انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ پاکستانیوں کو انگریزی پڑھنی اور سیکھنی چاھیے۔ انگریزی علوم کا خزانہ بالخصوص جدید ٹیکنالوجی کی زبان ہے، اس سے اہل پاکستان اور امت مسلمہ کو محروم نہیں رہنا چاھیے۔ خیر جہاں سے ملے اسے سمیٹنا مسلمان کی پہچان ہے۔ انگریزی کو بطور لازمی مضمون پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج رہنا چاہیے۔جامعات میں انگریزی لٹریچر میں اعلیٰ تعلیم کا انتطام جاری رہنا چاہیے۔تاہم پاکستان کے تعلیم اداروں میں بنیادی اوراعلیٰ تعلیم کا ذریعہ قومی زبان اردو رائج کی جانی چاہیے۔ یہ اہل پاکستان کا بنیادی حق ہے اور قومی زبان ہی واحد راستہ ہے جو ہمیں دیگر ترقیافتہ اقوام کی طرح ترقی کی منازل تک پہچنا سکتا ہے۔ آج دنیا میں کوئی ایک مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم نے کسی دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرکے ترقی کی ہو۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ ہندوستان میں اٹھارویں صدی سے انگریزی پڑھائی جارہی ہے لیکن اس کے نتیجے میں کلرک، پوسٹ ماسٹر اور بینڈ ماسٹر ہی برآمد ہو رہے ہیں۔
اردو بھی بین الاقوامی زبان ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اردو دنیا کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اسلام کا علمی خزانہ بھی سب سے زیادہ اردو میں ہی میسر ہے۔ اس لیے بھی اردو ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ہمیں اپنے دین کے ساتھ وابستہ رہنے اور اسلامی تعلیمات کو نئی نسل تک منتقل کرنے کے لیے اردو کی ضرورت ہے۔اردو عربی کے قریب تر زبان ہے، اردو سمجھنے والے عربی میں بہت جلد رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔
اردو پاکستان میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ سندھی، بلوچی، سرائیکی، بروہی، پنجابی، پوٹھوہاری، ہندکو، گوجری، پشتو، شینا اور بلتی زبانیں بولنے والےآپس میں قومی زبان اردو میں تبادلہ خیال، کاروبار اور معاشرتی امور انجام دیتے ہیں۔ انگریزی پاکستان میں بمشکل ایک فیصد لوگ بولتے ہونگے۔اس لیے پاکستان میں اردو کا نفاذ ہماری سماجی اور معاشی ضرورت ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ خود اردو نہ بول سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے اس کے باوجود انہوں نے اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا بلکہ اس شدت سے قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو اردو کے بارے میں آپ کو گمراہ کرے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد تقریبا دو صدیوں سے ہماری نسلیں انگریزی پڑھ رہی ہیں اس کے باوجود ہم انگریزی نہیں سیکھ سکے۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے کلرک، پوسٹ ماسٹر، پرائمری ٹیچر، گھٹیا درجے کے ڈاکٹر، انجینئر اور اساتذہ تو پیدا کیے لیکن کوئی مفکر، مدبر، سائنسدان، موجد، ریفارمر پیدا نہیں کیا۔ کیونکہ جس درجے کی انگریزی ہمیں پڑھائی جارہی ہے اس کے نتیجے میں پیچھے چلنے والے (فالوورز )ہی پیدا ہوسکتے ہیں، جو مسلسل پیدا ہورہے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ہمارے سنیئر وکلاء اور جج حضرات انگریزی میں اتنا علم نہیں رکھتے کہ قانون کی تشریح و تعبیر کرسکیں، ان کی کمزور انگریزی کی وجہ سے معمولی قانونی نکات پر سالوں بحث مباحثہ جاری رہتا ہے اور انصاف کا قتل عام جاری رہتا ہے۔
دنیا میں ترقی کرنے والی قوموں کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل جیسا ملک جو عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں۔ جاپان ، جرمنی، فرانس، اٹلی، روسی، ایرانی اور عرب اپنی قومی زبانوں میں پڑھ کی عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ اسرائیل کے اہل علم نے سب سے زیادہ عالمی ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ معاملہ علم کی تفہیم کا ہے۔ جسے انگریزی میں انڈرسٹینڈنگ کہتے ہیں۔ ہمارے بچے رٹہ لگا کر ڈگریاں لے لیتے ہیں لیکن علم کی تفہیم، حکمت ، دانائی اور تخلیق کے درجات حاصل نہیں کرپاتے۔
ہرقوم کی پہچان اس کی زبان اور تہذیب و ثقافت سےہوتی ہے۔ ہم قومی زبان کو اختیار کرکے اپنے قومی تشخص کو بحال کرنا چاھتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو قومی زبان اردو میں پڑھا کر انہیں نئے دور کا مقابلہ کرنے کے قابل بننا چاھتے ہیں۔ ہم اپنی حکومت کو عوام سے اپنی زبان میں بات کرنے، احکامات سنانے، قانون و قواعد بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ قانون کی تفہیم کے ذریعے یہ قوم قانون کا احترام بھی کرے اور قانون کے مطابق زندگی بھی بسر کرے۔ ہم چاھتے ہیں کہ اپنی قومی زبان میں پڑھ کر قوم ترقی کی منازل طے کرے۔ قیامت تک مغرب کے پیچھے چلنے والے (فالوورز) پیدا نہ کرتی رہے بلکہ دنیا کی قیادت کرنے والی نسل تیار کرسکیں۔
