ڈھاکہ سٹیڈیم کا یہ منظر امریکی جریدے ٹائم کے 3 جنوری 1972 کے شمارے میں چھپی ایک رپورٹ سے لیا گیا ہے، جس کا عنوان تھا ’جیت کا انتقام‘ دو نوجوان مکتی باہنی کےگوریلوں کی ٹانگوں سےلپٹےزندگی کی بھیک مانگ رہےہیں۔ کچھ ہی دیر میں ان کےدو اور ساتھیوں سمیت چاروں ایک وحشیانہ تشدد سہنےکے بعد سنگینوں کی نوک پر جھول جائیں گے۔ ایک پاگل ہوتا قہقہے لگاتا ہجوم جس میں چھوٹے چھوٹےبچے بھی شامل ہیں اس چوہرےقتل سےحِظ اُٹھائے گا۔
کم و بیش نو ماہ پر محیط پاک فوج کا بنگالی عوام کا بہیمانہ قتل، املاک کی تباہی اور عورتوں کی عصمت دری وہ عوامل تھے جسکو بنیاد بنا کر اوائلِ دسمبر میں ہندوستان نےمشرقی پاکستان پر حملہ کردیا تھا۔ ایک ہاری ہوئی جنگ 16 دسمبر کو اپنے منتقی انجام کو پہنچی تو انقلاب کی لہر میں ڈھل کر مکتی باہنی اور بنگالی عوام کے لیے آزاد بنگلہ دیش کا پیام لائی۔ انقلاب خون آشام ہوتے ہیں، جب آزادی مل جائے تو ان کی کوکھ سے انتقام کی اندھی ناگن پھن لہرائے نکل کھڑی ہوتی ہے۔
جیت کا جشن مناتی 18 دسمبر کو ڈھاکہ سٹیڈیم میں منعقدہ یہ ریلی شیخ مجیب کی رہائی کا مطالبہ کررہی تھی جب اچانک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک وحشیانہ قتل میں بدل گئی۔
ایک ماہ کے اندر لائلپور کی جیل سے رہائی پاکر شیخ مجیب ایک چارٹرڈ پاکستانی طیارےپر براستہ لندن آزاد بنگلہ دیش پہنچ جائیں گے۔
اوائلِ فروری میں ان سے ایک اطالوی صحافی اوریانا فِلَسی نے دورانِ انٹرویو جب ڈھاکہ سٹیڈیم کی 18 دسمبر کی ریلی میں ہونے والے چوہرے قتل کے بارے میں استفسار کیا تو شیخ مجیب کا فوری ردِ عمل تھا کہ ’کونسا قتل؟ آپ سے کسی نے جھوٹ کہا ہے۔‘
اوریانا کے اصرار پر کہ ان کے پاس دستاویزی ثبوت وہ تصاویر ہیں جو ان کے اخبار نے چھاپی ہیں اور یہ کہ مارنے والے قادر صدیقی کی سربراہی میں مکتی باہنی کی وردیوں میں تھے تو مجیب کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے بنگلہ دیش کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنے والے رضاکار ہوں گے۔ قادر کے لیے ان کو ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
قادرعرف ٹائیگر صدیقی کاذکرکچھ آگےچل کردوبارہ آئےگا۔ فی الوقت لفظ رضاکارکی جانکاری لیتےہیں۔ مشرقی پاکستان کےمقامی بنگالی اور بہاری باشندوں پرمشتمل پاک فوج کےزیرِ نگرانی یہ مسلح ملیشیاتھی جو رضاکارکہلاتی تھی۔
جنرل نیازی اپنی کتاب میں لکھتےہیں گو کہ رضاکاروں کی تربیت پہلےسےجاری تھی اس عسکری گروپ کی تشکیل کاباقاعدہ اجازت نامہ اگست 1971 کا ہے۔ کالج اورمدرسوں کےتعلیم یافتہ، نوجوان پرجوش طالبعلموں اورکچھ دوسرےرضاکاروں پرمشتمل البدر اور الشمس کی تنظیم سازی کی گئی ۔ اول الذکرگروپ عسکری طور پر زیادہ فعال تھااور ان کےذمےحملے اور گھات کی طرز کےخصوصی آپریشنز تھے۔
الشمس دفاعی نوعیت کی تنظیم تھی جس کےذمے پُلوں، اہم مقامات اور تنصیبات کادفاع تھا۔
البدر بنیادی طور پر جماعتِ اسلامی کے سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کا عسکری ونگ تھا۔ البدر کا آغاز مئی 1971 میں میمن سنگھ میں لگ بھگ 50 افراد پر مشتمل گروپ کی فوجی تربیت تھی
جو 31 بلوچ رجمنٹ کے میجر ریاض حسین نے بالا ہیڈکوارٹر کو اعتماد میں لیے بغیر اپنی قوت فیصلہ پر کی تھی۔
بدری مجاہدین کی تعداد تین سو تیرہ کےعدد پر قائم ایک البدر یونٹ مین اتنے ہی مجاہد تھے جو تین کمپنیوں اور آگے پلاٹونوں میں تقسیم کیے گئے تھے۔
