ہمدردی ، خلوص و مروّت ،مہمان نوازی،سخاوت اور خدا ترسی کی مثالیںاس کتاب کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہیں ۔ لکھنو کے با شندوںکی زندگی کے مختلف پہلواس شہرکی تہذیب کو جو نکھا رعطا کرتے ہیں وہ باہر سے آنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ مصنفہ نے لکھنوکی تہذیب کا جس خوب صورت انداز میں ذکر کیا ہے اس نے تخلیق ادب کو مقا صد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ہے۔لکھنو شہر اور یہاں کے با شندوںکی تصویر دیکھ کر قاری کے ذہن پر جو نقش مرتب ہو تا ہے وہ اس قدر پر کشش ہے کہ دل میں اس شہر بے مثال کو دیکھنے اور اور یہاں کے وضع دار با شندوں سے ملنے کی تمنا پیدا ہو جا تی ہے۔ یہی وہ دل نشیں لمحہ ہے جب قاری اپنے ذاتی حوالو ںکے حصار سے نکل کر آفاقی سوچ کو بروئے کار لا تے ہوئے اقوام عالم اور مختلف شہروں کے معا شرے کے بارے میںجان کر مسرت حاصل کرتا ہے ۔
لکھنو کی تہذیبی میراث کا یہ معتبر حوالہ وہاں کی معا شرتی روایات ، زندگی کی اقدار عالیہ ، آداب معا شرت ،رہن سہن اورعادات و اطوار کے بارے میں تمام معلومات کا ایسا مخزن ہے جسے پڑھ کر ادب کا ہر باذوق قار ی اَش اَش کر اُٹھتا ہے ۔۔جذبہ انسانیت نوا زی اور انسا نیت شنا سی میںمصنفہ نے بہت محنت اور خلوص کا ثبوت دیا ہے۔ انسا نی ہمدردی ، خلوص،مروّت،ایثار اور وفا سے متعلق تمام امور اس کتاب میں شامل ہیں ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے لکھنوی تہذیب کی مرقع نگاری کرتے وقت خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق ِ تحسین ہے ۔ انھوں نے لکھنؤ کے باشندوں کی کتابِ زیست کے اُن اورا ق پر بھی نظر ڈالی ہے جو اب تک نا خواندہ رہے ہیں ۔اِس دور ِ بیگانگی میں جہاں ہر کوئی اپنی فضا میں مست پھرتاہے فاقہ کش ،مجبور اور بے بس انسانوں کی چشم ِ تر کو دیکھ کر اُن کے ساتھ اپنائیت کاجو انداز مصنفہ نے اپنایا ہے وہ اُن کی عظمتِ فکر کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔لکھنؤ شہر کی تہذیبی میراث کاذکر اس کتاب کا اہم ترین موضوع ہے ۔مصنفہ نے فکر و خیال اور تحلیل وتجزیہ کو زادِ راہ بناتے ہوئے لکھنؤ کی تہذیبی اساس پر جس تدبر کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہم ہے ۔ کسی بڑے شہر کی تہذیب پر یہ ایسا تحقیقی کارنامہ ہے جس میں کوئی اُن کا شریک و سہیم نہیں ۔ لکھنؤ کی تہذیب پر اس کتاب کے مطالعہ سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام کیا گیاہے ۔اس تصنیف میں نوآبادیاتی دور اور پس نو آبادیاتی دور میں لکھنؤ کی تہذیبی ترقی کے بارے میں حقیقت پسندانہ انداز میں تمام متعلقہ حقائق کو یک جا کر دیا گیا ہے ۔اس میں لکھنؤ کے باشندوں کی ذہنی اور شعوری بالیدگی کے بارے میں جن حقائق کو شامل کیا گیاہے ان میں مصنفہ کی ذاتی تجربات ،مشاہدات اور تاثرات کو اوّلین ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ۔نئی نسل کے ذہن و شعور اور فہم و ادراک کو مہمیز کرنے ایسی تحقیقی کتب کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں موسیقار اور ڈرائیور جو ایک زمانے میں سکون ِ قلب کی دولت فراہم کرتے تھے اب اپنی دکان بڑھا گئے ہیں ۔لکھنو ٔ کے رکشا والوں کے تکیہ کلام کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی ۔ منزلِ مقصود تک جلد پہنچنے کے لیے بے چین مسافروں کے ساتھ کرایہ طے کرنے کے سلسلے میں اُن کاروّیہ اکثر پریشان کُن ثابت ہوتاہے ۔اس لیے مسافر اِن کے لہجے سے دِل بُرا نہیں کرتے ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے لکھنو کی تہذیب میں پل کر جوان ہونے والے نئے دور کے رکشا ڈرائیوروں کے انداز ِ گفتگو کے متعلق نہایت دلچسپ انداز میں لکھاہے :
’’ ایک بار جب ہم لوگ نویںکلاس میں تھے میں اور میری چھوٹی بہن اپنی دوست کے گھر جا رہے تھے ۔بڑی مشکل سے ایک رکشہ مِلااس جگہ کے لیے جہاںمجھے جاناتھا۔رکشے والا بہت زیادہ پیسے مانگ رہاتھا۔کافی بحث کے بعد وہ اتنے پیسوںپر راضی ہواجو اُس جگہ کا کرایہ تھا۔ہمارا اُدھربہت آنا جانا تھااس لیے ہم ریٹ خراب نہیں کرنا چاہتے تھے اور کرایہ بڑھانا نہیں چاہتے تھے ۔‘‘
مصنفہ اسی رکشا میں جا رہی تھی کہ دورانِ سفر رکشاایک ٹھیلے سے ٹکرا گیاجس کے نتیجے میں بوڑھا رکشاوالازخمی ہوگیا۔مصنفہ نے رکشا ڈرائیور کو دوا علاج ،مرہم پٹی اور ٹیٹنس کا ٹیکہ لگوانے کے لیے درکار رقم دی تو رکشا والا ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بولا:
’’ اپنے گاؤں میں جیسا لکھنؤ کے بارے میں سُناتھاویسا ہی پایا ۔جوبٹیا لوگ ذرا سے زیادہ کرائے پر بحث کر رہی تھیں پچیس پیسے زیادہ دینے کو تیار نہیں تھیں انھوں نے اپنے پورے پیسے اِس غریب کو دے دیا کہ کہیں لوہا لگنے سے مجھے ٹیٹنس نہ ہوجائے میرے گھر والے بے سہارانہ ہوجائیں۔ بغیر کسی جان پہچان کے اتنی انسانیت اتنی بڑائی جو لکھنؤ کی سُنی تھی وہ دیکھ لی ،لکھنؤکی تہذیب کی جے ہو۔‘‘
(عثمانہ اختر جمال : لکھنؤ کی تہذیب :صفحہ 39)
رخشِ حیات پیہم رواں دواں ہے انسان کا نہ تو باگ پر ہاتھ ہے اور نہ ہی اس کے پاؤ ں رکاب میں ہیں ۔ڈرائیوروں کا بھی یہی حال ہے وہ پیسہ کمانے کی دوڑ میں سب سے آ گے نکل جانے کی فکر میں رہتے ہیں ۔اکثر ڈرائیور یہی چاہتے ہیںکہ شام سے پہلے ہی اس قدر کمائی کر لیںکہ گھر کا خرچ پورا ہو جائے خواہ اس حرص و ہوس کے نتیجے میں مسافروں کی جیب میں پھوتی کوڑی بھی نہ بچے ۔لکھنؤ کے لوگ مجبوروں ،درمندوں اور غریبوں کی مدد تو کرتے ہیں مگر نمود و نمائش کی خاطر وہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔
