۱۔ اسم
اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔
اس کی دو قسمین ہین
۱۔ خاص
۲۔ عام
خاص۔ کسی خاص شخص یا شئے کا نام ہے مثلاً علاؤالدین، کلکتہ، گنگا۔
عام۔ وہ اسم ہے جو ایک قسم کی تمام افراد کےل یے فرداً فرداً استعمال ہوسکے جیسے آدمی، گھوڑا، درخت۔
اسم خاص
۱۔ خطاب۔ نام جو بادشاہ سرکار و دربار سے اعزازی طور پر ملتا ہے جیسے اقبال الدولہ، عماد الملک۔
۲۔ لقب۔ ایک وصفی نام جو کسی خصوصیت یا وصف کی وجہ سے پڑگیا ہو جیسے مرزا نوشہ لقب ہے اسد اللہ خان غالب کا، یا کلیم اللہ لقب ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا۔
۳۔ عرف۔ وہ نام جو محبت یا حقارت کی وجہ سے پڑ جائے یا اصلی کا اختصار لوگون کی زبان زد ہوجائے جیسے چنو، کلن، فخرو، اچھے میان۔
۴۔ تخلص ایک مختصر نام جو شاعر نظم مین بجائے اصلی نام کے داخل کردیتے ہین۔ مثلا غالب تخلص ہے مرزا اسداللہ خان کا۔ حالی تخلص ہے مولانا الطاف حسین کا۔ اسکے علاوہ ممالک دریاؤن اور پہاڑون کے دیگر جغرافی اسماء اور علوم و فنون و امراض وغیرہ کے نام سب اسم خاص ہونگے۔
۵۔ بعض اوقات اسم خاص صفت اسم کیطرح استعمال ہوتے ہین جیسے ستم۔ حاتم۔ وغیرہ مثلاً یون کہین کہ وہ شخص اپنے وقت کا حاتم ہے یا وہ رستم ہند ہے۔ یا فلان شخص قیس یا فرہاد ہے یا وہ ہومر یا کالیداس ہے ایسے موقعون پر رستم سے بڑا پہلوان۔ حاتم سے بڑا سخی۔ قیس سے بڑے عاشق۔ ہومروکالیداس سے بڑے شاعر مراد ہین۔
اسم عام
دومین اسم عام کئی قسم کے ہوتے ہین ان مین اسمائے کیفیت۔ اسم ظرف۔ اسم آلہ۔ اسم جمع خاص قسمین ہین۔ اسماے کیفیت جنسے حالت یا کیفیت معلوم ہوتی ہے جیسے سختی۔ روشنی صحت۔
اسمائے کیفیت تین چیزین ظاہر کرتے ہین۔
اول حالت جیسے صحت، نیند، رفتار، سچ، جوٹھ۔
دوم صفت مثلاً سختی، نرمی، بہتاب۔
سوم دلی کیفیت مثلاً درد، خوشی، مطالعہ۔
اسماے کیفیت کیونکر بنتے ہین۔
۱۔ بعض فعل سے بنتے ہین مثلاً چال چلن، گھبراہٹ، لین دین۔
۲۔ بعض صفت سے بنتے ہین مثلاً نرمی، خوشی، کھٹائی، دیوانہ پن۔
۳۔ بعض اسم سے جیسے دوست سے دوستی، لڑکے سے لڑکپن۔
۴۔ اکثر عربی ہندی فارسی کے الفاظ اسماے کیفیت کا کام دیتے ہین جیسے صحت، حسن، دہن۔
بشکریہ فہیم
(5) ایک لفظ کی تکرار یا دو لفظون کے ملنے سے جیسے بک بک، چھان بین، جان پہچان؛ خوشبو۔
اسم ظرف
وہ اسم ہے جیسمین معنی جگہ یا وقت کے پائے جائین مثلاً چراگاہ، گھر، میدان بعض علامات ایسی ہین کہ انکے لگانے سےسے اسم ظرف بنجاتا ہے۔ بعض انمین سے ہندی ہین اور بعض فارسی، لیکن یہ نہین ہے کہ جس اسم کے ساتھ چاہا انھین سے کوئی علامت لگا دی، اسم ظرف بنا لئا۔ انمین اکثر سماعی ہیں، یعنی جو زبان ہین مروج ہین۔ البتہ کاہ اور خانہ اور شہرون اور گاؤن کے نام جو آباد، نگر، پور کے ساتھ آتے ہین اس سے مستشنٰی ہین۔
ہندی علامات
سال (یعنی جگہ) جیسے گھڑ سال (گھوڑون کے رہنے کی جگہ) مکسال (جہان ٹکے یعنی سکہ بنایا جاتا ہے۔شالہ یا سالہ۔ جیسے دہرم سالہ۔ پاٹ شالہ، گئو سالہ۔آل-یال- جیسے سسرال۔ ننہیال۔ ددہیال۔آنہ۔ سمدہیانہ۔ سرہانہکا۔ میکا۔(ماکا)بعض خاص الفاظ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر اسم ظرف کے معنی دیتے ہین مثلاً ٹولہ سے قاضی ٹولہ
گھاٹ یا گھٹ۔ مرگھٹ۔پن گھٹ۔ دھوبی گھاٹ۔واڑہ۔ باڑہ۔ جیسے سید واڑہ۔ قصائی باڑہ۔واری۔ جیسے پھلواری۔پارہ۔ جیسے اوپر پارہ۔دوار۔ دوراہ۔ جیسے ہر دوار۔ گردوارہ۔ ٹھاکر دوارہ۔گھر۔ ڈاک گھر۔ ریل گھر۔ تارگھر۔ ناچ گھر۔نگر۔ سری نگر۔ احمد نگر۔پور۔پورہ۔ غازی پورہ۔ شولاپور۔ عثمان پورہ۔گڈھ۔ رلی گڈھ۔ آسمان گڈھ۔منڈی۔ کٹھل منڈی۔فارسی علاماتخانہ۔ کتن خانہ۔ ہندی اور انگریزی الفاظ کے ساتھ جیسے چنڈوخانہ۔ چڑیا خان۔ جیل خانہ۔گاہ۔ چراگاہ۔ چراگاہ۔ شکارگاہ۔ بارگاہ۔ درگاہ۔دان۔ چاردان ہندی الفاظ کے ساتھ پاندان۔ خاصدان۔ پیک دان۔دانی۔ (ہندیون کا تصرف ہے) سرمہ دانی۔ تلے دانی (طلا دان)۔ذرا۔ سبزہ زار۔ لالہ زار۔ مرغزار۔سار۔ کوہسار۔ستان۔ گلستان۔ پرستان۔
