سیدو شریف، سوات سے سیف الملوک صاحب نے سوال کیا ہے کہ سوداؔ کے اس شعر میں ’آن‘ کا مطلب کیا ہے؟
سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تُو نے اسے کس آن میں دیکھا
سیف صاحب! اچھا کیا آپ نے یہ سوال کرلیا۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ مگر صاحب! اس دو حرفی لفظ کی آن، بان، شان کیا بیان کی جائے۔ کثیر المعانی لفظ ہے۔
’آن‘ اسمِ مؤنث ہے۔ عربی زبان میں’آنَ‘ کے معنی ہیں نرمی کرنا، اور ’الْآن‘ کا مطلب ہے ’اب‘ یا ’ابھی‘۔ اب یا ابھی کے معنوں میں اُردو میں بھی یہ لفظ مختصر وقت اور مختصر ساعت کے مفہوم میں لیا جاتا ہے۔ یعنی تھوڑی دیر، دم بھر، لحظہ بھر یا ’چٹکی بجاتے میں‘۔ آنِ واحد کا مطلب ہے ’ایک لمحہ‘۔ مومنؔ کہتے ہیں:
ایک آن بھی مجھ سے نہ ملو آٹھ پہر میں
گھر چھوڑ کے اپنا، رہو اغیار کے گھر میں
جب کہ دردؔ کو دُکھ ہے کہ
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
یعنی متلون مزاج ہوگیا ہے، اس کے قول فعل کا کچھ اعتبار نہیں رہا۔گھڑی بھر میں پینترا بدل لیتا ہے۔ ’آن‘ کا لفظ ’دیکھتے ہی دیکھتے‘ فوراً یا ’پلک جھپکتے میں‘ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگیا‘‘ یا ’’آناً فاناً سب کچھ زمیں بوس ہورہا‘‘۔ قریب المرگ انسان کو ’آن کا مہمان‘ کہا جاتا ہے کہ اس کی حالت دیکھ کر لگتا ہے دم بھر یا گھڑی بھر میں اس کا دم نکل جائے گا۔ مہمان اس جہان سے رخصت ہوجائے گا۔ نظیرؔ اکبر آبادی نے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد عالمِ بالا سے اس شک و شبہے کا اظہار فرمایا:
کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے
خاک تھے، کیا تھے، غرض اِک آن کے مہمان تھے
مگرسوداؔ کے محولہ بالا شعر میں ’آن‘ کا لفظ اِن معنوں میں استعمال نہیں ہوا ہے۔یہاں ’آن‘ کا مطلب ہے ناز و انداز، ادائے محبوبی اور حُسن و خوبی۔ جلوہ، آب و تاب یا چھب۔ شان و شوکت، سج دھج اور طُمطُراق۔ نثارؔ اپنے محبوب پر نثار ہوئے تو بولے:
تم انجمن میں رات عجب آن سے گئے
بسمل کئی پڑے ہیں، کئی جان سے گئے
اور یہ دیکھیے، ذوقؔ کے اس شعر کے دوسرے مصرعے میں بھی ’آن‘ کے یہی معنی مراد ہیں:
اے اجل تکلیف مت کر کیا کرے گی آن کے
ہو چکا پہلے ہی کشتہ میں کسی کی آن کا
پہلے مصرعے میں جو ’آن‘ استعمال ہوا ہے وہ ’آنا‘ کا مخفف ہے۔’آن کے‘ یعنی آکے یا آکر۔آبیٹھا، آلگا، یا آپڑا کی جگہ آج بھی بعض لوگ آن بیٹھا، آن لگا، یا آن پڑا بولتے سنائی دیتے ہیں۔ میرؔ صاحب بھی اپنے محبوب کی بے رُخی کی یوں دُہائی دیتے ہیں:
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
’آن‘ کا ایک مطلب غرور، نخوت، تمکنت، گھمنڈ اور خودبینی بھی ہے۔’وہ اپنی آن ہی میں مرے جاتے ہیں‘۔ مشہور محاورہ ہے کہ ’جان جائے، آن نہ جائے‘۔اس گھمنڈی دکھاوے کے علاوہ وضع دارانہ رکھ رکھاؤ کو بھی ’آن بان‘ کہتے ہیں۔’آن بان‘ سے ایک طرف مراد اگرشان و شوکت ہوتی ہے تو دوسری طرف خود داری، وضع داری اور بے نیازی بھی اسی سے ظاہر کی جاتی ہے۔جون ایلیا فرماتے ہیں:
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
آن بان سے رہنا ٹھاٹ باٹ سے رہنے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ شان دکھانے کے لیے ’آن تان‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ’’وہ بہت آن تان والا ہے‘‘ تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ بڑی عزت والا، غیرت والا اور ناک والا ہے۔ جب کہ ’آن تان والی‘ ناز اور نخرے والی ہوتی ہے، دماغ دار، ضد کی پوری اور ہٹیلی۔ ’آن نکلنا‘ شان ظاہر ہونے یا کسی میں کسی کی جھلک نظر آنے کے مفہوم میں استعمال کی جانے والی ترکیب ہے۔ جرأتؔ نے قسم کھاکر یہ اعتراف کرنے کی جرأت کر ہی ڈالی کہ
خدا شاہد ہے بس اپنی تو اُس پر جان نکلے ہے
کہ جس میں اُس بُتِ کافر کی سی کچھ آن نکلے ہے
’آن رکھنا‘ مان رکھنے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔کسی کا دل رکھنا یا کسی کی عزت بچا لینا۔ ’’تم نے میری آن رکھ لی، خدا تمھاری شان بنی رکھے‘‘۔ ’آن ماننا‘ کسی کے کمال، کسی کی برتری، کسی کی اُستادی یا کسی کی بالادستی کو تسلیم کرلینا ہے۔ نظیرؔ اپنے محبوب کو اُلُّو بنانے اور اسے سبز باغ دکھانے پہنچے تو بالآخر اُس غریب، سادہ لوح اور سبز پوش الھڑ مٹیارکو سبز کھیتوں میں پہنچا کر ہی دم لیا:
دیکھ کر کُرتی گلے میں سبز دھانی آپ کی
دھان کے بھی کھیت نے اب آن مانی آپ کی
’آن توڑنا‘ قسم توڑنے، پرہیز کو ترک کردینے یا قدیم خاندانی رسم و رواج کے خلاف کام کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ’آن‘ کے معنی قسم اور عہد کے بھی لیے گئے ہیں۔ مثلاً اگر پوچھنا ہو کہ کیا تم نے سسرال جانے کی قسم کھا لی ہے تو کہا جائے گا کہ ’کیا تمھیں سسرال جانے کی آن ہے؟‘
سوداؔ کے جس شعر سے آج کے کالم کا آغاز ہوا ہے، اُس میں شاعر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ بات یہ ہے کہ حُسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔کیا جانیے کہ دیکھنے والے نے کسی کو کس نظر سے دیکھا۔ اسی خیال پر ہمارے ایک آزاد خیال شاعر نے پوری آزاد نظم کہہ ڈالی ہے:
’’میں نے دل کی خلش مٹانے کو۔۔۔ اُس کے دل کش حسین چہرے میں۔۔۔ زاویہ ایسا ڈھونڈ رکھا ہے۔۔۔ جس طرف سے کہ دیکھ لینے پر۔۔۔ وہ بہت کم حسین لگتی ہے۔۔۔ اب بھی جب اُس کو رُوبرو پاکر۔۔۔ دل مرا بے قرار ہوتا ہے۔۔۔ اُس کو اُس زاویے سے دیکھتا ہوں‘‘۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...