تذکیر و تانیث غیر حقیقی:
اُردُو زبان میں تذکیر و تانیث کا معاملہ بہت اُلجھا ہوا ہے۔ بے جان اسما کی تذکیر و تانیث قیاسی ہوتی ہے کیوں کہ ان میں نر اور مادہ کا کوٸی تعلّق نہیں ہوتا لیکن اس میں ہر اسم اپنی جگہ پر یا تو مذکّر ہوتا ہے یا مٶنث۔ یہاں غیر حقیقی تذکیر و تانیث کی پہچان کے چند اُصول درج کیے جاتے ہیں۔
1: تمام دِنوں اور مہینوں کے نام مذکر ہیں البتہ جمعرات مٶنث ہے۔
2: تمام دھاتوں اور جواہرات کے نام مذکّر بولے جاتے ہیں۔جیسے: سونا، تانبا، پیتل، مگر ”چاندی“ اس سے مُستثنٰی ہے۔
3: تمام سیّاروں اور ستاروں کے نام مذکّر ہیں جیسے: زحل، مریخ، عطارد، زہرہ، سورج، چاند وغیرہ مگر زمین مٶنث ہے۔
4: تمام شہروں کے نام مذکّر ہیں۔ جیسے: لاہور، پشاور، گلگت، اسلام آباد، مکہ معظمہ، تہران وغیرہ مگر ”دلّی“ مٶنث ہے لیکن جب ”دہلی“ کہا جاۓ گا تو مذکر ہوگا۔
5: تمام دریاٶں اور سمندروں کے نام مذکر ہیں۔ جیسے: دریاۓ راوی، جہلم،بحیرہ عرب، بحرِ ہند وغیرہ لیکن ”گنگا، جمنا“ مٶنث ہیں۔
6: تمام پہاڑوں کے نام مذکر ہیں۔جیسے:
کوہِ ہمالیہ، کوہِ سلیمان، نانگا پربت، اُحد، کے ٹو وغیرہ۔
7: تمام زبانوں کے نام مٶنث بولے جاتے ہیں۔ مثلاً فارسی، عربی، پشتو، سندھی وغیرہ
8: تمام نمازوں کے نام مٶنث بولے جاتے ہیں جیسے: فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا، تہجد مگر ”جنازہ“ مذکّر ہے۔
9: بعض فارسی، ہندی اور عربی کے اسم جن کے آخر میں ”ہ“ آتا ہے مذکر بولے جاتے ہیں۔ جیسے: ہمیشہ، تیشہ، حقّہ، روزہ، روضہ، نسخہ وغیرہ۔
10: بعض اسما جسامت میں بڑے ہونے کی بنا پر مذکر بولے جاتے ہیں۔ جیسے پیالہ، پہاڑ، تختہ، تھیلا، ٹوکرا وغیرہ۔ ان الفاظ کو مٶنث بنانے کےلیے مصغّر (چھوٹا) کیا جاتا ہے اور ”ہ“ حذف کر کے ”ی“ لگاٸی جاتی ہے۔ تب یہ مٶنث بنتے ہیں۔ جیسے:
پیالہ سے پیالی، پہاڑ سے پہاڑی، تختہ سے تختی، تھیلا سے تھیلی، ٹوکرا سے ٹوکری وغیرہ۔
11: بعض اسما جن کے آخر میں ”الف“ یاحرفِ ”ہ“ نہیں ہوتا لیکن اہلِ زبان ان کو مذکر بولتے ہیں۔ جیسے: ، دن، نقش، بُت، وزن، میل، خلعت، ٹکٹ، فوٹو، اخبار، ہوش، عیش، مزاج، مرہم، تار، درد، مرض، کلام، انتظار، آبشار، قلم، خواب، کھیل وغیرہ۔
12: جن بے جان اسما کے آخر میں یاۓ معروف ”ی“ ہو وہ مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے:
پگڑی، چَھڑی، کرسی، ٹوپی، کھڑکی، پگڑی،وغیرہ۔ تاہم موتی، دہی، گھی اور پانی اس سے مستثنٰی ہیں۔
13: وہ حاصلِ مصدر جو فعلِ امر کی صورت میں ہوں یا جن کے آخر میں ن، ہٹ، وٹ، ٸی، واس، ی، گ اور ل آۓ مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے: جلن، کہاوت، گھبراہٹ، بناوٹ، بُراٸی، پڑھاٸی، بکواس، ہنسی، ناگ وغیرہ لیکن چلن اس سے مستثنٰی ہے۔