شن۔ گلشن۔آباد۔ حیدر آباد، اورنگ آباد۔
بعض اوقات فعل سے بھی اسم ظرف بنتا ہے مثلا بیٹھنا سے بیٹھک’ پینا سے پیاؤ۔ کبھی فعل اور اسم کے ملنے سے اسم ظرف بنتا ہے مثلاً بدررو، آب چک۔ رہنا اور جھرنا دونون مصدع ہین مگر یہ اسم ظرف کے معنون مین بھی مستعمل ہین رسنا کے معنی پھرنے کے ہین۔ ظرفی معنی پھرنے کی جگہ یعنیے چراگاہ کے ہین۔جھرنا مے معنی پانی رسنے کے ہین، ظرفی معنی وہ مقام جہان سے پانی رہتا ہے۔ عربی مین اسم ظرف مفعل۔ مفعلہ کے وزن ہر آتے ہین۔ انمین اکثر اردو مین بھی رائج ہین۔ مثلاً کتب۔ مدرسہ۔ مقبرہ۔مسجد۔ مجلس۔ مرقد، مقام ۔ مزار۔محشر۔ مقتل۔ منبع۔ مخرج، ماخذ۔
اسم آلہ
وہ اسم جو آلہ یا آواز کے معنون مین آئے مثلاً چاقو۔ تلوار۔ ہتوڑا۔
1- بعض اسم آلہ فعل سے بنائے گئے ہین مثلاًبیلنا سے بیلن، جھولنا سے جھولا۔دھونکنا سے دھونکنی؛ جھاڑنا سے جھاڑو۔چھاننا سے چھلنی یا چھاننی’ پھانسنا سے پھانسی۔لٹکنا سے لٹکن۔ کترنا سے کترنی۔ پھونکنا سے پھکنی۔
2- بعض اس، سے بھی بنتے ہین جیےنہرنا سے نہرنی۔ (نہ= ناخن)
ہتوڑا (ہاتھ سے)-دتون (دانت سے)۔
3۔دو اسم مل کر جیسے دسپناہ (دست پناہ) منال (منھ – نال)۔
4- فارسی اسماء کے آگے بعض علامات یا الفاظ بڑہانے سے بنائے گئے ہین۔ہ کے بڑہانے سے جیسے دست سے دستہ، چشم سے چشمہ۔آنہ سے انگشت سے انگشتانہ۔ دست سے دستانہ۔گیر۔ جیسے کف گیر، گلگیر۔کش۔ جیسے بادکش، دودکش۔تراش جیسے قلم تراش
5۔ عربی کے اسمائے آلہ جو اکثر مفعل مفعلہ یا مفعال کے وزن ہر ہوتے ہین اردو مین بھی مستعمل ہین مثلاً مقراض۔ مشعل۔ منقا۔ مسواک۔میزان۔ مضراب۔مسطر سبز۔ مینار، مصقلہ، عربی اسم ظرف اور اسم آلہ مین صرف یہ فرق ہے کہ اسم ظرف مین اول حرف میم مفتوح ہوتا ہے۔ اور اسم آلہ مین مکسور۔
اسم جمعاسم جمع اس اسم کو کہتے ہین جو صورت مین جمع واحد ہو۔ لیکن درحقیقت کےئ اسم کا مجموعہ ہو جیسے فوج۔ انجمن۔ قطار۔ جھنڈ۔
لوازم اسم
لوازم اسم س مطلب ان خصوصیتون سے ہے کو ہر اسم مین پانی جاےی ہین۔
ہر اسم کے لیے جنس تعداد اور حالت کا ہونا لازم ہے۔
(1) جنس
جنس سے مراد اسماء کی تذکییر و تانیث سے ہے۔اس کی دو قسمین ہین۔ ایک حقیقی دوسری غیر حقیقی (یا مصنوعی)۔حقیقی جنس صرف جاندارون میں پائی جاےی ہے، جسکی تین صورتین ہین۔ ایک نر (مذکر) دوسری مادہ (مونث) تیسیر وہ جس پر نر و مادہ مین سے کسی کا اطلاق نہین ہو سکتا لیکن انسان کے تخیل مین بڑی وسعت ہے اس نے اسی ہر اکتفا نہ کی بلکہ بیجان اشیاء اور خیالات حتٰی کہ ہر قسم کے اسماء مین تذکیر و تانیژ کا طرہ لگا دیا۔ لیکن ہر زبان کی حالت ایک سی نہین ہے، کسی مین جنس تین ہین کسی مین دو اور بعض ایسی بھی خوش قسمت زبانین ہین کہ جن مین سرے سے یہ جھگڑا ہی نہین۔ جیسے فارسی زبان۔قدیم اندویورپین زبانون مین جنس کی قسمین تین ہین۔ سامی زبانون مین صرف دو ہین۔ لیکن حقیقی جنس تمام زبانون ہے اور مصنوعی بعض ہین۔ اور جن زبانون مین مصنوعی جنس نہین ہوتی وہان حقیقی جنس کے امتیاز تذکیر و تانیث کے لیے اکثرو ومختلف لفظ ہوتے ہین۔ اور جن زبانون مین جنس کی دو قسمین ہوتی ہین وہان لفظ کی صورت مین تغیر و تبدیل پیدا کر دینے سے تذکیر و تانیث کا امتیاز پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اکثر یہ امتیاز کے لفظ آخری جز یا حرف علت ک بدلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اردو اور نیز اسکے ساتھ کی دوسری زبانون مین جنس کی دونون قسمین پائی جاتی ہین، اگرچہ ان مین باہم کسی قدر اختلاف ہے۔ سنسکرت مین جنس کی تینون صورتین ہین۔ یعنی مذکر اور مونث اور تیسری
