(Last Updated On: )
ہم آئے روز کسی نہ کسی طرف سے ’’اردو میں بعض الفاظ کے متبادل نہ ہونے‘‘ کے مسئلے پر کچھ نہ کچھ سنتے رہتے ہیں۔
لیکن معلوم نہیں ایک اس سے بھی زیادہ بڑے اور سنگین مسئلے کی طرف اہلِ دانش توجہ کیوں نہیں فرماتے اور اگر فرماتے ہیں تو اس پر اتنی بھی کُڑھن کیوں کہیں نظر نہیں آتی جتنی مہنگائی یا لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر ہوتی ہے، حالانکہ یہ مسئلہ بھی کم سنگینی نہیں رکھتا۔
یہ درست ہے کہ دنیا کی اکثر زبانوں کی طرح اردو میں بھی بعض مطالب کےلیے کچھ متعین الفاظ کا نہ ہونا بعید از امکان و قیاس نہیں ہے۔ اردو کی اس کمی کو انگریزی سے لفظ لے لینے (جو کہ عیب نہیں) سے پہلے اپنی مقامی زبانوں کے ذخیرۂ الفاظ سے پورا کرنا چاہیے۔
لیکن دوسرا اور سنگین مسئلہ، جو علمی سے زیادہ نفسیاتی ہے، یہ ہے کہ ہماری زبان میں بے شمار الفاظ ایسے بھی ہیں جو ابھی چند دہائیاں پہلے تک ہماری روز مرہ زندگی میں بلاتکلف مستعمل تھے اور ہماری ہر ضرورت کو پورا کررہے تھے مگر پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ انکی جگہ منوں کے حساب سے انگریزی الفاظ و مرکبات ہمارے منہ اور زندگی میں داخل ہونا شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ہمارے خوبصورت الفاظ کو ایک طرح سے زندگی باہر کردیا۔
یوں تو اسکی مثالیں ہمارے ہر گوشۂ حیات میں بے حدوحساب ہیں مگر ہم صرف اپنے گھر باہر، باورچی خانوں اور رسوئی گھروں میں کھانے پینے کی اشیا کے ناموں اور ان سے زیادہ اپنے پکوانوں کی تراکیبِ و پکوائی کیلیے مروج الفاظ پر ہی ایک سرسری سی نظر ڈال لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم اپنے کتنے ہی مقامی و دیسی الفاظ سے بہ سرعت محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اسمیں تو چلیے ہم اپنے معاشرے میں جنگلی کھمبیوں کی طرح اُگے ٹی وی چیلنز کو قصور وار ٹھہرا دیں گے کہ جنکے صبح کے پروگراموں میں کھانے پکانے کی “ریسیپیز” نے ہمیں چمچ کو سپون نمک کو سالٹ اور لہسن کو گارلک کہنے پر لگا دیا ہے مگر اس بات کے لیے ہم کسے دوشی ٹھہرائیں گے کہ اب گلی محلے اور بازاروں کی دکانوں تک پہ ہمیں ملک اینڈ دہی شاپ، بوٹ اینڈ چپل ہاؤس لکھا نظر آتا ہے۔ حجام کی دکان اب باربر شاپ ہے قصائی بیف اینڈ مٹن فروش اور موچی شُومیکر ہے۔
اور آگے بڑھیے تو تعمیرات سے متعلق دکانیں تعمیراتی سامان/مسالہ فروش کے بجائے کنسٹرکشن میٹیریل سیل کرتی نظر آئیں گی۔ اب تو نہایت کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ مستری مزدور بھی میسن اور لیبر کہلاتے ملتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے عام کرخنداروں نے بیسیوں انگریری آلات کو “اُردوا” کر plier کو پلاس اور wrench کو پانا بنا کر وہ کام کر دکھایا جس کیلیے بعد میں مقدرہ قومی زبان جیسے ادارے بنانے پڑے تھے۔ مگر اب گاڑیوں کی مستری موٹر میکینک “چِپ کش” ڈنٹر اور’’ رنگ کار‘‘ پنٹر کہلانے لگے ہیں۔
اردو میں بعض اشیا و تصوارت و مطالب کی ادائیگی کیلیے الفاظ کے فقدان کا گلہ ضرور کرنا چاہیے مگر پہلے اس المیے کے اسباب کو تو کھوج لیں کہ اردو میں موجود سیکڑوں روز مرہ کے الفاظ کو ہم کیوں اور کس مجبوری کے سبب بھولتے جا رہے ہیں؟
شان الحق حقی کے بعد مشتاق احمد یوسفی ہمارے اس المیے پر رونے والے آخری ایسے نثرنگار رہ گئے ہیں جو ہماری اردو کے مرتے گمشدہ ہوتے زخیرہ الفاظ پر نوحہ گری کیا کرتے تھے۔ یوسفی صاحب نے آبِ گم میں رنگوں کیلیے اردو کے بیسیوں ایسے الفاظ کی فہرست دی ہے جن میں سے اکثر اب ہمارے لیے اجنبی ہوچکے ہیں اور ان کیلیے اب ہم بے کسی شہابی احساس کے بغیر انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ قرمزی نارنجی شربتی رنگوں کو آج کون جانتا ہے؟ اودے پیلے نیلے رنگ سے بھی، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو بہت جلد اقبال کا شعر