’ ’ باہر سڑک پر بہت بِھیڑ تھی رکشے والوں کے مزاج نہیں مِل رہے تھے ۔رکشے والے رُکتے مگر یہ کہتے کہ آنا نہ جاناکہہ کر چلے جاتے ۔ہم اُن کے برتاؤ سے ڈررہے تھے ۔ایک رکشے والا بولا جانا ہے تو بیٹھو نہیں جانا تو جاؤ ۔ہم لوگ جلدی سے بیٹھ گئے ۔‘‘جب دوست کے یہاں پہنچے تو کہا ’’ یہاں کے رکشے والے کتنے بد تمیز ہیںعجیب طرح سے بات کر ر ہے تھے ۔‘‘ یہ سُن کر وہاں سب لوگ بہت ہنسے رکشے والے بد تمیز نہیں تھے ۔اُن کی زبان ایسی ہے، آپ کولکھنؤ کے رکشے والوں کی زبان سننے کی عادت ہے ۔اس لیے اُن کی زبان کی وجہ سے آپ لوگوں کواُن کا برتاؤبُرا لگ رہاتھا۔‘‘واقعی میں لکھنؤکے رکشے والوں،تانگے والوں اور یکے والوں کی زبان ،رکھ رکھاؤسے بھی وہاں کی تہذیب کاپتا چلتاتھا۔‘‘ (عثمانہ اختر جمال : لکھنؤ کی تہذیب :صفحہ 39)
رکشا ڈرائیور بالعموم بہت حساس اور زود رنج ہوتے ہیں ۔ نئے دور میںبڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان شہرو ںاور دیہاتوں میں موٹر سائیکل رکشا چلا کر رزقِ حلال کماتے ہیں۔ مجھے جھنگ کے قدیم شہرکے نواح میں واقع ہیر رانجھے کے مقبرے اور فوارہ چوک جھنگ کے درمیان چلنے والے رکشاڈرائیور یاد آ گئے ۔ سواریوں کے انتظار میں کھڑے ان رکشاڈرائیور وں میں سے اکثریت تعلیم یافتہ ہوتی ہے ۔ ان باذوق رکشا ڈرائیوروں کے رکشے میں نصب ٹیپ ریکارڈ میں یہ گانا لگتاہے تووہاں موجود مسافر فوراً رکشے کی جانب لپکتے ہیں ۔ پنجابی تہذیب و ثقافت کے ممتاز محقق پروفیسرڈاکٹر محمد ریاض شاہد نے بتایا کہ انھوں نے مرزا صاحباں کی قبرپر مسافروں کولے جانے والے رکشوں میںبھی یہی گیت سناہے ۔اسحاق ساقی نے پنجاب کی رومانی لوک داستانوں پر تحقیقی کام کیاوہ سوہنی اور مہینوال کی یادمیںدریائے چناب کے کنارے تعمیر ہونے والی نشانی پر گجرات پہنچے تو وہ حیران رہ گئے کہ وہاں کے رکشا ڈرائیور بھی اسی گیت کے ذریعے مسافروں کو بُلاتے تھے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے بھارتی فلم پاکیزہ( 1972ء ) کے گانے کے بول ہی ایسے ہیںکہ رومانی لوک داستانوں کے گرویدہ مسافر اپنی پسندیدہ منزل کی جانب روانہ ہونے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں۔
چلو دِل دار چلو چاند کے پار چلو
ہم ہیں تیار چلو
آؤ کھو جائیں ستاروں میں کہیں
چھوڑ دیں آج یہ دنیا یہ زمیں
چلو دِل دار چلو چاند کے پار چلو
ہم ہیں تیار چلو
زندگی ختم بھی ہوجائے اگر
نہ کبھی ختم ہو اُلفت کا سفر
چلو دِل دار چلو چاند کے پار چلو
ہم ہیں تیار چلو
لاہورمیں اندرون شہرمسافروںکولے جانے والے رکشا ڈرائیوراس شہربے مثال کی ثقافت کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ رزقِ حلال کمانے والے ایسے جفا کش محنت کشوں کی آواز لاہور کی صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کی پہچان بن گئی ہے ۔ بادامی باغ لاہور کے جنرل بس سٹینڈ ،اقبال پارک اور بادشاہی مسجدکے سامنے کھڑے رکشاڈرائیور اپنی انوکھی وضع کی وجہ سے سارے زمانے سے نرالے ہیں۔ اپنے روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے لاہور کی تہذیب و ثقافت کے ترفع اور بقا کی علامت اِن محنت کشوں کی نگاہوں کی تاب ناکی کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ روزی کی تلاش میں اپنے رنجور رکشوں کے پاس کھڑیشہر کی سڑکوں پر ناشاد پھرنے والے اِن رکشاڈرائیوروںکی یہ پرسوز پکار اور نوائے حزیں سُن کر مسافر چشمِ تصور سے لاہور شہرکے بام و درکودیکھ لیتاہے اور جلداز جلداندرون ِشہر میں اپنی منزل مقصود کو اپنی افق تاب آ نکھوں سے دیکھنے کے لیے عازم سفر ہوجاتاہے ۔
اکیلی سواری جی ،بھاٹی لو ہاری جی
جاتا ہے خالی جی ، آ جاؤ ٹکسالی جی
کھاؤ دہی بھلے جی ،شاہی محلے جی
اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ مصنفہ کا تعلق اقلیم معرفت سے ہے ۔اُنھوں نے اصولِ جامعیت اور اَصولِ کفایت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے تبحرِ علمی ،وسعتِ نظر اور ذوقِ سلیم کو اس جامِ جہاں نمامیں سما دیا ہے ۔پس نو آبادیاتی دور میں دوسرے شہروں کی طرح اس شہرِ بے مثال کی تہذیب کولامحدود عصری چیلنجز کا سامنا رہاہے ۔محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اپنی تخلیقی اور تحقیقی فعالیت سے اِن چیلنجز کوبڑی حدتک محدود کر دیاہے اور اِسے اندیشۂ زوال سے نا آشناکر دیاہے ۔ روحانیت کے اعجاز سے انھیں جو وسعت نظر نصیب ہوئی ہے وہ انھیںدُکھی انسانیت کی خدمت پر مائل کرتی ہے اور وہ بلا امتیاز دردمندوں ،ضعیفوں ،ناداروں اور بیماروں کی امداد کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں ۔ اِس کتاب میں اُنھوں نے تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی جو سعی کی ہے اُس کی بنا پر تاریخ ہر دورمیں اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔ وہ ہر کام اللہ کریم کی رضا کی خاطر کرتی ہیں اور یہی مثبت سوچ اُن کی کامیابی ،راحت اور مسرت کا اہم وسیلہ ہے ۔ عملی زندگی میں انھوں نے سدا صحت مند اور مثبت اندازِ فکر اپنایا ہے اس لیے سارے جہاں کا درد اُن کی روح اور قلب میں سما گیا ہے ۔ خدمت ِخلق اور تخلیق ِ ادب کو انھوںنے ایک طرز زندگی کااندازعطا کیا ہے ۔ان کے اسلوب کو علم و ادب کے ایک گل دستے کی حیثیت سے دیکھا جاتاہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے ایسے پھول جمع کر دئیے ہیںجن کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہوجاتاہے ۔ اس کتاب میں پیرا سائیکالوجی اور ما بعد الطبیعات کے افکارِ تازہ سے مزین جو حوالے موجود ہیں وہ قاری کو ایک جہانِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔انھوں نے ہیرے ،جواہرات ،نباتات و جمادات اور ستاروںکی گردش سے انسانی مقدر کو کبھی وابستہ نہیں کیا ۔اُن کا خیال ہے کہ داخلی کیفیات ہی افرادکے فکر و خیال اور زندگی کے نشیب و فراز کی اساس بنتی ہیں ۔زندگی کے مختلف موسموں کو مقدر کے کھاتے میں ڈالنا مناسب نہیں ۔وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر اصرار کرتی ہیں۔ اس کتاب میںایسے متعد د واقعات مذکور ہیں ۔اس کی چند منتخب مثالیںپیش ہیں :