ہ صورت جو نہ مذکر ہے نہ مؤنث۔ اسی طرح پراکرت مین بھی تینون صورتین پائی جاتی ہین۔ لیکن جدید زبانون میں جو سنسکرت یا زیادہ تر پراکرت سے پیدا ہوئی ہین، صرف گجراتی اور مرہٹی ایسی زبانین ہین جنمین جنس کی تین صورتین ہین۔ سندھی ۔ پنجابی ۔ ہندی (یا اردو) مین صرف دو ہین ، یعنی مذکر اور مؤنث۔ بنگالی اور اُریہ کی عام بول چال مین جنس کا کوئی لحاظ نہین ہے، سوائے اُن الفاظ کے جو ٹھیٹ سنسکرت کے داخل کر لئیے گئے ہین، اور جن کی جنس وہی باقی ہے جو سنسکرت مین تھی۔ لیکن ان تین زبانون یعنے سندھی ۔ پنجابی ۔ ہندی مین سندھی ایسی زبان ہے جس کے تمام اسما کا آخری حرف حرف علت ہوتا ہے اور اس لیے جنس کی تمیز آسان ہے لیکن باقی دو زبانون مین یہ امتیاز آسانی سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان سب زبانون مین بڑی ، بھاری بھرکم ، قوی اور عظیم الشان اشیا مذکر ہین اور چھوٹی، کمزور اور ہلکی پہلکی چیزیں مؤنث۔ یہانتک کہ جب اصل لفظ مذکر ہے اور اس کی چھوٹی کمزور یا ہلکی صورت بیان کرنی مقصود ہوتی ہے تو اسے مؤنث بنا لیا جاتا ہے اور اسی طرح جب اصل لفظ مؤنث ہے اور اُسے بڑی یا بھاری بھرکم صورت مین لانا مقصود ہوتا ہے تو اسے مذکر بنا لیتے ہین مثلا سنسکرت مین اصل لفظ “رشم” تھا اس سے ہندی رسّا بنا۔ یہ دونون مذکر ہین اسکی چھوٹی اور کمزور صورت رسّی ہے۔ سنسکرت “گوڈ”تھا ہندی مین گول یا گولا بنا۔ یہ دونوں مذکر ہین اسکی چھوٹی اور کمزور صورت گولی بنائی گئی جو مونث ہے۔ اسی طرح پگ سے پگڑی بنی جو مؤنث ہے۔ بڑی بھاری بھرکم پگڑی کے لئیے پگّڑ مذکر بنا لیا گیا۔
—————————————————–
1: سنسکرت ہندوستان کی قدیم علمی زبان تھی اور پراکرت عوام کی بول چال۔
——————————————————
یہ آخری ی (معروف) عام طور پر تانیث کی علامت ہے اور آخری ا علامتِ تذکیر یہانتک کہ بنگالی اور اڑیا مین جہان
تذکیر و تانیث کا چندان لحاظ نہین ہے تصغیر و تکبیر کا امتیاز انھین علامات سے کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک عام قاعدہ ہے
لیکن ایسے الفاظ بہت کم ہین جنکے آخر مین ی معروف یا ا ہو۔ ایسی صورت مین صرف اہلِ زبان کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔
اردو زبان مین تذکیر و تانیث کا معاملہ بہت ٹیرھا ہے اور ایسے قواعد کا وضع کرنا جو سب صورتون پر حاوی ہون بہت
مشکل ہے۔ اسمین شک نہین کہ بیجان اشیاء کی جو تذکیر و تانیث قرار دیگئی ہے اسمین ضرور کسی خیال یا اصول کی پابندی
کی گئی ہے لیکن ہر لفظ کی اصل کا پتہ لگانا اور جن اسباب نے اسکی تذکیر و تانیث قرار دینے مین اثر ڈالا ہے اسپر
غور کرنا آسان کام نہین ہے۔ اسکے لیے بڑی محنت اور جانکاہی درکار ہے اور سب سے بڑھ کر عالی دماغی، اور حکیمانہ
نظر کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت مین ہم صرف اسی قدر کر سکتے ہین کہ تذکیر و تانیث کے امتیاز کے مختلف قواعد
بالتفصیل لکھدین تا کہ ان کی شناخت مین کسی قدر سہولت ہو۔ زیادہ تر دقت اس وجہ سے پیدا ہو گئی ہے کہ ہندی کے
الفاظ سنسکرت اور پراکرت سے آئے ہین لیکن اُنمین بہت کچھ تغیر و تبدل ہو گیا ہے۔ خصوصاً لفظ کا آخری حرف بالکل گر
گیا ہے یا بدل گیا ہے حالانکہ تذکیر و تانیث کا دارومدار اسی پر ہے۔
جان دارون کی تذکیر و تانِیث
اردو اور دیگر ہندی زبانون مین جاندار اور بے جان سب ہی مین تذکیر و تانیث کا لحاظ ہوتا ہے۔ البتہ جان دارون مین یہ