ایک سیاسی جماعت کا یوں ببانگِ دہل عسکری پلیٹ فارم پر متحدہ پاکستان کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لینا البدر کے مجاہدین کو بہت مہنگا پڑنےوالا تھا۔ مگر ابھی تو مستقبل روشن تھا اور مکتی باہنی متحرک تو اتنا سوچنے کا وقت کس کے پاس تھا۔
صاحبو مشرقی محاذ پر برسرِ پیکار پاک فوج کے سپاہیوں کو آج ہم کتنا جانتے ہیں، البدر تو پھر متحدہ پاکستان کی جنگ لڑتے مقامی بنگالی تھے۔ ایک دولخت ہوجانے والے ملک کے غیر بنگالی بازو پر تو احسان فراموشی واجب تھی۔
جمال پور کی قربت میں جمنا کی خونی موجوں میں ڈوب کے جانا ہو یا پھر بوگرہ کے پاس جئی پور ہاٹ میں سرحد کےپانچ میل اندر ہندوستانی سپاہ کے آگے سیسہ پلائی دیوار، یا پھر کھُلنا کی حفاظت میں انڈین گن بوٹس کے جان کی پرواہ کیے بغیر بھڑجانا، یہ معرکے کس کی یادداشت میں زندہ ہیں، کہ جب ان کو بے دھڑک انجام دینے والوں پر ڈھاکہ میں سقوط کا بم گرا تو یہ مجاہد آن کی آن میں غریب الوطن ٹھہرے اور ان کے بھائی بند ان کےخون کےپیاسے۔
میمن سنگھ اور راجشاہی میں رضاکاروں کی تربیت کامعائنہ کرتے اور اواخرِنومبر میں ڈھاکہ میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کو ریویوکرتے جنرل نیازی اور ان کےسٹاف افسروں کو یقیناً علم تھا کہ وہ خون آشام ہتھیاروں کی چھاؤں میں سیاسی یتیم پیداکررہے ہیں
ان عسکریت پسندوں کےسرسےآخری سانسیں لیتی فوج جب اپنی آشیرواداُٹھا لےگی توان کےہم وطن ان کی تکابوٹی کرڈالیں گے
سرحدوں سےمحاذدرمحاذ ایک سرعت میں پس قدمی کرتی ڈھاکہ کوپلٹتی فوج نےجب ہتھیار پھینکنےکافیصلہ کرلیاتو انہوں نےالبدر کواعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا۔
مکتی باہنی کے زیرِ اثر ہندوستانی سپاہ بنگالی رضاکاروں بالخصوص البدر اور الشمس کے کارندوں کی گرفتاریاں لینے پر رضامند نہ تھی۔ صاحبو پاکستانی سپاہ کے پاس اسیری کے ایام جھیل لینے کے بعد لوٹ کر جانے کو ایک ملک تو تھا۔ رضاکار اور مجاہد تو سونار بنگلہ کے باسی تھے۔
پاکستان کی بقا کی جنگ لڑتے جس فوج کی مدد کے لیے وردیاں پہن انہوں نے ہتھیار اُٹھالیے تھے اس کے ہتھیار پھینکتے ہی بنگالی مجاہد وردیاں اتار سویلین کپڑوں میں اگر روپوش بھی ہوتے تو کہاں۔ ان کے گھروالے، ہمسائے، محلے دار سب انہیں جانتے تھے اور عوامی لیگ اور مکتی باہنی ان کے خون کی بو سونگھتی ان کی تاک میں تھی۔
البدر کے گم گشتہ کارناموں کی طرح ان کے بہیمانہ قتل کی کہانیاں بھی نقش ونگارِ طاقِ نسیاں ٹھہریں۔ ہمارے اس تھریڈ کی ابتدائی سطور جو پاکستان کے لیے بہے لہو کا ماتم کرتی ہیں وہ دراصل انتساب ہیں اس کتاب کا جو سلیم منصور خالد نے ایک عرق ریزی کے بعد البدرکے نام سے مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں لگ بھگ سو سوا سو صفحوں کا باب تذکرۂ شہدا کے نام سے ان لکھ لُٹ جسموں کی بھرپور جوانیوں کا ذکر کرتا ہے جو انیس، بیس بائیس سالوں کی کچی پکی عمر میں ایک متحدہ پاکستان کے خوش آئند خواب پر بنگلہ دیش میں نثار ہوگئیں۔
ان میں سے ایک محمد عبدالمالک اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کا ناظم جو یونیورسٹی میں چھڑی نظامِ تعلیم کی نوعیت کی بحث کے بےقابو ہوکرایک مشتعل مظاہرےمیں اپنے موقف پرڈٹےرہنےکی پاداش میں تاریک راہوں میں مارا گیا۔ اگست 1969 میں ہوئی اس شہادت کےسبب انہیں البدر کےاولین شہیدہونےکا اعزازحاصل ہے