محلے میں رہنے والی ایک بیوہ بوا کو مالی امداد کی فراہمی انسانی ہمدردی کی عمدہ مثال ہے ۔بے سہارا بیوہ کو سلائی مشین فراہم کرنے کے لیے کوشش کرنا بھی جذبۂ انسانیت نوازی کا ثبوت ہے ( صفحہ 32)
بہرائچ سے ہجرت کر کے لکھنؤ آنے والی نادار ضعیفہ جس کی کمر ضعف پیری سے جُھک گئی تھی اُس کی مالی امدا دفراہم کر کے مصنفہ نے خدا ترسی کا ثبوت دیا۔اس ضعیفہ کے لیے ملبوسات ،علاج اورنقد رقم کا انتظام کر کے مصنفہ نے بہت نیک کام کیا۔ مصنفہ جب امریکہ سے واپس لکھنو آتی ہیں تومحلے کی غریب عورت بھابی دھوبن کو گلے لگا کر ملتی ہیں اور اُس کی مالی امدا د کرتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ فاقہ کش اور بیمار بھابی دھوبن اپنی دعاؤں میں کہتی ہے :
’’ اللہ میری امریکہ والی بٹیا کو سلامت رکھے ۔‘‘
اس کتاب میں مذکور ہے کہ لکھنؤ میں لفظ’’ یار ‘‘ کااستعمال ذوق سلیم پر بار ثابت ہوتاہے ۔ مصنفہ نے لکھاہے کہ وہ اپنی ایک دوست کے ہمراہ مونگ پھلی خریدنے کے لیے ایک خوانچے والے کے پاس رکشے میں پہنچیں ۔ مصنفہ کی سہیلی کسی دوسر ے شہرسے نئی نئی آئی تھی اُس نے رکشے والے سے مخاطب ہو کر کہا :
’’ اماں یار جلدی کرو میری دوست کو دیر ہو رہی ہے ‘‘
مونگ پھلی والا جلدی سے بولا ’’ بٹیا صاحب آپ بڑے گھر کی ہیں۔بڑے گھر کی لڑکیاںیار نہیں بولتی ہیں۔ہمارے لکھنؤ میں بُرا سمجھا جاتاہے ۔‘‘( عثمانہ اختر جمال :لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ 41)
اُردوکی کلاسیکی شاعری میں لفظ ’’ یار ‘‘کو ہمدرد ساتھی ،مونس و غم خوار دوست ،غم گسار ،محرم ،معتمد رفیق اور صلاح کار کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ کئی محاورات اور ضرب الالمثال میں بھی ’’ یار ‘‘ اچھے معنوں میں لایا گیا ہے ۔ مثلاً:
جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے کلاسیکی شاعر باقرؔآگاہ ویلوری ( 1745-1805)نے اپنی تصنیف’’ شمائل الاتقیاء ‘‘ میںلفظ’ یاروں ‘کو استعمال کیاہے ۔
ولے بعض یاروں کا ایماں ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا
کچھ محاورات اور ضرب الامثال میں بھی لفظ ’ یار ‘ کو شامل کیا گیا ہے ۔مثلاً: یار زندہ صحبت باقی ،ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشت
یاروں کو تجھ سے حالی ؔ اَب سرگرانیاں ہیں
نیندیں اُچاٹ دیتی تیری کہانیاں ہیں ( مولانا الطاف حسین حالیؔ)
جب یار نے اُٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب ہم نے اپنے دِل میں لاکھوں خیال باندھے ( مرزا محمدرفیع سوداؔ)
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں ( انشااللہ خان انشا )
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں ( انشااللہ خان انشا )
نہ ہوا پر نہ ہو ا میر ؔ کاانداز نصیب
ذوق ؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا ( شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ)
فراق کیاہے اگر،یادِ یار دِل میں رہے
خزاں سے کچھ نہیںہوتا بہار دِل میں رہے ( جون ایلیا )
قفس اُداس ہیں یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکر ِ یار چلے
مقام فیض ؔکوئی راہ میںجچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ( فیض احمد فیض ؔ)
پنجابی ،ہندکو،سرائیکی اور پو ٹھوہاری زبان کی کلاسیکی شاعری میں بھی لفظ ’’ یار ‘‘ ہمیشہ مونس و غم گسار سا تھی کے معنوں میںاستعما ل کیا گیاہے ۔
ٹُر گئے یار محبتاں والے نالے لئے گئے ہاسے
دِل نہیں لگدا یار محمد تے جائیے کیہڑے پاسے ( میاں محمدبخش )
تہذیب کی بقا کے لیے بلند پروازی ناگزیر ہے ۔عمرانیات ،نفسیات،علم بشریات اور تاریخ کے ممتاز محقق پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کاکہنا تھاکہ دنیا کی مختلف زبانوں میں مستعمل الفا ظ کے مفاہیم بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں لسانی تغیر و تبدل کے اِس پیہم رواں عمل کو وہ تکثیریت کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے ۔پس نو آبادیاتی دور میں جن الفاظ کے معانی یکسر بدل گئے اُن میں لفظ ’’ یار ‘‘ بھی شامل ہے ۔ حرص و ہوس کی جبلت پر قابو پاکر بے لوث انداز میں انسانیت کی خدمت کرنے والے لوگ تہذیبی ارتقا میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لکھنؤ میں تکلم کے سلسلوں میں لفظ ’’ یار ‘‘ کا استعمال معیوب سمجھاجاتاہے ۔ ذخیرۂ الفاظ کا تنوع دیکھ کر خیال آتاہے کہ فکر و خیال کی وحدت کا حصول اب سراب نہیں بل کہ ایک حقیقت کا رُوپ ڈھال چکاہے ۔ منھ پھٹ اور بے غیرت لوگ فحاشی کے ذریعے تہذیبی معائر کونقصان پہنچاتے ہیں۔موجودہ زمانے میں بروٹس قماش کے یار کو گلے کا ہار بنانا ایک آزار بن جاتاہے ۔المیہ یہ ہے کہ ماضی کی حسین یادوں کا امین یہ لفظ اَب رذیل طوائفوں کے قحبہ خانے میں دادِ عیش دینے والے عیاش جنسی جنونیوں کے لیے استعمال ہوتاہے ۔مثلاً:
بُرے ہیںسب مصبوکے یار پُرانے گئے تو نئے تیار
پس نو آبادیاتی دور میں بر صغیر میں بننے والی فلموں کے نغموں میں لفظ ’’ یار ‘‘ بالعموم جنسی جنون اور ہوس سے آلودہ محبت کے لیے مستعمل رہا ہے ۔ مجازجب حقیقت کو ڈھانپ لے اورقلب و روح کی وجدانی کیفیات عنقا ہونے لگیں اور اُن کی جگہ سراپا نگاری اور سستی جذبات نگاری سے آلودہ تعلق کو پسند کیا جانے لگے محض الفاط کی معنویت ہی نہیں بدلتی سننے والوں کی نیّت بھی بدل جاتی ہے ۔ موجودہ دور میں لفظ ’’ یار ‘‘ ایک کریہہ صورت اختیار کر گیا ہے جس سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں ۔جھنگ میں جنگل بیلے کے علاقے میںایک جگہ ’’ گھڑے بھن ‘‘ ہے ۔اس مقام سے آگے دریائے چناب کے کنارے ایک گھنا جنگل ہے جس میں سر کنڈے ، ببول ،بیری ،جنڈ ،اُکانہہ ،لانی ،اکڑا ،کریریں ،حنظل ،تھوہر ،پُٹھ کنڈا ،لیہہ ،کانگہاری ، جو انہہ اور کسکوٹا کی فراوانی ہے ۔ دریا ئے چناب کے کنارے واقع گھڑے بھن کی یہ جھاڑیاں ،کن کھجوروں، گھڑیالوں ،مگر مچھوں ، بچھوؤں ، ناگوں ،درندوں ،بھوتوں ،چڑیلوں اورپُر اسرار آسیبی قوتوں سے بھری پڑی ہیں ۔ سوہنی کمہاری کا آ شنا مہینوال ( عزت بیگ ) بلخ بخارے کا شہزادہ تھا مگر محبت میں سب کچھ داؤ پر لگانے اور دِل کے بازار میں خسارہ کرنے کے بعد یہ کرب گوارا کر کے چرواہا بن گیا۔ گجرات کے نواحی گاؤں کے باشندوں نے اُسے شہر سے نکال دیاتو اُس نے دریائے چناب کے دوسر ے کنارے پر جھگی بنا کر بسیرا کر لیا۔سوہنی کمہاری نصف شب کے بعد دریائے چناب کے کنارے پہنچتی اور اپنے با پ تلا کمہار کی بھٹی کا تیار کیا ہوا وہ پکا گھڑا جو اس نے سر کنڈوں میں چُھپا کر رکھتی تھی اُٹھاتی اور گھڑے پر تیر کر دریائے چناب کے دوسرے کنارے ایک جھگی میں منتظر اپنے یار سے ملنے پہنچ جاتی ۔سوہنی کے ساتھ فریب یہ ہوا کہ اُس کی نند نے ایک شام گھڑا بدل دیا اور پکے گھڑے کی جگہ ایک کچا گھڑا رکھ دیا۔سوہنی حسب ِ معمول مقررہ مقام پر پہنچی گھڑا اُٹھایا اور نتائج سے بے پروا ہو کر دریائے چناب کی طوفانی لہروں میںچھلانگ لگادی ۔پلک جھپکتے میں کچا گھڑ اپانی میں گُھل گیا،سوہنی ڈُوب گئی ۔سوہنی کی چیخ پکار سُن کر مہینوال نے بھی دریائے چناب میںچھلانگ لگا دی اور وہ بھی دریا کی منجدھار میںڈُوب کر رُل گیا۔ تریموں ( جھنگ )کے مقام پر دریائے جہلم اور چناب کے سنگم کے قریب ہلکی پھاٹ کے نواح میں رہنے والے بوڑھے مقامی ماہی گیر ،ملاح ،موہانے اور گلہ بان اپنے اسلاف کے حوالے سے یہ روایت کرتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں گجرات سے دریائے چناب کی لہروں میں بہہ کر آنے والی تلا کمہار کی بیٹی سوہنی اور اُس کے آ شنامہینوال کی لاشیں انہی خاردار جھاڑیوں میں اٹکی ہوئی مِلی تھیں۔انھیں دریا ئے چناب کے مشرقی کنارے کے نزدیک دفن کیا گیا مگر اپنی طغیانیوں سے کام رکھنے والا د ریا کا کٹاؤ سب کچھ بہا لے گیا۔ نو آبادیاتی دور میں گھڑے بھن کے مقام پر ہر سال جون کے مہینے میںایک میلہ لگتاتھا ۔سیال کوٹ میں پُورن بھگت کا کنواں ہو یا گھڑے بھن کا میلہ شہر اور مضافات کے سب البیلے لڑکے اور چنچل لڑکیاں وہاں ضرور پہنچ جاتے تھے ۔ گھڑے بھن کا میلہ دیکھنے کے لیے تماشائی عورتیں بن ٹھن کر اور تن کر گھر سے نکلتی تھیں اور جنگل بیلے میں پھن لہراتے کالے ناگوں سے بھی نہیں ڈرتی تھیں ۔پس نو آبادیاتی دور میں گھڑے بھن کے میلے میں گامی کمہار اور اُس کی بیٹیاں ظلی، رابی ،مسبو ،شگن ،صباحت ،پینو اور سمن سر کنڈوں میں کچے گھڑے رکھ دیتی تھیں ۔گردو نواح سے آنے والی نوجوان لڑکیا ں سوہنی کمہاری سے اظہار یک جہتی کے لیے کچے گھڑے کو ٹھوکر مار کر توڑ دیتی تھیںاور اُس کی جگہ ایک پکا گھڑا خرید کررکھ دیتی تھیں۔ یہی اس علاقے کی ثقافت ہے جو اقتضائے وقت کے مطابق پیہم ارتقا کے مدارج طے کرتی چلی آ رہی ہے ۔گامی کمہار اِن رومان پسند لڑکیوں سے کچے اور پکے گھڑوں کے منھ مانگے دام وصول کرتاتھا۔ نو جوان لڑکیوں کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے سسرال کی سازشوں اور نندوں کے مکر کی چالوں سے محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ گھڑے بھن کے میلے میں سرکس اور موت کا کنواں تماشائیوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا تھا ۔موت کے کنویں میں سیاہی وال سے تعلق رکھنے والی ایک عیاش اور جنسی جنونی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نیم عریاں لباس پہن کر موٹر سائیکل چلاتی تھی۔ اس قسم کا جنسی جنون ،عریانی ،فحاشی اور بے حیائی تہذیب و ثقافت کو افراتفری کی بھینٹ چڑھا کرناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے ۔پس نو آبادیایتی دور میں عریانی ،فحاشی اور جنسی جنون نے ایک ایسے کینسر کی صورت اختیار کر لی ہے جس نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔اُس ٹرانس جنڈر انٹر سیکس کا گایا ہوا یہ نغمہ بہت مقبول تھا۔یہ گانا سُن کر تماشائی اِس ٹرانس جنڈر انٹر سیکس پر نوٹوں کی بارش کر دیتے تھے ۔
یار بادشاہ یار دِل رُبا
قاتل آنکھوں والے او دلبر متوالے دِل ہے تیرے حوالے
یار بادشاہ یار دِل رُبا
مستانے البیلے میری بات سمجھ لے دِل کی دھڑکن سُن کر جذبات سمجھ لے
کیوں تڑپائے آجا دِل گھبرائے آجا ،چین نہ آئے آ جا
یار بادشاہ یار دِل رُبا ( بھارتی فلم CID 909.1967)
لکھنؤ کے باشندوں نے اخلاقیات ،وفا ،مروّت ،ایثار اور احترامِ انسانیت کے عطر بیز پھولوں سے تہذیب کا جو عرق کشید کیاہے اس دورِ بیگانگی کے ہر معاشرتی برائی کا وہ موثر علاج ہے ۔ مصنفہ نے کوشش کی ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب کو درپیش خطرات سے نئی نسل کوآگاہ کرے ۔ اصلاح َ معاشرہ کے کاموں میںبڑھ چڑھ کر حصہ لینا بالخصوص لکھنو ٔ میںمقیم مجبور خواتین کے ساتھ مروّت اور شفقت سے پیش آنا لکھنوی تہذیب کا لائق صد رشک و تحسین وصف ہے ۔لکھنوی معاشرے میں خواتین کو شرم و حیااور اخلاقیات کی تربیت کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔لکھنؤ میں اپنی مدد آپ کے تحت خواتین کی فلاح کے متعدد منصوبوں پر رازداری سے کام جاری رہتا ہے ۔ضرورت مند خواتین کے لیے ہفتے کا ایک دِن مقرر ہے۔کاش یورپ میں بھی خواتین کو اخلاقیات کی تربیت دینے کا کوئی ایسا ہی انتظام ہوتاتووہاں وہاں سب بلائیں تمام ہونے کے بعدخواتین مرگِ ناگہانی کی اس طرح تمنا نہ کرتیںجس طرح سیفو غروبِ آفتاب کے وقت جزیرہ لیو کاس کی سفید چٹان کی بلندی سے بحیرہ روم میں چھلانگ لگا کر یقینی موت کے منھ میں چلی گئی تھی اور اٹھائیس مارچ 1941ء کوورجینا وولف نے اپنے کوٹ کی جیب میں پتھر ڈال کر شمالی یارک شائر برطانیہ میں اپنے گھر کے نزدیک بہنے والے دریائے آؤز میںکُود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔ سات فروری 1587ء کو میری کوئن آف سکاٹ کاسر تن سے جدا کر دیاگیا۔ صدیوں پہلے لکھنؤ کے باشندوں نے مساوات اور عدل و انصاف کی بنا پر انسانیت نوازی اوراحترام انسانیت کی جوطرزِ فغاں ایجادکی وہی اب طرزِادا قرار پائی ہے ۔ خدا ترسی اور انسانی ہمدردی لکھنوؐ کی تہذیب کاایسا وصف ہے جس پرپوری دنیا کے باشندے لکھنؤ کی تعریف کرتے ہیں۔لکھنو ٔ کے باشندوں کی سخاوت اور دریا دِلی کے واقعات کے ہر جگہ چرچے ہیں۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے :
