کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب
عاشق جو ترا ہے نہ ادھر کا نہ ادھر کا
23 نومبر 1838: یوم وفات
شاہ نصیر دہلوی یا محمد نصیر الدین ناصر اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی کے ابتدائی چار عشروں تک اردو زبان کے مشہور شاعر، میر تقی میر، مرزا غالب اور اُستاد ابراہیم ذوق کے ہم عصر تھے۔تخلص نصیر تھا۔
وفات
۔۔۔۔۔۔
شاہ نصیر نے 23 نومبر 1838ء کو 81 یا 82 سال کی عمر میں حیدر آباد، دکن میں وفات پائی۔ حیدرآباد، دکن میں درگاہ حضرت موسیٰ قادری میں دفن ہوئے۔ مؤرخین نے مادۂ تاریخ ’’چراغ گل‘‘ سے نکالا ہے۔
کلام
۔۔۔۔۔۔
اُن کے کلام کو خصوصی حیثیت طویل ردیفوں کے مربوط شکل اور ہم رِشتہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔وہ اِنتہائی مشکل زمین میں اِنتہائی خوبصورت شعر اور غزل کہنے میں ملکہ رکھتے تھے۔
نصیرؔ :۔ سنگلاخ زمینوں اور مشکل ردیف و قوافی کی جو ابتدا ء سوداؔ کے زمانے سے شروع ہوچکی تھی وہ انشاؔ و مصحفیؔ سے گزر کرتا شاہ نصیرؔ کے کلام میں انتہا تک پہنچ گئی اور حقیقت یہ ہے کہ پرانے معیار پر اگر ان کا کلام جانچا جائے تو انھیں سرتاج الشعراء کہا جاسکتا ہے۔ طبیعت کی روانی، کثرتِ مشق اور زور و جوش نے ان کے کلام کو گرما گرم بنا دیا تھا ۔ پڑھنے کا انداز بھی نرالاتھا، آواز الگ پاٹ دار چنانچہ مشاعروں میں دھوم دھام پیدا کردیتے تھے۔ مصحفیؔ نے ان کے کلام کا زور شور سنا تھا لیکن لکھنوی شعراء ان کی استادی کے زعم میں شریک تھے۔ (الخ) آزادؔ کی رائے میں ان کے کلام کے متعلق زیادہ صحیح ہے لکھتے ہیں : ان کے کلام کو اچھی طرح دیکھا گیا۔ زبان شکوہ الفاظ اور چستی تراکیب میں سوداؔ کی زبان تھی اور گرمی و لذت خدا داد تھی۔ انھیں اپنی نئی تشبیہوں اور استعاروں کا دعویٰ تھا اور یہ دعویٰ بجا تھا۔ نئی نئی زمینیں نہایت برجستہ اور پسندیدہ نکالتے تھے مگر ایسی سنگلاخ ہوتی تھیں کہ بڑے بڑے شہ سوار تقدم نہ مارتے تھے۔ تشبیہہ و استعار ے کو لیا ہے اور نہایت آسانی سے برتا ہے جسے اکثر زبست انشاء پرداز نا پسند کرکے کم استعدادی کا نتیجہ نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تشبیہہ یا استعارہ شاعرانہ نہیں پھبتی ہے مگر یہ ان کی غلطی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو کلام سریع الفہم کیوں کر ہوتا اور ہم ایسی سنگلاخ زمینوں میں گرم گرم شعر کیوں کر سنتے۔ دہلی میں جو بوڑھے استاد مثلاً فراق، قاسم، عظیم بیگ وغیرہ رہ گئے تھے ان کے دعوؤں کو سنتے لیکن چپ نہ کرسکتے تھے۔ جن سنگلاخ زمینوں میں یہ دو غزلے کہتے، دوسروں کو غزل پوری کرنا مشکل ہوتی۔ غرض کہ نصیرؔ ایک زبردست شاعر تھے۔ وہ قدیم الفاظ جو انشاؔ و مصحفیؔ تک باقی تھے مثلاً ٹک وا چھڑے تس پر وغیرہ انھوں نے ترک کردیئے لیکن آئے ہے، جائے ہے وغیرہ افعال کو برقرار رکھا ہے مشکل ردیف قافیے میں بغیر تشبیہہ و استعارے کے بات نہیں بنتی۔ نصیرؔ کا تخیئل و تصور اس میں منجھا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہایت آسانی سے سنگلاخ زمینوں میں کامیاب رہتے ہیں۔
