آج – ٢٥؍ستمبر ١٩١٢
ممتاز قبل از جدید شاعر، کلاسیکی طرز کی شاعری کے لیے معروف شاعر” عروجؔ زیدی بدایونی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام سید فیاض علی زیدی اور تخلص عروجؔ تھا۔۲۵؍ستمبر۱۹۱۲ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباواجداد کا وطن بدایوں تھا، اس لیے یہ بدایونی کہلائے۔ ان کی ابتدائی تعلیم قدیم اسلوب پر قبضہ ہاپوڑ، ضلع میرٹھ میں ہوئی۔ اپنے آبائی وطن بدایوں میں انٹر کیا۔ بدایوں کی سکونت ترک کرکے رام پور کو مستقر بنایا۔۱۹۳۰ء میں ادبی سفر کا آغاز کیا۔ احسن مارہروی سے تلمذ حاصل تھا۔ ان کا کلام رسالہ’’نگار‘‘ میں چھپتا رہتا تھا۔
۴؍ فروری ۱۹۸۷ء کو رام پور میں انتقال کرگئے۔
ان کے شعری مجموعوں ’’شمع فروزاں‘‘، ’’متاعِ فکر‘‘ اور ’’سفینۂ غزل ‘‘ پر اتر پردیش اردو اکیڈمی نے انھیں ایوارڈ سے نوازا۔ نثر میں ان کی مشہور کتاب ’’زندہ کتبے‘‘ ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
┅┈•✿ ͜✯ ━━━★ ❀ ★━━━✯͜ ✿•┄┅
ممتاز شاعر عروجؔ زیدی بدایونی کے یومِ پیدائش پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
گیا قریب جو پروانہ رہ گیا جل کر
جمال خاص حدوں تک جمال ہوتا ہے
—
اس دلبری کی شان کے قربان جائیے
اب دل دہی کو آئے ہیں جب دل نہیں رہا
—
قدم قدم پہ میں سنبھلا ہوں ٹھوکریں کھا کر
یہ ٹھوکروں نے بتایا غلط روی کیا ہے
—
گفتگو ہوتی ہے اکثر شبِ تنہائی میں
ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے
—
فکر بیش و کم نہیں ان کی رضا کے سامنے
یہ مجھے تسلیم ہے ارض و سما کے سامنے
—
ہر قدم پر مجھے لغزش کا گماں ہوتا ہے
چشمِ ساقی کی نوازش کا گماں ہوتا ہے
—
تم مرے حال پریشاں پہ نہ تنقید کرو
تم نے دامن کبھی کانٹوں میں بھی الجھایا ہے
—
چاند تاروں کا ترے روبرو سجدہ کرنا
خواب دیکھا ہے تو کیا خواب کا چرچا کرنا
—
ہاں میرے واسطے ہے تخصیص کا یہ پہلو
دنیا سمجھ رہی ہے انداز بے رخی ہے
—
حسنِ نظر کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے
اصنام مرمریں بھی لگتے ہیں سیم تن سے
—
خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے
مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے
—
عروجؔ تیرگیٔ شب کا احترام کرو
اسی سے تم نے یہ جانا کہ تیرگی کیا ہے
—
عشق کے ہاتھوں میں پرچم کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کا عالم تیرے عالم کے سوا کچھ بھی نہیں
—
نقشِ خیال آپ کی تصویر بن گیا
یہ معجزہ ہوا ہے نمایاں کبھی کبھی
—
رفتہ رفتہ دل بے تاب ٹھہر جائے گا
رفتہ رفتہ تری نظروں کا اثر جائے گا
—
اپنا اعجازِ تصور دیکھنے کی چیز ہے
ہم جو چاہیں تو مکاں میں لا مکاں پیدا کریں
—
میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ
شعر گوئی کا مزا پیروی میرؔ میں ہے
—
دامن بچا کے ہم تو گزر جائیں اے عروجؔ
خود چھیڑتی ہے گردشِ دوراں کبھی کبھی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
عروجؔ زیدی بدایونی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