’’ سب لوگ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں ۔دعا ہے کہ اللہ ہر جگہ کے لوگوں کو اور سب کو ایسی توفیق دے ۔یہ صر ف لکھنؤ کی ہی نہیںہر جگہ کی انسانیت کی داستان بن کر تہذیب کے سانچے میں ڈھل جائے ۔( عثمانہ اختر جمال : لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ 35)
کسی بھی شہر یا خطے کی تہذیب کے معائر کو پرکھنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہاںکے باشندے آلام ِ روزگارکے پاٹوں میںپسنے والے مجبور ،مظلوم اورقسمت سے محروم انسانوںکے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔لکھنؤ کے لوگ پیسہ مانگنے کے لیے آنے والے گداگروں کے ساتھ بھی خو ش اخلاقی سے پیش آتے ہیں ۔ ایک ضعیفہ بھکارن جس کی کمر میں علالت اور بڑھاپے کے ضعف کے باعث خم تھاکے ساتھ مصنفہ کے خاندان کے افراد نے بہت اچھا سلوک کیا۔ مولانا عبدالحلیم شر رنے اپنی تصنیف مخدرات( 1913) میں ممتاز خاتونانِ ارض کے احوال پر جن فکر پرور خیالات کااظہار کیاہے شایدمصنفہ نے اُن سے گہرااثر قبول کیاہے ۔ مصنفہ کے گھر میں ایک دعوت کے وقت اچانک پہنچنے والی ایک معمر بھکارن کے متعلق جس انداز میں حقائق بیان کیے گئے وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہیں۔بھکارن نے جب گھر میں تقریب دیکھی تو وہ مایوسی اور اُداسی کے عالم میں اس نتیجے پر پہنچی کہ اُس کایہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ اپنی کٹیا میں فاقہ کشی کی دعوتوں کی عادی یہ بڑھیا واپس جانے لگی مگر اُسے روک لیا گیا اور اُسے تقریب میں شامل کر لیا گیا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ غریبوں کی مجبوریاں،بیماریاں اور تکلیفیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ وہ ہر وقت احساس محرومی کی آنچ پر سلگتے رہتے ہیں۔ اس تقریب میں ہمدردی کاایک لفظ بھی اُس مجبور و بے سہارا ضعیفہ کے لیے پر تکلف ضیافت کے مانند تھا۔ مصنفہ نے مجبور فقیروں کے حالات کا جس انداز میں ذکر کیاہے اُسے پڑھ کر آنکھیں پر نم ہوگئیں۔
’’ بڑی بی ہمیشہ کی طرح آئیں مگر جب اتنے بہت سے لوگوں کودیکھا توگھبرا گئیں ۔سمجھیں کہ غلط وقت پر آئیں۔گھر میں کوئی فنکشن ہے تووہ واپس جانے لگیںمگر انھیںجانے نہیں دیا گیااور روک لیا گیا۔وہ زمیں پر بیٹھنے لگیں ۔فقیرنی تھیں توکیااِتنی بزرگ خاتون تھیں زمین پر کیسے بیٹھنے دیا جاتا۔وہ امی کے قریب بیٹھتی تھیں ۔اُن کے لیے امی کے قریب والی کرسی خالی کر دی گئی ۔ ۔ سب سے پہلے اُن کو چائے اور ناشتہ دیا گیا۔اس کے بعددوسرے مہمانوں کودیا گیا۔اُن کوکھانے کے لیے بھی روک لیاگیا۔اپنی اتنی خاطر دیکھ کراُن کی آ نکھوں میں آ نسوآ گئے ۔‘‘( ( عثمانہ اختر جمال : لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ 32)
لکھنؤ کی تہذیب پر یہ تحقیقی کتاب روشنی کے سفر کا آغا ز ہے ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے ایک قلم بہ کف مجاہدہ کا کردار ادا کرتے ہوئے عملی زندگی میں۔صدیوں سے ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ اہانت آمیزسلوک کیا جاتا رہاہے ۔ مصنفہ نے اپنی اس کتاب میں قارئین کو حریتِ ضمیر سے جینے اور حریتِ فکر و عمل کوزاد ِراہ بنانے کا مشورہ دیاہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ صرف غربت ، افلاس اور بد قسمتی ہی خواتین کی الم ناک زندگی کا سبب نہیںبنتی ۔یہ انہونی بھی دیکھی گئی کہ قصر شاہی کا ماحول بھی بعض خواتین کو عبرت ناک انجام سے نہ بچا سکا۔شاہ جہان کی ملکہ ارجمند بانو(ممتاز محل ) جوتاج محل آگرہ میں ردائے خاک اوڑھ کرسو رہی ہے بادشاہ کے سترہویںبچے کو جنم دیتے وقت زچگی کے دوران میں لقمۂ اجل بن گئی۔ کاش بغداد میں ہارون الرشیدعباسی نے اپنی بہن عباسہ اور دہلی میں اورنگ زیب نے اپنی بیٹی زیب النسا مخفی ؔ کے ساتھ اچھاسلوک کیا ہوتا۔ان خواتین کوقیدتنہائی میں رکھ کر جس اذیت و عقوت میں مبتلا رکھا گیا وہ جبر کی لرزہ خیزاور اعصاب شکن مثال ہے ۔حالات خواہ کچھ بھی ہوں اور ان کا جوبھی پس منظر ہومجبور خواتین پر کوہِ ستم توڑنا سفاکی اور شقاوت کی انتہا ہے ۔لکھنؤ کے باشندے خوش قسمت ہیں کہ وہاں ہر دور میں خواتین کے احترام اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی ایک مضبوط اور مستحکم روایت پروان چڑھتی رہی ہے ۔ لکھنؤ کی تہذیب جوخدمت ِخلق اور نیکی کے اوصاف سے مزین ہے پوری دنیا میں ارفع مقام حاصل کر چُکی ہے ۔لکھنؤ میں طبقاتی کشمکش کا وجود نہیں بل کہ یہاں محمود و ایاز سب ایک ہی صف میںکھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔اس تہذیب میں جاہ و منصب اور دولت و جاگیر کی بنا پر کوئی درجہ بندی نہیں کی جاتی بل کہ یہاں شرافت ، دیانت ،خدمت اورخلوص و مروّت کی بنا پر عزت واحترام کی منزل تک رسائی ممکن ہے ۔لکھنؤکی تہذیب کی شہرت کا قصرعالی شان اُن شخصیات کی خدمات اور کشف وکمال کی اساس پراستوار ہے جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میںخونِ دِل سے اِس گلشن کوسیراب کیا۔لکھنو ٔ کے باشندے بیگم حضرت محل ،غلام مینا شاہ مینا ،کھمن پیراور دادا میاں کا نام بہت احترام سے لیتے ہیں۔