پھر مصطفٰے شوکت عمران ہے۔ ڈھاکہ میں ہتھیارڈالتے وقت البدر کے گیارہ کیمپ تھے جن میں ایک ہزار کے قریب کیڈٹ تھے۔ ان کو منتشر کرنے کے ذمہ داری مصطفٰےنے اٹھائی۔ فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک حادثے میں زخمی ہونے کےسبب مکتی باہنی کے ہتھے چڑھ گئے اور وحشیانہ تشدد کے بعد قتل کردیے گئے۔
مصطفٰے شوکت عمران کی قبر کا کوئی نشان نہیں ہے، اسی طرح البدر کے کتنے بے نامی شہید ہیں جنہیں گوروکفن کی عیاشی میسر نہیں آئی۔ اور جو آئی بھی تو کون ہے جو ان کی تربت پر فاتحہ پڑھے۔ پاک فوج کے ایک اجنبی زمین میں سوئے سپاہیوں کے برعکس یہ شہید اپنی زمین میں آسودۂ خاک ہیں مگر جس دھرتی کو ان سخیوں نے اپنی جان دان میں دی وہاں انہیں یاد کرنے والا کوئی نہیں
یہ کون سخی ہیں اے ارض وطن
یہ لکھ لُٹ جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچے کوچے بکھرا ہے
ہماری کہانی میں ابھی ایک دو موڑ اور ہیں
ایک آزاد بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کے جتھے ملک دشمن البدر اور رضاکاروں کو گرفتار کرنے اور موقعہ پر ہی سزائے موت سنا کر وحشیانہ تشدد سے اس پر عملدرآمد کروانے میں آزاد تھے۔ کس میں ہمت تھی کہ انہیں روکتا!
18 دسمبر کا واقعہ جسکا ذکر اس تھریڈ کے شروع میں آیا اس لحاظ سے منفرد تھا کہ موقع پر موجود ہندوستانی سپاہ کی سنسرشپ کی کوششوں کے باوجود مغربی میڈیا کے پترکاروں اور کیمروں نے اس منظر کو قلم اور لینس پر محفوظ کرلیا تھا۔
انہی میں سے تاریخ کے پنّوں پر محفوظ ایک منظر ہے مکتی باہنی کمانڈر قادر صدیقی کا، جن کی زیرِ نگرانی چار رضاکار سنگینوں میں پروئے گئے بلکہ ان میں سےایک کی چھاتی پر وار کرنےوالےصدیقی خودہیں۔ شیخ مجیب کے قریب سمجھے جانے والے قادر صدیقی نے تنگیل اور اس کےنواح میں مکتی باہنی کےپاک فوج پرحملوں سےٹائیگر صدیقی کےنام سے شہرت پائی۔ مکتی باہنی کاصدیقی کی زیرِقیادت ونگ قادر باہنی اپنےسفاکانہ اوروحشیانہ تشددکےلیےبدنام تھا۔
آزادی کے بعد بنگلہ دیش نے بہادری کے اعزاز بیر اتم سے نوازا اور آپ نے سیاسی میدان میں بہت فیوض و برکات کمائے۔
مشرقی پاکستان کی تاریخ کے اوراق سے ہی ایک اور نام ابھرتا ہے، مطیع الرحمان نظامی۔ 1971 میں اسلامی چھاترو شنگھو کے صدر ہونے کے ناطے البدر سے ایک مضبوط سمبندھ میں بندھے تھے۔ بنگالیوں پر ڈھائے گئے سنگین ظلم و ستم کے علاوہ 14/15 دسمبر کی رات رائربازار میں اساتذہ اور دانشوروں کے بہیمانہ قتل کی انگلیاں البدر کی نسبت سے نظامی پر اُٹھتی ہیں۔
بنگالی انتقام کی آگ سے اپنا دامن بچا لینے کے بعد ایک آزاد بنگلہ دیش میں آپ جماعتِ اسلامی کے سربراہ تھےجب حسینہ واجد کے قائم کردہ ۱۹۷۱ کے جنگی جرائم کی جانچ کے ٹریبونل نے آپ کو سزائے موت سنائی۔
بنگلہ دیش کے صدر سے رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مئی 2016 میں پھانسی کےپھندے پر جھول گئے۔
ایک بچے کھچے پاکستان میں آج بھی عساکرِ پاکستان کے شہید تو شہید ہیں مگر ایک مارشل لاء اور فوجی آپریشن سرچ لائٹ کی مارکھاتے، قتل ہوتے، اپنی عصمت دری کرتے بنگالی آج بھی غدار بعینہ آج کے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کے سپاہی کو بیر اتم عطا ہوتا ہے اور البدر کے مجاہد کی گردن تہتّر برس کی عمر میں بھی پھانسی کے پھندے میں جھول جاتی ہے۔
___