اشعار
۔۔۔۔۔۔
مشکل ہے روک آہ دل داغ دار کی
کہتے ہیں سو سنار کی اور اک لہار کی
کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب
عاشق جو ترا ہے نہ ادھر کا نہ ادھر کا
بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ
نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا
غرور حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا
خیال زلف دوتا میں نصیرؔ پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر
جوں موج ہاتھ ماریے کیا بحر عشق میں
ساحل نصیرؔ دور ہے اور دم نہیں رہا
رکھ قدم ہشیار ہو کر عشق کی منزل میں آہ
جو ہوا اس راہ میں غافل ٹھکانے لگ گیا
نصیرؔ اس زلف کی یہ کج ادائی کوئی جاتی ہے
مثل مشہور ہے رسی جلی لیکن نہ بل نکلا
شیخ صاحب کی نماز سحری کو ہے سلام
حسن نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا
میں اس کی چشم کا بیمار ناتواں ہوں طبیب
جو میرے حق میں مناسب ہو وہ دوا ٹھہرا
سو بار بوسۂ لب شیریں وہ دے تو لوں
کھانے سے دل مرا ابھی شکر نہیں پھرا
آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب
بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا
کیوں مے کے پینے سے کروں انکار ناصحا
زاہد نہیں ولی نہیں کچھ پارسا نہیں
کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں
چار عنصر کے سوا اور ہے انسان میں کیا
خیال ناف بتاں سے ہو کیوں کہ دل جاں بر
نکلتے کوئی بھنور سے نہ ڈوبتا دیکھا
عشق ہی دونوں طرف جلوۂ دلدار ہوا
ورنہ اس ہیر کا رانجھے کو رجھانا کیا تھا
دیکھ تو یار بادہ کش میں نے بھی کام کیا کیا
دے کے کباب دل تجھے حق نمک ادا کیا
جا بجا دشت میں خیمے ہیں بگولے کے کھڑے
عرس مجنوں کی ہے دھوم آج بیابان میں کیا
برقعہ کو الٹ مجھ سے جو کرتا ہے وہ باتیں
اب میں ہمہ تن گوش بنوں یا ہمہ تن چشم
چمن میں دیکھتے ہی پڑ گئی کچھ اوس غنچوں پر
ترے بستاں پہ عالم ہے عجب شبنم کے محرم کا
اک آبلہ تھا سو بھی گیا خار غم سے پھٹ
تیری گرہ میں کیا دل اندوہ گیں رہا
یہ ابر ہے یا فیل سیہ مست ہے ساقی
بجلی کے جو ہے پاؤں میں زنجیر ہوا پر
لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر
سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر
ہم ہیں اور مجنوں ازل سے خانہ پرورد جنوں
اس نے کی صحرا نوردی ہم نے گلیاں دیکھیاں
یہ داغ نہیں تن پر میں دیکھنے کو تیرے
اے رنگ گل خوبی آنکھیں ہوں لگا لایا
لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
بہم ہر موج سے چلنے لگی تلوار پانی میں
آتا ہے تو آ وعدہ فراموش وگرنہ
ہر روز کا یہ لیت و لعل جائے تو اچھا
رواق چشم میں مت رہ کہ ہے مکان نزول
ترے تو واسطے یہ قصر ہے بنا دل کا