لکھنؤ کی تہذیب نے نوآبادیاتی دور کی افراتفری اور انتشار سے بچتے ہوئے جس مربوط ، منظم اور آزادانہ انداز میںصدیوںکا سفر طے کیاہے وہ اقوام ِ عالم کی توجہ کا مرکزبن چکاہے ۔ ایک غیر محسوس صورت میں اس خطے کی ارضی اور ثقافتی اقدار و روایات کی مہک اس میں شامل ہوگئی ہے جس کے بارے میں جان کر قریۂ جاں معطر ہو گیاہے ۔ جزئیات نگاری میں محترمہ عثمانہ اختر جمال کو کمال حاصل ہے وہ جس مقام یا شخصیت کا ذکر کرتی ہیں اُس کے بارے میں تمام تفصیلات بھی پیش کر تی ہیں ۔ لکھنؤ کی خواتین کے ملبوسات وہاں کی ثقافت کے آ ئینہ دار ہیں۔محترمہ عثمانہ اختر جمال نے شعور ی کوشش سے ثقافتی پہلوکی جانب متوجہ کیا ہے۔ بہرائچ سے آنے والی ضعیف بھکارن کے لباس کی صورت جیسے انھوں نے دیکھی اُسی طرح لکھ دی :
’’ اُن کا دوپٹہ ،جمپر اور غرارہ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔‘‘ ( عثمانہ اختر جمال :لکھنؤ کی تہذیب ،صفحہ 32)
محترمہ عثمانہ اختر جمال ایک وسیع المطالعہ ادیبہ ہیں اُن کی تحریروں کو پوری دنیا کی ویب سائٹس پر پذیرائی ملی ہے ۔ مجھے اپنی اِس محرومی کا اعترا ف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں اُن کی عظیم شخصیت اور علمی و ادبی پس منظر کے بارے میںکچھ نہیں جانتاتاہم اُن کی تخلیقی تحریروں کو میں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔میں سمجھتا ہوں اُردو ادب میں تانیثیت کے حوالے سے اُن کی علمی ، ادبی اور معاشرتی خدمات تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔
اٹھارہ نومبر 2022ء کی شام مجھے محترمہ عثمانہ اختر جمال کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انھوں نے اپنی تصنیف بھجوانے کے لیے مجھ سے ڈاک کا پتا طلب کیا تھا۔میں نے اپنے گھر اور ڈاک کا پتا بیس نو مبر 2022ء کو ای میل کے ذریعے بھیج دیا۔چار دسمبر2022ء کو ایک رجسٹر ڈ پارسل کے ذریعے مجھے فضلی بک کراچی کی طرف سے محترمہ عثمانہ اختر جمال کی تصنیف ’’ لکھنو ٔ کی تہذیب ‘‘موصول ہوئی ۔ محترمہ عثمانہ اختر جمال نے اپنی اہم تصنیف سے مجھے ارسال فرما کر مجھے خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیاہے ۔میں ان کے اس کرم کے لیے سپاس گزار ہوں ۔یہی تو لکھنوی تہذیب کا ایک انداز ہے جس کا پوری دنیا میں چرچا ہے۔لکھنؤ ،جھنگ ،امریکہ اور کراچی کا یہ معتبر ربط اقلیم معرفت سے تعلق رکھنے والی شخصیت کاایساحیران کُن کرشمہ ہے جسے دیکھ کر فرطِ تشکر سے آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔میں نے بدھ ،چودہ دسمبر کوای میل کے ذریعے یہ تجزیاتی مضمون محترمہ عثمانہ اختر جمال کی خدمت میںارسال کر دیا۔ ۔ ناخن پہ گرہ نیم باز کا جو قرض ہے وہ اس تحریر کے ذریعے اُتارنے کی سعی کی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس نوشت :
جھنگ میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ادیب ،مورخ ،ماہر عمرانیات اورفلسفی پروفیسر غلام قاسم خان نے محترمہ عثمانہ اختر جمال کی تصنیف ’’ لکھنو ٔ کی تہذیب‘‘ کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ۔وہ ایک محنتی معلم کے ساتھ ساتھ وسیع المطالعہ عالم بھی ہیں۔ میں نے اس معرکہ آرا تصنیف کے بارے میں اپنا محولہ بالا تجزیاتی مضمون بھی کتاب کے اندررکھ دیا تھا۔دو دِن کے بعد وہ کتاب واپس کرنے میرے گھر پہنچے تو کہنے لگے :
’’ میں یہ کتاب کسی قاصدکے ذریعے بھی بھجوا سکتاتھا مگر کچھ اہم نکات کی وضاحت کرنے کے لیے میں خود حاضر ہوا ہوں۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ تہذیب سے متعلق امور کا تجزیہ نہیں بل کہ تجربہ اور مشاہدہ درکار ہے ۔ نوآبادیاتی دور میںمیر ے والد غلام علی خان چین نے کچھ عرصہ لکھنؤمیں گزارا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آتشؔ و ناسخؔ کے شہر میں رہنے والے سخن فہم اچھی تحریر پر توجی بھر کر داددیتے ہیں مگر ٹوٹے پھوٹے لفظ گھڑ کر لانے والے متشاعر اور نام نہادنثرنگارجو تعریف و توصیف کا اس طرح تقاضا کرتے ہیں جیسے کم سِن بچہ بزرگوں سے ٹافی کا تقاضا کرتا ہے اُن کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ ایسے بونے جواپنے زعم میں باون گزے بن بیٹھیں اُن کے بارے میں اہلِ لکھنو کچھ کہنے سے بالعموم گریز کرتے ہیں۔ اس کتاب کومیں ایسا بیش بہا ساغر ِ جم سمجھتا ہوں جس میں لکھنؤ کی تہذیب کے سب پہلو دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں نے آپ کا مضمون بھی بڑی توجہ سے پڑھاہے ۔تنقید کے ترازو کے ایک پلڑے میں اگر کتاب رکھوں اور دوسرے پلڑے میں آپ کا مضمون تو کتاب والا پلڑا بہت بھاری دکھائی دیتاہے ۔آپ کی تحریر میں لکھنؤ کی عظیم تہذیب سے متعلق کئی صورتیں ادھوری رہ گئی ہیں اور کئی ضروری باتیں ناگفتہ رہ گئی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے عہدکی عظیم مصنفہ کا آ پ کی تحریر کے بارے میں کیا تاثر ہے ۔اگر کوئی جواب آئے تو مجھے بھی دکھانا اگرخاموشی ہوتو سمجھ لینا تمھارے بیان کے لیے کچھ اور وسعت درکارہے ۔‘ ‘
میں نے محترمہ عثمانہ اختر جمال کی ای میل من و عن فاضل پروفیسر کی خدمت میں ارسال کردی ہے ۔
عثمانہ اختر جمال :امریکہ، جمعرات،۲۹ دسمبر ۲۰۲۲ء ( ای میل ) وقت :6.57 AM
محترم بھائی غلام شبیررانا صاحب ،السلام علیکم ۔میری کتاب ’’ لکھنؤ کی تہذیب ‘‘پر لکھے آپ کے عظیم تبصرہ کا بہت بہت شکریہ ۔یہ تنقید اور تبصرہ اُردو ادب کا بہت عظیم سرمایہ ہے ،جس پر نہ صرف ہم بلکہ پوری دنیاکا ہر ادب ہمیشہ ناز کرے گا۔اللہ آپ کو سلامت رکھے اور خوشیوں سے مالا مال کر دے ۔آمین۔میں نے تفصیل اٹیچ کر دی ہے ۔پڑھ لیجیے گا۔میںاس تبصرہ اورتنقید کو اپنے ویب پیج میں شامل کر رہی ہوں۔شکریہ