آسانی ہے کہ ان مین تذکیر و تانیث کا امتیاز آسان ہے۔ بے جان اشیاء میں چونکہ کوئی علامت تذکیر و تانیث کی نہین ہوتی
اس لیے دشواری ہوتی ہے۔ نظر بران ہم نے ان دونون کو الگ کر دیا ہے اور اُنکے قواعد بھی الگ الگ بیان ہون
گے۔
1۔ جن الفاظ کے آخر مین ا یا ہ ہو گی وہ مذکر ہونگے حتیٰ کہ اکثر عربی فارسی الفاظ پر یہی قیاس کر لیا گیا
ہے جیسے لڑکا ۔ گھوڑا۔ بندہ ۔ سقہ ۔ زبرا وغیرہ۔ عربی کے الفاظ جنکے آخر مین ہ علامتِ تانیث یا ی الف
مقصورہ علامتِ اسمِ تفضیل ہو مستثنیٰ ہین کیونکہ وہ ہمیشہ مؤنث ہوتے ہین جیسے والدہ ۔ ملکہ ۔ کبرےٰ ۔
صغرےٰ۔نیز ہندی کے وہ الفاظ جن کے آخر مین یا علامتِ تصغیر یا تانیث ہوتی ہے مستثنیٰ ہین۔ جیسے چڑیا ۔ بڑھیا ۔ بندریا
وغیرہ۔
2۔ یاے معروف علامتِ مؤنث ہے۔ جیسے گھوڑی ۔ ٹوپی ۔ لڑکی وغیرہ مگر بعض الفاظ مستثنےٰ ہین۔ جیسے پانی
۔ موتی ،گھی ، جی ، ہاتھی ، دہی۔یہان یہ لکھنا دلچسپی اور فائدے سے خالی نہو گا کہ سنسکرت مین لفظ کے آخر مین ا عموماً علامتِ تانیث اور
ای یعنے یای معروف تذکیر و تانیث دونون کی علامت ہے۔ لیکن ہندی اور اسکے ساتھ کی دوسری زبانون مین ا
عموماً علامتِ تذکیر اور ای علامتِ تانیث ہوتی ہے حالانکہ تمام ہندی الفاظ کا ماخذ اوراصل سنسکرت ہے۔ آخراسکی وجہ کیا ہے؟ تحقیق کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پراکرت مین جس سے ہندی اور اسکے ساتھ کی دوسری زبانین نکلی ہین ہر قسم کے اسم کے آخر مین اکا لگا دیتے تھے مثلاً پراکرت میں کُھٹکا تھا جو بعد مین گھوڑاو اور پھر گھوڑا ہوا۔ اَکا جس طرح مذکر کی علامت تھی اسکے جواب مین اِکا علامت مؤنث کی تھی رفتہ رفتہ اِکا بدل کر اِیا ہو گیا اور اِیا ہوتے ہوتے اِی یعنی یائ معروف رہ گیا۔ علاوہ اسکے صفات کی خاص علامت مذکر کے لیے آو اور مونث کے لیے اِی ہے۔ چونکہ طبعی طور پر یہ مناسب اور موزون معلوم ہوتا کہ جس اسم کے آخر مین اِی ہے اسکے ساتھ صفت بھی ایسی استعمال کی جائے جس کے آخر مین ی علامت ہو۔ لہذارفتہ رفتہ ای علامتِ مؤنث ہو گئی اور ا علامتِ مذکر۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر قواعد نویسون نے ایسے مذکر اسماء کو جن کے آخر مین ای یعنی یائ معروف ہے اور اُن مؤنث اسماء کو جن کے آخر مین ا ہے مستثنےٰ خیال کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس کی وجہ بیان کرنے سے قاصر رہے ہین۔مگر وہ الفاظ جو اوپر مستثنےٰ بتائے گئے ہین در حقیقت سنسکرت کے بگڑے ہوئے ہین۔ سنسکرت الفاظ مین آخر مین ی نہین ہے لہذا جنس تو وہی قائم رہی جو سنسکرت مین تھی مگر صورت بدل کر کچھ ایسی ہو گئی کہ جسے دیکھ کر انکے مؤنث ہونے کا دھوکہ ہوتا ہے مثلاً گھی دراصل سنسکرت مین گھرتم تھا اور دہی دراصل ددہی اور جی دراصل جیو اور پانی دراصل پانیو اور موتی دراصل سوک تلم تھا۔ اسکے علاوہ بعض پیشہ ورون کے نام بھی مستثنےٰ ہین۔ انکے آخر مین بھی یائ معروف آتی ہے جیسے دھوبی۔ مالی۔ گھوسی۔ تیلی وغیرہ اسی طرح جن اسماء کے آخر مین یای نسبتی ہو گی وہ بھی مستثنےٰ ہین جیسے پنجابی۔ بنگالی وغیرہ۔فارسی عربی الفاظ پر اس قاعدہ کا اطلاق پوری طرح نہین ہو سکتا کیونکہ اسمین بہت سے ایسے لفظ ہین جن کے آخر مین یاے معروف ہے مگر مذکر ہین۔ جیسے قاضی۔ منشی وغیرہ۔
3۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ مذکر کے آخری ا یا ہ کو یائ معروف سے بدل دینے سے مونث بن جاتا ہے۔ یا جہان پیشہ ورون کے نام کے آخر مین ی معروف ہوتی ہے
—————————————
1۔ جنکی جنس سنسکرت مین مخنث ‘نہ مذکر نہ مؤنث’ ہوتی ہے وہ ہندی مین عموماً مذکر ہو جاتی ہے۔