14: جن اسماۓ مصغر کے آخر میں” یا“ ہو وہ مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے: پُڑیا، ڈبیا، کُٹیا وغیرہ۔
15: ایسے سہ حرفی عربی الفاظ جن کے آخر میں ”الف“ ہو مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے: ادا، وفا، جفا، عطا، سخا، رضا، حیا، ثنا، شِفا، دُعا وغیرہ۔
16: جن الفاظ کے آخر میں ”ہ“ ہو بالعموم مٶنث استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے: راہ، نگاہ، درگاہ، بار گاہ، پناہ، تنخواہ، خانقاہ، توجّہ، توبہ، سمجھ بوجھ، سوجھ، جگہ، راکھ وغیرہ۔
17: تمام آوازیں مٶنث ہیں۔ جیسے: بادل کی گرج، کوٸل کی کُو کُو، بارش کی چھم چھم، ہوا کی ساٸیں ساٸیں وغیرہ۔
18: جن اسماۓ کیفیت یا حاصل مصدر کے آخر میں، ت، ی، گی، ش، ہو وہ عموماً مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے: شرافت، مزاحمت، بہادری، بدی، دیوانگی، کوشش، بخشش، بارش وغیرہ۔
19: جن اسماۓ کیفیت کے آخر میں ”اٶ“ اور ”پَن“ آۓ وہ بالعموم مذکّر استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً: جُکھاٶ، بہاٶ، بچپن، لڑکپن، دیوانہ پن وغیرہ۔
20: تمام براعظموں کے نام مذکّر ہیں۔ جیسے: ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ وغیرہ۔
21: اردو میں انگریزی کے جو الفاظ مستعمل ہیں ان کی تذکیر و تانیث کے معاملے میں اردو کے مستند ادیبوں کی پیروی کی جاتی ہے۔ جیسے:
باٸسیکل، پارٹی، میٹینگ، رجمنٹ، لاری، ڈیٹ، اپیل، کاپی، ٹیوب، پلیٹ، کلاس، لاٸن وغیرہ مٶنث اور اسٹیشن، ٹکٹ، سٹول، کمیشن، ڈیسک، ایڈیشن، فوٹو، آفس، گیٹ، ڈپو وغیرہ مذکر استعمال ہوتے ہیں۔
22: تمام کتابوں کے نام مٶنث ہیں: جیسے: تورات، انجیل، زبور وغیرہ لیکن قرآن مجید اور گرنتھ اس سے مستثنٰی ہیں۔
23: یہ الفاظ مٶنث بولے جاتے ہیں: ناک، ڈکار، چھت، میز، معراج، محراب، گھاس، آب و ہوا، بارود، کیچڑ، جھاڑو، شراب، بسم اللہ، پتنگ، بہشت وغیرہ جب کہ درخت اور بخت مذکر ہیں۔
24: مندرجہ ذیل الفاظ/اسما اہلِ زبان مذکّر اور مٶنث دونوں طرح استعمال کرتے ہیں:
آغوش، سانس، بُلبل، غور، طرز، گیند، فکر وغیرہ۔
25: جو الفاظ باب "تفعیل" کے وزن پر ہوں وہ اردو میں مونث استعمال ہوتے ہیں۔جیسے:
تذکیر ، تانیث، تقدیر، تذلیل ، تشریف، تعریف، تنکیر، تسبیح، تہلیل، تحریر، تدبیر، تحقیر وغیرہ۔ لیکن تعویذ، گریز وغیرہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
یاد دہانی: اس پوسٹ کو ترتیب دینے میں اُردُو گرامر کی (موجود) مُستند کُتب سے مدد لی گٸ ہے اور حتی الامکان کوشش کی گٸی ہے کہ کسی قسم کی غَلطی نہ ہونے پاۓ تاہم انسان خطا کا پُتلا ہے اگر آپ کو اس تحریر میں کوٸی کمی بیشی نظر آۓ تو اصلاح ضرور کرلینا۔
استفادہ: آٸینِ اُردو وغیرہ۔
کاوش: (شريف الله شريف)