نیاز مند
عثمانہ اختر جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ ایک عظیم تبصرے کے لیے
محترمی بھائی غلام شبیررانا صاحب،السلام علیکم ۔میں معافی چاہتی ہوںمیری کتاب ’’ لکھنؤکی تہذیب ‘‘ کے لاجواب تبصرے اور مضمون کاجواب میں بہت دیرسے دے رہی ہوں۔میں اپنے شہر سے باہر تھی اور میرا کمپیوٹر خراب تھا۔نئے کمپیوٹرپر اپنی فائلیں ٹرانسفرکرنے میںکافی وقت لگ گیا۔کیونکہ میں چھٹیوں میںگھر پر نہیں تھی بچوں کے ساتھ دوسرے شہرگھوم رہی تھی ۔فون پر آپ کا مضمون کُھل نہیں رہاتھا۔
آپ کے لا جواب تبصرے اور تاثرات کا بہت بہت شکریہ ۔آپ نے تو میر ی کتاب ’’ لکھنؤ کی تہذیب ‘‘ کو بے مثال کر دیا۔اتنی تفصیل کے ساتھ آپ نے اِس کے بارے میں لکھاہے کہ اِس کا تصور بھی ہم نہیںکر سکتے تھے ۔آپ کے عظیم قلم نے اِس کتاب کے ایک ایک لفظ میں جان ڈال دی ہے ہر لفظ جیسے اپنی خصوصیت اپنی خوبی لے کر بول اُٹھا ہو۔آپ نے اپناقیمتی وقت دے کر اِتنا لاجواب مضمون لکھاجس کے لیے میں آپ کی ممنون ہوں۔آپ کے اِس قیمتی وقت کی احسان مند ہوںجو اِس کتاب کو پڑھنے اور اِس پر اِتنا اعلیٰ تبصرہ لکھنے میں خرچ ہوا۔آپ کے قلم سے نکلے یہ خوب صورت اور عظیم الفاظ میری بہت بڑی ہمت افزائی بن گئے مجھے لکھنے کا بہت بڑا حوصلہ دے گئے ۔آپ ایک عظیم ادیب اور ادب کی شان ہیںتب ہی ہر لفظ اِس مضمون اِس تبصرے میں نگینے کی طرح جڑ گیاہے ۔ہم نفسیات کی ڈگری والوں کو پتا ہے کہ تعریف کتنی بڑی ہمت افزائی ہے جو ہر شخص کو آگے بہت آگے بڑھاتی ہے ۔آپ کی یہ خوبی اِس تنقیداور تبصرے میں اپنی عظمت کے ساتھ نمودار ہوئی ہے ۔جس کی تعریف کے لیے الفاظ بھی کم پڑ جائیں۔اور کوئی خامی بھی بتائی تو اِس خوبی سے بتائی کہ منھ سے بے ساختہ واہ نکل گیااورایک فخر بن گیا۔آپ نے اپنے لاجواب تبصروں سے ہمیشہ میری بہت حوصلہ افزائی کی مجھے فخر کی دولت سے مالا مال کیا۔تنقید اور تبصرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ادیب اور ادیبہ کومایوسی نہیں بل کہ اُمیداور فخر کی دولت سے بھر دے ۔یہ خصوصیت آپ میں ہے صرف آپ میں۔بہت بہت شکریہ رانا صاحب ۔آپ کی عظمت کواور آپ کے عظیم قلم کو میں سلام کرتی ہوں۔اپنی عقیدت پیش کرتی ہوں۔
نیاز مند
عثمانہ اختر جمال
عثمانہ اختر جمال : لکھنو ٔ کی تہذیب ،فضلی بک سنٹر کراچی ، اشاعت نومبر 2022
یہ تبصرہ ادبی مجلہ سہ ماہی ادب معلی ٰ لاہور ( جلد17،شمارہ 1،جنوری تا مارچ 2023)میں شائع ہوا۔ اُنیس جنوری 2023ء کواس مضمون کو سکین کر کے اسے پی ڈی ایف میں تبدیل کیاگیااوراِسے مختلف ادبی فورمز پر بھیج دیا گیا۔ بزم قلم سے اس مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد امریکہ میں مقیم ممتازبھارتی ادیبہ محترمہ فرزانہ اعجاز نے 19جنوری 2023ء کو رات گیارہ بجے بھیجی گئی ای میل میںلکھا:
’’محترم غلام شبیر رانا صاحب ،تسلیم
بہت عرصے بعد آپ کی تحریر نظرنوا زہوئی ،وہ بھی ہمارے لکھنؤ کے ذکر کے ساتھ ۔عثمانہ صاحبہ کی کتاب تو ابھی نہیں مِل سکی،مگر ہماری عزیز سہیلی افسر جمال کی بہن ہیں (جیسا کہ سُناہے ،وہ بھی اُن کی دوسری بہن قیصر جمال کی سہیلی سے )اگر واقعی یہ سچ ہے توہم کئی بار اُن کے گھر گئے ہیںاور اُن سے مِلے بھی ہیں۔ان کے ماموں ،ہمارے ماموں کے دوست تھے ،ہم اُن کو احمدمامو ںکہتے تھے ۔اُس کے ذریعے آپ سب جیسے عظیم قلم کاروںسے تعارف ہوا،بہت کچھ سیکھا بھی ۔ہمارا خاندان ’’ فرنگی محل ‘‘ لکھنؤ کے اصلی شہر یعنی پرانے شہر میں رہتا ہے ۔اورنگ زیب نے یہ جگہ ہمارے بزرگوںکو دی تھی ۔عثمانہ صاحبہ کی طرح لکھنؤ کے بہت سے پروانے ہیں۔ہم جہاں جہاں بھی جاتے ہیں،ہمارا لکھنؤ ہمارے ساتھ ساتھ جاتاہے ۔آج کل ہم یہیں ہیں ،یہاں کے عام لوگ بھی بہت مہذب گفتگو کرتے ہیں۔دکان دار ہوں یا رکشا والے ،سب کے لہجے میںعجیب مٹھاس بھری ہوتی ہے ۔کسی کا شعرہے :
ہمارے شہر کی تہذیب ڈھونڈنے والو
جدھرہیں ٹاٹ کے پردے اُدھرگئے کہ نہیں
خداحافظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانہ اختر جمال : لکھنو ٔ کی تہذیب ،فضلی بک سنٹر کراچی ، اشاعت نومبر 2022
بھارت کے ممتازادیب اویس جعفری کچھ عرصہ اسلام آباد سے سیّدمنصور عاقل کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی مجلہ ’’ الاقربا ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل رہے ۔ یہ تبصرہ ادبی مجلہ سہ ماہی ادب معلی ٰ لاہور ( جلد17،شمارہ 1،جنوری تا مارچ 2023)میں شائع ہوا۔ اُنیس جنوری 2023ء کواس تبصرے کو سکین کر کے اسے پی ڈی ایف میں تبدیل کیاگیااوراِسے مختلف ادبی فورمز پر بھیج دیا گیا۔ اس تبصرے کا مطالعہ کرنے کے بعد سیاٹل ریاست ، واشنگٹن ، امریکہ میں مقیم ممتازبھارتی ادیب اویس جعفری نے 19جنوری 2023ء کو سہ پہر سوا پانچ بجے بھیجی گئی ای میل میںلکھا:
محترم المقام جناب پروفیسر غلام شبیررانا صاحب ۔۔سلام و تعظیم
میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیںجو آپ کا شکریہ ادا کرنے کا حق اداکر سکیں۔آپ نے مجھے یاد رکھا،اِس کے لیے میںآ پ کا بے حدممنون ہوں۔بہن عثمانہ جمال کی کتاب پرآپ کا تبصرہ معرکتہ الاراہے ۔آپ نے لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کے بے شمارگوشوںکامحاصرکیاہے اور بہت خوب کیاہے اور جس زبان و اندازمیںکیا ہے وہ مثالی ہے ۔مجھے تو عثمانہ بہن پر رشک آ رہاہے ۔میں نے چندگھنٹے پہلے کمپیوٹرکھولاتو آ پ کی ای میل دیکھی۔ابھی صرف ایک مرتبہ تبصرہ پڑھا ہے اور تشنگی کا تقاضا ہے کہ متعددبارپڑھاجائے تا کہ شوقِ مطالعہ کی تسکین ہو سکے ۔آپ کا مضمون رسالہ کے معیار کی ضمانت دیتاہے ،چنانچہ میں اِس کا خریدار بننے کی کوشش کرتا ہوں۔ بد قسمتی سے الاقربا منصور بھائی کے ’’ ڈائی مینشیا ‘‘مرض کی وجہ سے بند ہوا۔اللہ بھائی کوصحت منداور تندرست رکھے ۔آمین۔الاقربا کے بہانہ کچھ لکھنے پڑھنے کی توفیق ہو جاتی تھی جواب مدتوں سے میسر نہیںآئی۔