—————————————
اگر اسے ن سے بدل دیا جائے تو وہ مونث ہو جاتا ہے لیکن جہان آخر مین الف یا ی نہو تو وہان مشکل پڑتی ہے اس لیے جس جس طرح سے زبان مین مذکر سے مؤنث بنے ہین خواہ وہ تبدیلِ علامتِ آخر یا اضافہ الفاظ سے اُن مین سے اکثر کو آگے الگ الگ لکھدیا گیا ہے تا کہ سمجھنے مین آسانی ہو۔بیجان اشیاء مین بھی یہ قاعدہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت وہان ی معروف کے اضافہ کرنے یا ا کو یاے معروف سے تبدیل کرنے سے مراد اُس اسم کی تصغیر ہوتی ہے۔ جیسے پہاڑ سے پہاڑی، ٹوکرے سے ٹوکری وغیرہ۔ بیجان میں مذکر و مونث حقیقی نہین ہوتے تصغیر کو مونث استعمال کرتے ہین۔ جاندار کے لئیے البتہ ضرور ہے کہ مذکر کے لیے مذکر اور مونث کے لیے مونث ہو۔
4۔ ایسے مذکر جن کے آخر مین کوئی علامتِ تذکیر نہین اور ظاہراً تذکیر و تانیث میں مشترک معلوم ہوتے ہین انکی تانیث آخر مین یاے معروف بڑہانے سے بنتی ہے جیسے ہرن سے ہرنی، کبوتر سے کبوتری۔
5۔ جاندارون مین تذکیر و تانیث کی دو صورتین ہین۔ اول مذکر اور مؤنث الگ الگ الفاظ ہین۔ ایک دوسرے سے بظاہر کچھ تعلق نہین جیسے بیل مذکر گائے مؤنث۔ دوم آخر علامت کے بدلنے یا آخر مین کسی حرف یا حروف کے اضافہ سے مؤنث بنایا جاتا ہے۔ تفصیل نیچے لکھی جاتی ہے۔
1۔ ہردو مختلف باپ۔مان غلام۔باندی میان۔بی بی نواب۔بیگم
بیل۔گائے مینڈھا۔بھیڑ خصم یا خاوند۔جورو
2۔ مختلف علامات
الف۔ مذکر کے آخر کا الف یا ہ مونث مین ی معروف سے بدل جاتی ہے جیسےلڑکا۔ لڑکی کانا۔کانی بیٹا۔بیٹی اندھا۔اندھی بچھڑا۔بچھڑی گھوڑا۔گھوڑی بکرا۔بکری شاہ زادہ۔شاہ زادی بندہ۔بندی’باندی’ چیونٹا۔چیونٹی مرغا۔مرغی بھانجا۔بھانجی بھتیجا۔بھتیجی چچا۔چچی پھوپھا۔پھوپھی لنگڑا۔لنگڑی لولا۔لولی بہرا۔بہری
ب۔ باضافئہ یاے معروف۔ برہمن۔برہمنی ہرن۔ہرنی پٹھان۔پٹھانی کبوتر۔کبوتری
———————————-
1۔ باندی کا لفظ صرف غلام عورت کے معنون مین آتا ہے۔ اور ہندی عورتین بجاے ضمیر متکلم واحد کے بولتی ہین جیسے مرد بندہ کا لفظ استعمال کرتے ہین۔
———————————-
تیتر۔تیتری لوہار۔لوہاری چمار۔چماری سُنار۔سُناری مامون۔ممانیج۔ مذکر کے آخر حرف کو ‘ن’ سے بدل دینے سے جیسےمراسی۔مراسن نائی۔نائن کنجڑا۔کنجڑن جوگی۔جوگن مالی۔مالن دہوبی۔دہوبن بھنگی۔بھنگن گوالا۔گوالن فرنگی۔فرنگن پارسی۔پارسن بھائی۔بہن گھوسی۔گھوسن حاجی۔حجن سپولیا۔سپولن دلہا۔دلہن چودہری۔چودہرائن گویا۔گائن ناگ۔ناگن گارد۔گاردن٭د۔ آخر حرف کو حذف کر کے یا بلا حذف نی یا انی کے اضافہ سےشیر۔شیرنی ملا۔ملانی مہتر۔مہترانی استاد۔استانی٭٭
———————————–٭ حیدرآباد دکن مین مستعمل ہے یعنی وہ عورتین جو محلون مین مرد سپاہیون کا کام دیتی ہین یعنی قلما قنیان۔٭٭ مذکر کی دال حذف کر دی گئی۔
———————————–
مغل۔مغلانی ہاتھی۔ہتھنی٭ ہاتھی۔ہتھنی٭ اونٹ۔اونٹنی سور۔سورنی راے’راجہ’۔رانی٭٭ فقیر۔فقیرنی مور۔مورنی جیٹہ۔جٹھانی دیور۔دیورانی بنیا۔بنینی ڈاکٹر۔ڈاکٹرنی ڈوم۔ڈومنی بھُوت۔بھُتنی جن۔جنّاتنی٭٭٭ شاعر۔شاعرنی٭٭٭٭ پنڈت۔پنڈتانیٹٹو سے ٹٹوانی مؤنث آتا ہے لیکن حقارت کے موقع پر بولتے ہین۔ہ۔ بعض اوقات اخیر حرف مین کچھ تبدیلی کے بعد یا بغیر تبدیلی کے ‘یا’ اضافہ کرنے سے مونث بنتا ہے۔جیسےکتا۔کتیا بندر۔بندریا چوہا۔چوہیا گدہا۔گدہیا چڑا۔چڑیا
3۔ بعض غیر زبانون کے مذکر و مؤنث بعینہ اردو مین مستعمل ہین مثلاً بیگ مذکر بیگم
—————————————–٭ ہاتھی کا الف اور’ی’دونون حذف ہو گئے ہین۔ غالباً یہ لفظ ہاتھ سے نکلا ہے۔سونڈ بجائے ہاتھ کے سمجھی گئی ہے۔٭٭ اصل مین راجنی تھا ‘ج’ کثرتِ استعمال سے اوڑ گیا۔٭٭٭ یہان مؤنث واحد مذکر سے نہین بنا بلکہ جمع مذکر سے بنا ہے۔٭٭٭٭ جان صاحب کا شعر ہےمین وہ شاعرنی ہون گر پکڑے کوئی میری زبان ٭ لاکھ مرزا کو سناؤن سو سناؤن میر کو
