جب اُردو زبان کا غلغلہ تھا تو ممبئی کے سینما ہاؤسز کے باہر فلم کے مناظر پر مبنی تصویروں اور پوسٹروں میں ایک جملہ لکھا ہوتا تھا:آج شب کو۔۔۔ چونکہ یہ جملہ تین لفظوں کو ملا کر ’’آجشبکو‘‘ لکھا جاتا تھا لہٰذا بہت سے افراد اسے آجشبکو (Aajash bako) پڑھتے ہوئے ملتے تھے، اور پڑھے لکھے یا زبان داں حضرات اُن پر ہنستے تھے
اسی طرح اہلِ اُردو اپنی کسی عزیز خاتون کے بارے میں بیان کرتے ہیں تو مثلاً وہ یوں ہوتا ہے: لکھنؤ سے ہماری خالہ آئی ہیں۔ اب اس جملے کو یہاں بالخصوص دکن سے تعلق رکھنے والے لوگ یوں پڑھتے یا بولتے ہیں: لکھنؤ سے ہماری خالہ آئے ہیں۔۔۔ اگر دورِ گزشتہ کے اہلِ لکھنؤ یا اہل دِلّی سنتے تو ہنستے اور کہتے کہ میاں! جب آپ کے خالو آئیں گے تو کیا یہ کہو گے کہ۔۔۔ خالو آئی ہیں۔۔۔ اہلِ دکن ’آئی‘ کی جگہ ’آئے‘ کیوں کہتے ہیں، اس کا وہ جواز بھی بیان کرتے ہیں اور اس جواز سے بحث کرنا ہمارے خیال سے بے معنی ہوگا کہ اس طرح کی زبان اُن کے ہاں عام ہے اور اس سے انحراف انھیں منظور نہیں کہ وہ اسے غلط نہیں سمجھتے۔ جب کسی چیز کو غلط سمجھتے ہی نہیں تو اصلاح کس بات کی۔۔۔؟
چند برس قبل کا ایک واقعہ ہے کہ ممبئی میں مشہور ناقد وارث علوی کا جشن منایا جارہا تھا۔ وارث علوی صحت کے لحاظ سے اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ اس جشن میں شریک ہوتے۔ لہٰذا جشن اُن کے غائبانہ میں منایا جارہا تھا کہ جشن کے منتظمین میں سے کسی کے عزیز کا احمد آباد سے فون آیا کہ بھائی الیاس! والد صاحب کا آج صبح انتقال ہوگیا۔ سننے والے نے والد کو وارث سنا اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور جلسے میں اعلان کردیا گیا۔ خیر منتظمین میں سے کسی دوسرے نے کچھ دیر بعد وارث علوی کے گھر (احمد آباد) فون کرکے اس خبر کی تصدیق چاہی تو معلوم ہوا کہ وارث صاحب تو خیریت سے ہیں اور اس وقت چائے پی رہے ہیں۔ سماعت کا یہ مغالطہ ہوتا رہتا ہے۔ ہم سب گاہے گاہے اس کے شکار ہوتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کان تو کھلے ہوتے ہیں مگر ذہن کہیں اور ہوتا ہے، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’’والد صاحب‘‘۔۔۔ وارث صاحب۔۔۔ سمجھ لیے جاتے ہیں۔
اُردو مشاعروں کے جو پرانے شائقین ہیں ان کے حافظے میں ایک شعر ضرور ہوگا:
وہ اشک بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
برسوں قبل ہم نے مشاعروں کی نظامت کرتے ہوئے بشیر بدر سے پہلی بار یہ مطلع سنا تھا۔ پہلے تو یہ مغالطہ ہوا کہ یہ مطلع بشیر بدر کا ہے، مگر بعد میں پتہ (پتا) چلا کہ بشیر بدر نے صرف سنایا تھا، نتیجۂ فکر تو پاکستان کی ایک معروف شاعرہ بسمل صابری کا ہے۔ پھر ایک دن خیال گزرا کہ اگر وہ شخص اشک بن گیا ہے تو پھر چشمِ تر کہنے کی کیا ضرورت ہے! چشم میں جو ’تر‘ کی صورت ہے وہ اشک ہی تو ہے۔ اب ایک ملاقات میں بشیر بدر صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ شاعرہ نے اشک نہیں عکس کہا ہے، اصل مطلع یوں ہے :
وہ عکس بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
تو محترم بشیر بدر نے بصد اصرارکہا کہ میاں! شعر میں اشک ہی اچھا لگ رہا ہے۔ بھوپال میں اُس وقت جو لوگ ہمارے ساتھ تھے انہوں نے بشیربدر سے کہا کہ اشک کے سبب شعر میں حشو زوائد پیدا ہورہے ہیں۔ مگر بشیر بدر اپنی بات پر اَڑے رہے کہ شعر میں اشک اچھا لگ رہا ہے۔ اس کی گواہ نصرت مہدی، اقبال مسعود اور نعیم کوثر صاحبان بھوپال میں بحمداللہ ابھی موجود ہیں۔ سب مسکرا کر رہ گئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“