دستور پاکستان نے اردو کو ہماری قومی اور سرکاری زبان قرار دیا ہے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی زبان کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔ یہ ہمارا بنیادی حق ہے، جسے سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ اردو میں پڑھنا لکھنا، امور مملکت چلانا ہمارا حق ہے۔ جس سے کوئی قانون کوئی روایت اور کوئی جبر ہمیں محروم نہیں رکھ سکتا۔
نفاذ اردو ہمارا مطالبہ نہیں ہمارا موقف ہے۔ یہ ہمارے قومی تشخص کی علامت اور ہماری پہچان ہے۔ اردو کا نفاذ تحریک آزادی کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ اُردو ہماری دینی زبان ہے۔ اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے تشخص، اپنی پہچان اور اپنی نسلوں کی ترقی کے لیے ہمیں اردو کو نافذ کرنا ہے۔ اس مسئلے میں نہ تاخیر قبول کی جاسکتی ہے اور نہ ظالم و سفا ک انگریز کی زبان کا غلبہ برداشت کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں اب فیصلہ کن جدوجہد کرنی ہے۔ یہ جدوجہد مطالبات اور درخواستوں کی نہیں بلکہ عوام کی بات عوام کی ضرورت اور عوام کی خواہش کو عوام کی قوت کے ذریعے نافذ کروانا ہے۔
انگریزی زبان ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ ہماری نسلوں کی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ ہم آئندہ نسلوں کو انگریزی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔انگریزی کے رٹے لگا لگا کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جب سی ایس ایس کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں تو 98 فیصد نوجوان انگریزی اور دیگر مضامین میں ناکام ہو جاتے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں کے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نتائج کو دیکھ لیجیے۔ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی حالت یہ ہے تو عام اداروں میں پڑھنے والے، گریجویٹ اور ان کے مساوی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی علمی قابلیت کیا ہوگی۔ کیا ہم قیامت تک اپنی نسلوں کے جوہر (ٹیلنٹ )کو انگریزی کے ہاتھوں قتل کرواتے رہیں گے۔ نہیں! کبھی نہیں۔ یہ انگریزی کا جال پاکستان پر قابض ایک فیصد اشرافیہ نے اپنے بچوں کو اگلی صدیوں تک قوم پر مسلط رکھنے کے لیے لگا رکھا ہے۔ اس جال کو آگ لگانا آج اور ابھی کرنے کا کام ہے۔ ہماری نسلوں کا استحصال جس ہتھیار سے کیا گیا ہے، اس کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ یہ شیطانی اور استحصالی چال مزید کارآمد نہیں رہی۔ قوم جان چکی ہے کہ انہیں کس طرح محکوم رکھنے کا سازش کی جارہی ہے۔
کتنا ظلم ہے کہ اشرافیہ کے بچوں کو انگریزی پڑھانے کے لیے قومی خزانے سے کھربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں اور غریب کے بچے کو اگلی کئی صدیوں تک غلام بنانے کے لیے بنچ تک فراہم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ طبقات میں تقسیم کرنا اور استحصالی طبقے پر سارے وسائل نچھاور کرنے کا وقت بیت چکا ہے۔ اب پورے ملک میں ایک ہی نظام تعلیم رائج کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ نوکر شاہی اور اشرافیہ کب تک بائیس کروڑ انسانوں کا خون چوستی رہے گی۔نوکر شاہی اور حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینے چاہیے ورنہ یہ قوم اس ظالمانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی۔ علم بغاوت بلند ہونے کی دیر ہے سارے محلات لمحوں میں زمین بوس ہوجائیں گے۔ ظلم کی ہر شکل اور ہر صورت مٹنے میں چند منٹ لگیں گے۔ قوم کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔ ظلم بند کریں اور قوم کو یکساں طور پر پڑھنے، لکھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں۔
حکمران ، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ صبح شام قانون کی پاسداری کے مطالبات کررہے ہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ دستور پاکستان کے آرٖٹیکل 251 بی اور سپریم کورٹ کے فیصلے 8 ستمبر 2015 پر عمل نہ کرکے ہمارے حکمران، ہماری عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ قانون شکنی بلکہ دستور شکنی کی مرتکب نہیں ہورہی؟ یہ کس منہ سے عوام کو قانون کی پاسداری کا درست دیتے ہیں۔ بس کریں، دہرے معیار مزید نہیں چلیں گے۔ دستور سب پر برابر لاگو ہوتا ہے۔ سونے کا چمچہ لے کر جنم لینے والے، وردی والے اور قانون کا کوٹ پہننے والے سب دستور پاکستان کی نظر میں یکساں ہیں۔ قانون سب پر لاگو ہوتا ہے۔ پہلے خود قانون کی پاسداری کریں، اپنے حلف کا خیال رکھیں اور کے بعد عوام پر قانون نافذ کریں۔ ہمیں سب سے پہلے دستور کے آرٹیکل 251 بی پر عمل درآمد چاہیے۔
“