—————————————–
مونث ترکی مین خان سے خانم ہے یا عربی کے مثلاً سلطان سے سلطانہ، ملک سے ملکہ۔ خاتون و آتون بھی ترکی لفظ ہین جو مؤنث ہین۔
4۔ بعض اوقات اسم خا؟؟؟ علم کو مذکر سے مؤنث بنا لیتے ہین جیسےرحیم۔رحیمن امیر۔امیرن کریم۔کریمن نور۔نورن محمد۔محمدی امامی۔امامن مراد۔مرادن نصیب۔نصیبنبعض اوقات اسماء خاص مین حرف واؤ کے مجہول و معروف ہونے سے مؤنث و مذکر کا فرق ظاہر ہوتا ہے۔ واؤ معروف سے مذکر اور مجہول سے مؤنث۔مجُّو۔مجو رامُو۔رامو بدلُو۔بدلوبعض اسماء خاص مرد و عورت کے لیے یکسان استعمال ہوتے ہین جیسے گلاب۔احمدی وغیرہ۔
5۔ عموماً مؤنث مذکر سے بنتا ہے لیکن بعض مذکر ایسے بھی ہین جو مؤنث سے بنتے ہین جیسے بھینسا بھینس سے یا رنڈوا رانڈ سے ، بلاؤ بلی سے ، سسرا ساس سے۔
6۔ بعض الفاظ ایسے ہین جو صرف مذکر استعمال ہوتے ہین اور ان کا مونث نہین آتا، اور بعض صرف مونث استعمال ہوتے ہین اور ان کا مذکر نہین آتا مثلاً چیل۔بطخ۔مینا۔بلبل۔فاختہ،لومڑی غیر ذوی العقول مین۔ رنڈی ، کسبی ، ہڑدنگی ، ڈائن ، چڑیل ، بیوہ ، سوت ،سہاگن وغیرہ ذوی العقول مین مؤنث استعمال ہوتے ہین۔ طوطا ، کوا ، اژدہا ، تیندوا ، باز ، الو ، چیتا اور غیر ذوی العقول مین بھانڈ ، بھڑوا ، ہیجڑا ، وغیرہ ہمیشہ مذکر ہوتے ہین۔
7۔ چھوٹے چھوٹے جانورون مین اکثر صرف ایک ہی جنس مستعمل ہے مثلاً مکھی’مؤنث’ جگنو’مذکر’ چھپکلی’مونث’ چھچھوندر’مونث’ کچھوا’مذکر’ بھڑ’مونث’۔
8۔ اکثر اوقات الفاظ کے ساتھ نر اور مادہ کا لفظ لگا کر مذکر و مؤنث بنا لیتے ہین مثلاً مادہ خر ، نر گاؤ یا چیتے کی مادہ۔ مادہ خرگوش وغیرہ۔
9۔ بعض اوقات مذکر لفظ مؤنث کے لیے بھی استعمال کر جاتے ہین مثلاً بیٹی کو مان پیار سے کہتی ہے “نہ بیٹا ایسا نہین کرتے”۔بعض لفظ مشترک ہین کہ دونون کے لیے آتے ہین مثلاً بچہ کا لفظ یا گھوڑی کو دیکھکے کہہ سکتے ہین کہ کیا اچھا جانور ہے۔
10۔ جن ہندی الفاظ کے آخر مین’ا’ یا ‘ہ’ ہوتی ہےمونث مین یاے معروف سے بدل جاتے ہین مثلاً لڑکے سے لڑکی۔ فارسی الفاظ بھی جو اردو مین عام طور پر استعمال ہونے لگے ہین اسی قاعدے مین آ جاتے ہین۔ مثلاً شاہزادہ سے شاہزادی ، بیچارہ سے بیچاری ، بندہ سے بندی ، حرام زادہ سے حرام زادی وغیرہ مگر شرمندہ اور عمدہ مستثنیٰ ہین۔
بیجان کی تذکیر و تانیث بیجان اسماء کی تذکیر و تانیث قیاسی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات وہ الفاظ خصوصاً ہندی اور تدبھوا یعنے مخلوط سنسکرت کے جن کے آخر ‘ا’ یا ‘ہ’ ہوتی ہے مذکر ہوتے ہین۔ مثلاً ڈبا ۔ چولہا ۔ حقہ۔ پیشہ گزہا وغیرہ لیکن اسمین مستثنیٰ بھی ہین جو حسبِ ذیل ہین۔
‘ا’ تمام ہندی اسماے تصغیر جن کے آخر مین یا ہوتی ہے مثلاً پڑیا ڈبیا وغیرہ۔
ب۔ تمام عربی کے سہ حرفی الفاظ جیسے ادا ،قضا، حیا ، رضا ، خطا وغیرہ
ج) بعض عربی مصادر جن کے آخر آ ہو خواہ ہمزہ لکھی ہو یا نہ لکھی ہو جیسے ابتدا’ انتہا۔ (اسکی تفصیل آگے آئے گی)
(د) عربی کے اسماے تفضیل جن کے آآخر مین الف مقصورہ ہوتا ہے یا بعض دیگر الفاظ جیسے عقبٰی، صغریٰ، کبریٰ، دنیا، کیمیا۔
(ھ) بعض ہندی لفظ جو ٹٹ سما یعنی خالص سنسکرت کے ہین۔ کیونکہ سنسکرت مین آ علامت تانیث بھی ہے مثلاً پوجا، بیچا،ماتا،بروا،بچھوا،بھاکا، سیتلا، گھٹا، گھٹیا، انگیا، مالا،سبہا،جٹا،چھالیا۔ (انا اور دوا بھی مونث ہین)
12- عربی وہندیاسماے کیفیت جن کے آخر مین ت ہو مونث ہوتے ہین مثلاً مذامت، رفعت،شوکت،مشقت،کرامت وغیرہ مگر خلعت،رایت،شربت، بعت مستثنٰے ہین۔
13-عربی الفاظ کی جمع جب عربی قواعد کے رو سے آتی ہے تو اسکی تذکیر و تانیث مین صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو حالت واحد کی ہےوہی جمع کی ہو گی۔ مثلاً شئیے مجلس اور مسجد مونث ہین تو انکی جمع اشیا مساجد اور مجالس بھی مونث ہو گی۔ چند الفاظ البتہ مستثنٰے ہین۔ مثلاً اگرچہ معرفت، حقیقت،قوت،شفقت مونث ہین مگر انکی جمع معارف،حقائق،قویٰ اور اشفاق مذکر مستعمل ہین۔ بعض متاخرین اہل لکھنو کا یہ قول ہے کہ ہر لفظ کی عربی جمع مذکر ہی آتی ہے۔ یہ قاعدہ تو بہت اچھا ہے مگر اس کا کیا علاج کہ اہل زبان یون نہین بولتے، اہل دہلی بجز بعض مسمتعثینات کے ہمیچہ مونث کی جمع مونث اور مذکر کی جمع مذکر ہی استعمال کرتے ہین۔ جن حضرات کا یہ قول ہے کہ ہر عربی لفظ کی عربی جمع مذکر بولنی چاہیے انھین یہ دہوکا اس وجہ سے ہوا ہےکہ بعض الفاظ جو مونث ہین انکی جمع بھی اسی وزن پر آئی ہے جو واحد مین مذکر ہین مثلاً حادثہ مذکر اسکی جمع حوادث ہے لہذا یہ بھی مذکر ہے اور مذکر بولا جاتا ہے۔ چونکہ حقائق بھی اسی وزن پر ہے دھوکے مین اسے بھی مذکر بولنے لگے لیکن یہ چند الفاظ مستثینات مین سے ہین ؛ اس پر سے یہ قیاس قائم کر لینا کہ ہر لفظ عربی کی (خواہ مونث ہو یا مذکر) جمع مذکر ہی ہو گی صحیح نہین ہے’ یون تو عورات (عورت کی جمع) بھی مذکر ہونی چاہیے مگر ایس انہین ہے’ حالانکہ بعض مذکر الفاظ کی جمع بھی اسی وزن پر آئی ہے۔ اس کا یہ جواب کہ یہ مونث حقیقی ہے لہذا اس قاعدہ کے تحت مین نہین آتا صحیح نہین ہے، کیونکہ جب ہم ایک لفظ کو واحد کی حالت مین مونث مان چکے ہین (گو وہ مونث غیر حقیقی ہی کیون نہو) تو کوئی وجہ نہین کہ اسکی جمع کو مونث نہ تسلیم کرین۔ کیونکہ واحد مین جب ہم ایک لفظ کو جو مونث غیر حقیقی ہے مونث تسلیم کرتے ہین تو افعال اور صفات بھی اسکے لیے مثل مونث حقیقی کے استعمال کرتے ہین اور کوئی فرق اس مین اور مونث حقیقی مین نہین کرتے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مونث حقیقی کی عربی جمع کو مونث بولین اور مونث غیر حقیقی کی جمع کو مذکر غرض ان حضرات کا یہ اجتہاد کسی طرح قابل تسلیم نہین ہو سکتا۔ کیونکہ یہ عجب منطق رہے کہ ایک لفظ جو واحد مین مونث ہے جمع ہوتے ہی مذکر ہو جاتا ہے۔ اور اگر غیر حقیقی مونث کے متعلق انکا یہ خیال ہے تو حقیقی مونث کے متعلق بھی یہی ہونا چاہیے اور یہین ان کے اس قاعدہ کا نقص ظاہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب ایکبار بیجان شئے کا مونث قرار پا چکتا ہے تو پھر اس مین اور حقیقی مونث مین کسی قسم کا فرق اور امتیاز باقی نہین رہتا۔ ہمارے خیال مین حتی الامکان اس قسم کے الفاظ کی اردو جمع استعمال کرنا زیادہ فصیح ہے، اگرچہ بعض مواقع پر عربی جموع کا استعمال کرنا ناگزیر ہے۔ ایسی حالت مین بجز چند مستثنٰے الفاظ کےیہی قاعہ یاد رکھنا چاہیے کہ مونث کی جمع مونث ہوگی اور مذکر کی جمع مذکر۔
14۔ زبانون کے نام عموماً مونث ہوتے ہین مثلاً انگریزی، فارسی، اردو، سنسکرت وغیرہ
15۔ ایسے اسما جو آواز کی نقل ہین مونث ہوتے ہین سائین سائین’ چٹ چٹ، دہڑا دہڑا وغیرہ
16۔ دنون اور مہینون کے نام مذکر استعمال ہوتے ہین، دونون مین جمعرات مستثنٰی ہے۔
17۔ دہاتون اور جواہرات کے نام بھی مذکر ہین؛ چاندی البتہ مستثنٰیہے۔ ہندی مین اسے روپا کہتے ہین جو مذکر ہے۔
18۔ ستارون اور سیارون کے نام بھی مذکر ہین۔
کتابون کے نام اگر مفرد ہین تو مونث ہونگے، لیکن مرکب ہونے کی حالت مین مضاف یا موصوف کی تذکیر و تانیث پر کتاب کی تذکیر و تانیث منحصر ہو گی مثلاٌ بوستان گلستان مونث ہین مگر قصہ حاتم طائی یا قصہ حلیمہ دائی مذکر ہین