میں نے اپنے مجموعہ کلام کا شائع کرانے کاآرزومندہوں۔اپنی شعری کاوش کے ساتھ ساتھ میری خالہ زاد بہن انور برنی مرحومہ کااور دوسری بہنوں اور دو بھائیوں کاکلام بھی شامل ہے ۔کوئی قابلِ اعتمادپر نٹرنہیں مِل سکا۔ایک دوست سلمان غازی نے جوبمبئی میں مقیم ہیںدہلی کے ایک پرنٹر کی نشان دہی کی ہے ۔اُن سے رابطہ کروں گااور تفصیلات معلوم کرو ںگا۔دعا فرمائیے کہ یہ آرزوپوری ہوجائے ۔اگر آپ تبصرہ لکھنے پر از راہ ِ کرم مائل ہو جائیں توہم سب کے ادبی قد و قامت میں اضافہ ہو سکتاہے ورنہ میں /ہم کیااور میری/ہماری کاوش کیا؟
سراپاسپاس و خیر اندیش
اویس جعفری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانہ اختر جمال ( امریکہ )
بھائی رانا صاحب ۔السلام علیکم ۔میںنے آپ کامیسج سردارعلی صاحب کے بیٹے افسر علی صاحب کو بھیج دیاہے وہ آپ سے کنٹیکٹ کر لیںگے ۔آپ نے میری کتاب ـ’’ تتلیوں کے رنگ ‘‘ کے لیے کہاہے ۔وہ ابھی شائع نہیں ہوئی ہے ۔مدت سے پبلشر صاحب شائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان شااللہ میں آپ کوکتاب بھیجوںگی جیسے ہی وہ مجھ تک پہنچے گی ۔ویب سائٹ پر تو وہ بہت دیر میںلگے گی۔میری کتاب ’’ تین گلاب ‘‘ویب سائٹ پر ہے ۔میں اپنی ویب سائٹ کی لنک بھیج رہی ہوں،شکریہ ۔آپ بہت عظیم ہیں بھائی آپ سردار علی صاحب پر لکھیں گے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔آپ کا ای میل ایڈریس میںنے اُن کے بیٹے کوبھیج دیاہے ۔گھر میں سب کو سلام اور بہت سی دعا ئیں۔
نیازمند
عثمانہ جمال
ویب سائٹ :usmanajamal.com
Sunday 22 January 2023
محترمی بھائی ڈاکٹر غلام شبیررانا صاحب ۔السلام علیکم
ادب معلی میں اپنی کتاب کے بارے میں تحریردیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔آپ کی اس ہمت افزائی کی دِل سے ممنون و احسان ہوں۔اللہ آپ کوہمیشہ خوش رکھے ۔آمین۔آپ نے اپنا بیش قیمت وقت دے کر میری کتاب کو پڑھااوراُس پر اتنالا جواب ریویو لکھا،اس کوادب ِمعلٰی جیسے عظیم میگزین میں شائع بھی کروا دیا۔یہاں اور پوری دنیاکے لوگ جومجھے اور آپ کو جانتے ہیںوہ سب آ پ کی اس علمیت کی بہت تعریف کر رہے ہیں۔میں ادب ِمعلٰی کی ممبر بنناچاہتی ہوںاوراس میگزین کوبھی اپنے کُلکشن میںرکھناچاہتی ہوںجس میںآپ کی عظیم تحریر ہے ۔میں منی آپ کے ذریعے بھیجناچاہتی ہوں،آپ میگزین تک پہنچادیجیے گا۔آپ اور ادبِ معلٰی میگزین اوران سے وابستہ سب ہی لوگوں کی دِل سے بہت مشکورہوں۔سب کا بہت بہت شکریہ ۔میں منی ویسٹرن یونین کے ذریعے بھیجوں گی ۔آپ کی یاجن کوبھیجناہے کی پکچرآئی ڈی پر جونام اورپتاہے وہ فوراً بھیج دیجیے تاکہ منی آج ہی بھیجی جاسکے۔یہ بھی ضرور بتائیے گاکہ سالانہ ممبر شپ کی کتنی منی بھیجی جائے ۔بہت بہت شکریہ
نیازمند
عثمانہ اختر جمال
ای میل :2.32 AM ہفتہ ،21،جنوری 2023 ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاٹل ریاست، واشنگٹن ، امریکہ میں مقیم ممتازبھارتی ادیب اویس جعفری نے جمعہ 19جنوری 2023ء کو صبح 7.55بجے بھیجی گئی ای میل میں مدیرادب معلیٰ کو لکھا جس کی ایک کاپی مجھے بھی ارسال کی گئی :
مدیر محترم ۔۔السلام علیکم
آ ج شام پروفیسر غلام شبیرراناصاحب کا عزیزبہن محترمہ عثمانہ اختر جمال صاحبہ کی لکھنو کی تہذیب و معاشرت کی آئینہ دار کتاب پر معرکتہ الارا تبصرہ پڑھااورآپ کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدہ سے تعارف ہو سکا۔ماشااللہ عثمانہ بہن بہت اچھی ادیب اور شاعرہ ہیں۔میں رانا صاحب کے قلم کامعترف ہوںاورآپ کی تحریرکورسالہ کے معیار کی ضمانت سمجھتا ہوں۔میں مختلف ادبی رسالوں کے ساتھ کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ رہا ہوں اور معیاری ادب کے مطالعہ کا شائق ہوں۔براہِ کرم یہ فرمائیے کہ خریدار بننے کے لیے مجھے کِس کے نام زرِ خریدارسال کرناہوگا،چندہ بھیجنے کامیرے پاس واحدذریعہ ’’ ویسٹر ن یونین ‘‘۔میں اس کے پاس مطلوبہ ڈالر جمع کر ا سکتاہوںاور آپ بنک جا کروہی رقم ہندوستان کی کرنسی میںحاصل کر سکتے ہیں۔بشرطِ فرصت جواب سے سر فرازفرمائیے ۔
منت کیش
اویس جعفری
سیاٹل ،ریاست واشنگٹن ،
امریکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانہ اختر جمال ( امریکہ )
ای میل اتوار 29۔جنوری 2023ء ۔ صبح5.25
محترمی بھائی ڈاکٹر غلام شبیررانا صاحب السلام علیکم ۔میری کتاب ’’ لکھنو ٔ کی تہذیب ‘‘پر لکھے آپ کے لاجواب تبصرے کو جنوری کے ’’ ماہ نامہ نیرنگِ خیال ‘‘ میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔بہت بہت شکریہ ۔آپ کی اِس مہربانی اور عنایت کی دِل سے مشکور ہوں۔میں بار بار یہی کہوںگی کہ آپ نے نہ صرف اپناقیمتی وقت دے کر میری کتاب کو پڑھابل کہ اِس پر اپنے لاجواب خیالات کااظہارکر کے تنقیداور تبصرہ لکھااوراِن کوپاکستان کے میگزینز ’’ ادب ِمعلیٰ ‘‘ اور ’’ نیرنگ ِ خیال ‘‘ میں شائع بھی کروایا۔اِتنی عظمت اِتنی بڑائی آپ کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھی ۔آپ کایہ بہت بڑا احسان ہے ۔میرا بہت بڑا فخر اورنازہے ۔اللہ آپ کو اِس کابہت بڑا اجر دے ۔آمین۔میں ماہ نامہ نیرنگ ِ خیال راول پنڈی کے مدیران اور اِس سے وابستہ سب ہی لوگوں کا شکریہ اداکرتی ہوں۔مجھے یہ میگزین چاہیے ہیں۔میںاِس میگزین کو سالانہ منی بھیج ایشو کروانا چاہتی ہوں۔کیسے بھیجوںاور کس کے نام بھیجوں۔مجھے جن کے نام بھیجنا ہے اُن کی پکچرآئی ڈی پر لکھا نام اورایڈریس چاہیے۔میں یہ منی ویسٹرن یونین کے ذریعہ بھیجوں گی ۔شکریہ ۔میں دوشنبہ کوای میل بھیج کر معلوم کروںگی ۔گھر میں سب کو سلام اوردعائیں۔
نیازمند
عثمانہ اختر جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