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
پڑھنے والے پریوں کے عاشق ہی واقف رہ جائیں گے۔
مقصد اس ساری دراز نفسی سے یہ ہے کہ اردو میں بعض اشیا و تصوارت و مطالب کی ادائیگی کیلیے الفاظ کے فقدان کا گلہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے مگر پہلے ہم اس المیے کے اسباب کو تو کھوج لیں کہ اردو زبان میں موجود سیکڑوں ہزاروں روز مرہ کے الفاظ کو ہم کیوں اور کس مجبوری کے سبب بھولتے جا رہے ہیں؟
راقم کے نزیک اسکی صرف اور محض ایک وجہ ہے اور وہ ہے اپنی زبان کیلیے احساسِ کمتری اور انگریزی کے الفاظ اور جدید لائف اسٹائل کے مقابل اپنے مقامی و دیسی اسلوبِ حیات و ثقافتی اقدار کیلیے احساسِ ندامت و شکست۔
جب افراد و اقوام میں اپنے تہذیبی ورثے اور اقدار سے جُڑی علامات کیلیے ایک خاص طرح کی “عصبیت”(یاد رہے میں یہ لفظ مثبت معنی میں استعمال کر رہا ہوں) باقی نہ رہے تو اس قوم کی حیثیت گردابِ وقت میں تھپیڑے کھاتی بن مانجھی کی ناؤ جیسی رہ جاتی ہے جسکی ناغرقابی ایک معجزہ ہی سمجھیے۔
دوسری زبانوں سے نت نئے الفاظ کو تخلیقی مہارتوں کے ساتھ اپنانے اور اور اپنے روایتی ذخیرۂ الفاظ کو مردہ ہونے سے بچانے کیلیے اگر ہم میں وہ خاص عصبیت اور خوابوں کو حقیقت بنانے والے فولادی عزم کی کمی رہے گی تو یقین جانیے کہ اپنا کوئی لفظ و علامت ہماری روز مرہ زندگی میں کبھی چلن نہیں پاسکتا۔
الفاظ و اشیا کے پیچھے اگر انکو عمل میں مروج رکھنے اور چلن میں برقرار رکھنے کا اردہ کمزور پڑ جائے تو دنیا بھر کے دائرۃالمعارف اور لغت ہائے مشرق و مغرب بھی ہمیں گونگا ہونے سے نہیں بچا سکیں گے۔
اس فہرست میں اردو کے وہ الفاظ درج ہیں ﺟﻮ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ آہستہ آہستہ ﻣﺘﺮﻭﮎ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ:
فہرست
اردو انگریزی حوالہ
آبدار خانہ
آرسی Thumb ring
آویزہ (زیور) Earring
اچکن Achkan
ادقچہ Bed sheet
انٹا Billiard ball
انٹا بازی Billiards
انگرکھا Angarkha
بجرا Pleasure craft
بخشی Paymaster
برما Gimlet (tool)
بنس پھوڑ
پائیں باغ Back garden
پچی کاری Mosaic
پرچیں کاری Wood carving
پنسل تراش Pencil sharpener
پوتڑا Diaper
پیش کار
پھاٹک Gate
تازی خانہ Kennel
ترسیل گاہ Transmitter station
تنبولی
توشہ خانہ اسٹور روم Utility room
تھانگ چوروں کا اڈہ Den of Thieves
ٹم ٹم Tandem
ٹھٹیرا Tinsmith
جھوت Alley
جھاڑن
جھروکا Balcony
چاہ (جسم) Dimple
چلمچی Sink
چنگیری Breadbox
چنور/مگس راں Fly-whisk
چوبی فرش Wood flooring
چولی Bodice
چھیپی
خاک انداز Dustpan
خاتم کاری Khatam
خلاصی Sailor
فرہنگ آصفیہ جلد اول و اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت
خراد Lathe
دراز (فرنیچر) Drawer (furniture)
دستوری Commission (remuneration)
دم ساز Backing vocalist
دم سازی Vocal harmony
دیوان خانہ en:Drawing room
ڈیوڑھی Porch
رکابی Plate (dishware)
رنگ ریز Dyer (occupation)
ریختہ گری Casting
زرکوبی Goldbeating
زنبور Hand cannon
بزم آخر از منشی فیاض الدین
زیر پائی Slipper
سلیم شاہی Mojari
سنگھار میز Dressing table
سلوتری Veterinary physician
سینی Tray
شاگرد پیشہ Servants' quarters
شبستان Cottage
شست Fish hook
صافی (کپڑا) Dishcloth
عقب نما آئینہ Rear-view mirror
فرغل Cloak
فرنجک Night hag
کسیرا Coppersmith
کمانی (گاڑی) Shock absorber
کمانی دار ترازو Spring scale
کوڑے دان Waste container
گذری Night market
پیری میں کروں سیر جہاں کی تو بجا ہے
ہوتا ہے ڈھلے دن سے تماشا گذری کا
(چمنستان شعرا)
گرگابی Sandal
گنی (سکہ) Guinea (coin)
گھونگھٹ کا دروازہ Revolving door
لیموں کا آبشورہ Lemonade
مرکی Stud earring
مودی خانہ Pantry
مہتمم نشر گاہ Station director
نعمت خانہ Refrigerator
نیم برشت Half boiled
پاورقی حاشیہ Footnote
“