20۔ اسی طرح نمازون کے نام مونث بولے جاتے ہین۔
21۔ ہندی حاصل مصدر (یعنی وہ اسماے کیفیت جو مصدر سے بنائے جاتے ہین) اور اکثر اسماے کیفیت جو اسی وزن پر ہون مونث ہوتے ہین، جیسے
بشکریہ مقدس
•
3
قیصرانی
لائبریرین
• جنوری 7، 2012
•
• #20
(پکار، پھٹکار، پھنکا،جھنکار وغیرہ
پھسلن،دہڑکن،کھرچن، چھبن وغیرہ۔ امبتہ چلن مستثنٰے ہے
بناوٹ، کھچاوٹ، نیلاہٹ وغیرہ
مہک۔ رو، چوک۔ جھلک۔ چمک وغیرہ
مٹھاس، کھٹاس، نکاس وغیرہ
البتہ برتاؤ، بچاؤ کے وزن ہر جو حاصل مصدر آتے ہین وہ سب مذکر ہوتے ہین
بناؤ، لگاؤ، اٹکاؤ، تاؤ، لداؤ وغیرہ
اسی طرح وہ اسماے کیفیت جو اسم یا صفت کے آخر “پن” لگانے سے بنتے ہین مذکر بناتے ہین۔ مثلاً بچپن، لڑکپن، دیوانہ پن وغیرہ
22۔ ہندی کے وہ الفاظ جن کے آخر او یا اون ہوتا ہے اکثر مونث ہوتے ہین جیسے باؤ، چھاؤن،جوکھون،بھون،سون،سرسون،کھڑاؤن وغیرہ
23۔ حروف تہجی مین ۔ ب پ ت ج چ ح خ د ذ ڈ ر ز ژ ط ظ ف ہ و ی مونث ہین، میم مختلف فیہ ہے
24۔ جو عربی الفاظ افعال۔ افتعال۔ افضال۔ استفعال۔تفعل تفاعل اور تفعلہ کے اوزان پر آتے ہین وہ مذکر ہوتے ہین بروزن افعال جیسے اکرام’ احسان انعام وغیرہ باستثناء انشا۔ افراط۔ ایذا۔ امداد۔ الحاح۔ اصلاح۔
بروزن اتعال جیسے اختیار، اعتدال، اضطراب وغیرہ باستثناے ابتدا، انتہا، التجا، احتیاط، احتیاج، اطلاع، اشتہا، اصطلاح، اقتدار۔
بروزن استفعال جیسے، استعفا، استقلال وغیرہ باستثناے استعداد، استدعا، استفنا، استمداد، استغفار
بروزن انفعال جیسے انکسارر، انقلاب، انحراف وغیرہ
بروزن تفعل جیسے توکل۔ تکلف، تعصب وغیرہ باستثناے توقع، توجہ، تمنا، ترشح، تضرع۔ تہجد۔
بروزن تفاعل جیسے تغافل، تنازع، تلاطم وغیرہ باستثناے تواضع
بروزن تفعلہ جیسے تذکرہ؛ تجربی، تصفیہ، تخلیہ وغیرہ
25۔جو عربی الفاظ معاعلہ کے وزن پر آتے ہین وہ مذکر ہین جیسے مھادلی، مشاعرہ معاملہ، مناظرہ وغیرہ
لیکن یہی الفاظ یا دوسرے الفاظ جب مفاعلت کے وزن پرآتے ہین تو مونث ہوتے ہین جیسے معاملت، مصاحبت، مشارکت وغیرہ، یہی حال تفعلہ اور تفعلت کا ہے جیسے تربیت، تقویت وغیرہ مونث ہین تفعلہ کی مثالین لکھی جا چکی ہین۔
26۔ تمام عربی الفاظ تفعیل کے وزن پر مونث ہوتے ہین جیسے تحریر، تقریر وغیرہ باستثناے تعویذ۔ لیکن جب تفعیل کے بعد ہاے ہور آتی ہے تو وہ الفاظ مذکر ہوتے ہین۔ جیسے تخمینہ، تعلیقہ وغیرہ۔
27- نیز وہ الفاظ عربی و فارسی جن کی آخری ہ اضافی ہوتی ہے اکثر مذکر ہوتے ہین جیسے نسخہ، روضہ، صفحہ، ذرہ، طرہ، شیشہ، آئینہ، پیمانہ وغیرہ باستثناے دفعہ، فقہ، توبہ، زوجہ۔
25۔ عربی اسماے ظرف مذکر ہوتے ہین جیسے مکتب، مسکن، مقام، مشرق مغرب وغیرہ باستثاے مجلس، محفل، منزل، مسجد، مجال، مسند وغیرہ۔
اسماے الہ بروزن مفعال اکثر مونث ہوتے ہین، جیسے مقراض، میزن وغیرہ باستثناے معیار، مقیاس، مصداق،
لیکن بروز مفعل اکثر مذکر ہوتے ہین جیسے منبر، مسٖل وغیرہ باستثناے مشعل مگر بروزن مفعلہ ہمیشہ مذکر ہوتے ہین جیسے منطقہ، مصقلہ، مراۃ وغیرہ،
90 تمام فارسی حاصل مصدر جن کے آخر مین ش ہے مونث ہوتے ہین جیسےدانش، خواہش بخشش وغیرہ
30۔مرکب الفاظ جو دو لفظون سے مل کر بنتے ہین خواہ حرف عطف یامع حرف عطف انکی تذکیر و تانیث مین بھی اختلاف ہے۔
(ا) جو لفظ دو افعال یا ایک اسم اور ایک فعل سے مل کر بنتے ہین وہ الثر مونث ہوتے ہین جیسے آمدورفت، زدوکوب، نشست و برخاست، شست شو، قطع و برید، تراش خراش’ تگ و دوم آمدوشدم خرید و فروخت، بودوباش، داروگیر، شکست و ریخت، داد و دہش، کم و کاست، باستثناے سوز و گداز، بندوبست و ساز و باز۔
(ب) اگر ان مین ایک مونژ اور دوسرا مذکر ہے (مع حرف عطف یا بلا حرف عطف) تو