تیرے خیال ناف سے چکر میں کیا ہے دل
گرداب سے نکل کے شناور نہیں پھرا
کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں
چار عنصر سے کھلے معنیٔ پنہاں ہم کو
ترے ہی نام کی سمرن ہے مجھ کو اور تسبیح
تو ہی ہے ورد ہر اک صبح و شام عاشق کا
پوچھنے والوں کو کیا کہیے کہ دھوکے میں نہیں
کفر و اسلام حقیقت میں ہیں یکساں ہم کو
دن رات یہاں پتلیوں کا ناچ رہے ہے
حیرت ہے کہ تو محو تماشا نہیں ہوتا
متاع دل بہت ارزاں ہے کیوں نہیں لیتے
کہ ایک بوسے پہ سودا ہے اب تو آ ٹھہرا
لگا نہ دل کو تو اپنے کسی سے دیکھ نصیرؔ
برا نہ مان کہ اس میں نہیں بھلا دل کا
ہم وہ فلک ہیں اہل توکل کہ مثل ماہ
رکھتے نہیں ہیں نان شبینہ برائے صبح
دیکھو گے کہ میں کیسا پھر شور مچاتا ہوں
تم اب کے نمک میرے زخموں پہ چھڑک دیکھو
شراب لاؤ کباب لاؤ ہمارے دل کو نہ اب گھٹاؤ
شروع دود قدح ہو جلدی کہ سر پہ ابر بہار آیا
ملا کی دوڑ جیسے ہے مسجد تلک نصیرؔ
ہے مست کی بھی خانۂ خمار تک پہنچ
بنا کر من کو منکا اور رگ تن کے تئیں رشتہ
اٹھا کر سنگ سے پھر ہم نے چکناچور کی تسبیح
نہ ہاتھ رکھ مرے سینے پہ دل نہیں اس میں
رکھا ہے آتش سوزاں کو داب کے گھر میں
سر زمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا
اک مسافر تھا سر منزل ٹھکانے لگ گیا
دود آہ جگری کام نہ آیا یارو
ورنہ روئے شب ہجر اور بھی کالا کرتا
نصیرؔ اب ہم کو کیا ہے قصۂ کونین سے مطلب
کہ چشم پر فسون یار کا افسانہ رکھتے ہیں
ہوا پر ہے یہ بنیاد مسافر خانۂ ہستی
نہ ٹھہرا ہے کوئی یاں اے دل محزوں نہ ٹھہرے گا
نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا
سپر رکھتا ہوں میں بھی آفتابی ساغر مے کی
مجھے اے ابر تیغ برق کو چمکا کے مت دھمکا
غرض نہ فرقت میں کفر سے تھی نہ کام اسلام سے رہا تھا
خیال زلف بتاں ہی ہر دم ہمیں تو لیل و نہار آیا
سب پہ روشن ہے کہ راہ عشق میں مانند شمع
پاؤں پر سے ہم نے قرباں رفتہ رفتہ سر کیا
مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ
میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا
لے گیا دے ایک بوسہ عقل و دین و دل وہ شوخ
کیا حساب اب کیجے کچھ اپنا ہی فاضل رہ گیا
کیا دکھاتا ہے فلک گرم تو نان خورشید
کھانا کھاتے ہیں سدا اہل توکل ٹھنڈا
تشنگی خاک بجھے اشک کی طغیانی سے
عین برسات میں بگڑے ہے مزا پانی کا
میرے نالے کے نہ کیوں ہو چرخ اخضر زیر پا
خطبہ خوان عشق ہے رکھتا ہے منبر زیر پا
بسان آئنہ ہم نے تو چشم وا کر لی
جدھر نگاہ کی صاف اس کو برملا دیکھا
ریختہ کے قصر کی بنیاد اٹھائی اے نصیرؔ
کام ہے ملک سخن میں صاحب مقدور کا
یہ نگل جائے گی اک دن تری چوڑائی چرخ
گر کبھو تجھ سے زمیں ہم نے بھی نپوائی چرخ
اک پل میں جھڑی ابر تنک مایہ کی شیخی
دیکھا جو مرا دیدۂ پر آب نہ ٹھہرا
بجائے آب مے نرگسی پلا مجھ کو
غذا کچھ اور نہ بادام کے سوا ٹھہرا
مے کشی کا ہے یہ شوق اس کو کہ آئینے میں
کان کے جھمکے کو انگور کا خوشا سمجھا
ابر نیساں کی بھی جھڑ جائے گی پل میں شیخی
دیدۂ تر کو اگر اشک فشاں کیجئے گا
سرزمیں زلف کی جاگیر میں تھی اس دل کی
ورنہ اک دام کا پھر اس میں ٹھکانا کیا تھا
سیر کی ہم نے جو کل محفل خاموشاں کی
نہ تو بیگانہ ہی بولا نہ پکارا اپنا
چمن میں غنچہ منہ کھولے ہے جب کچھ دل کی کہنے کو
نسیم صبح بھر رکھتی ہے باتوں میں لگا لپٹا
پستاں کو تیرے دیکھ کے مٹ جائے پھر حباب
دریا میں تا بہ سینہ اگر تو نہائے صبح
گلے میں تو نے وہاں موتیوں کا پہنا ہار
یہاں پہ اشک مسلسل گلے کا ہار رہا
لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں
گردش چرخ نہیں کم بھی ہنڈولے سے کہ مہر
شام کو ماہ سے اونچا ہے سحر ہے نیچا
نہیں ہے فرصت اک دم پہ آہ اس کو نظر
حباب دیکھے ہے آنکھیں نکال کے کیسا
ہم دکھائیں گے تماشہ تجھ کو پھر سرو چمن
دل سے گر سرزد ہمارے نالۂ موزوں ہوا
آمد و شد کوچے میں ہم اس کے کیوں نہ کریں مانند نفس
زندگی اپنی جانتے ہیں اس واسطے آتے جاتے ہیں
جب کہ لے زلف تری مصحف رخ کا بوسہ
پھر یہاں فرق ہو ہندو و مسلمان میں کیا
دیر و کعبہ میں تفاوت خلق کے نزدیک ہے
شاہد معنی کا ہر صورت ہے گھر دونوں طرف
غزل اس بحر میں کیا تم نے لکھی ہے یہ نصیرؔ
جس سے ہے رنگ گل معنیٔ مشکل ٹپکا
صیاد کے جگر میں کرے تھا سناں کا کام
مرغ قفس کے سر پہ یہ احسان نالہ تھا
دے مجھ کو بھی اس دور میں ساقی سپر جام
ہر موج ہوا کھینچے ہے شمشیر ہوا پر
کم نہیں ہے افسر شاہی سے کچھ تاج گدا
گر نہیں باور تجھے منعم تو دونوں تول تاج
ہو گفتگو ہماری اور اب اس کی کیونکہ آہ
اس کے دہاں نہیں تو ہماری زباں نہیں
شوق کشتن ہے اسے ذوق شہادت ہے مجھے
یاں سے میں جاؤں گا واں سے وہ ستم گر آئے گا
تار نفس الجھ گیا میرے گلو میں آ کے جب
ناخن تیغ یار کو میں نے گرہ کشا کیا
سربلندی کو یہاں دل نے نہ چاہا منعم
ورنہ یہ خیمۂ افلاک پرانا کیا تھا
کوئی یہ شیخ سے پوچھے کہ بند کر آنکھیں
مراقبے میں بتا صبح و شام کیا دیکھا
یہ چرخ نیلگوں اک خانۂ پر دود ہے یارو
نہ پوچھو ماجرا کچھ چشم سے آنسو بہانے کا
وقت نماز ہے ان کا قامت گاہ خدنگ و گاہ کماں
بن جاتے ہیں اہل عبادت گاہ خدنگ و گاہ کماں
دل پر آبلہ لایا ہوں دکھانے تم کو
بند اے شیشہ گرو! اپنی دکاں کیجئے گا
تار مژگاں پہ رواں یوں ہے مرا طفل سرشک
نٹ رسن پر چلے ہے جیسے کوئی رکھ کر پاؤں
تو تو اک پرچہ بھی واں سے نامہ بر لایا نہ آہ
زندگی کیوں کر ہو گر ہم دل کو پر جاویں نہیں
اسی مضمون سے معلوم اس کی سرد مہری ہے
مجھے نامہ جو اس نے کاغذ کشمیر پر لکھا
آ کے سلاسل اے جنوں کیوں نہ قدم لے بعد قیس
اس کا بھی ہم نے سلسلہ از سر نو بپا کیا
وصل کی رات ہم نشیں کیونکہ کٹی نہ پوچھ کچھ
برسر صلح میں رہا اس پہ بھی وہ لڑا کیا
دلا اس کی کاکل سے رکھ جمع خاطر
پریشاں سے حاصل کب اک دام ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی