آج – 13؍دسمبر 1866
اردو زبان کے مشہور و معروف ادیب، ڈراما نویس، ناول نگار، پلند پایہ انشا پرداز، اور قادر الکلام شاعر ” کیفیؔ دہلوی صاحب“ کا جنم دن….
نام پنڈت برجموہن دتاتریہ اور تجلص کیفیؔ تھا۔
13؍دسمبر 1866ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ فنِ شاعری میں مولانا الطاف حسین حالیؔ پانی پتی کے شاگرد تھے۔ کیفیؔ بے انتہا عقیدت اور محبت سے اپنے استاد کا تذکرہ کرتے تھے۔ اردو کے علاوہ ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی کے بھی عالم تھے۔ عرصہ دراز تک لاہور میں مقیم رہے، جہاں ان کا لڑکا انگریزی اخبار دی ٹریبیون کا ایڈیٹر تھا۔ انجمن ترقی اردو میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کے بعد آپ ہی کا درجہ تھا۔ ساری عمر نہایت خلوص کے ساتھ اردو کی خدمت کی۔ اُن کی گفتگو، تقریر اور تحریر نہایت شستہ اور شائستہ ہوتی تھی، ہر ایک سے اخلاق اور مروت سے پیش آتے تھے۔ نہایت صلح کُل شخص تھے۔
کیفیؔ دہلوی یکم؍نومبر 1955ء کو دورانِ سفر قصبہ غازی آباد میں وفات کر گئے۔
سلمان امروہوی
🍁 معروف شاعر کیفیؔ دہلوی کے جنم دن پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت… 🍁
کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے
قیامت ہے یہ دل کا آنا نہیں ہے
——–
عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا
پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے
——–
دیر و کعبہ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات دن
ڈھونڈھنے سے بھی تو بندوں کو خدا ملتا نہیں
——–
وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے
بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے
——–
الجھا ہی رہنے دو زلفوں کو صنم
جو نہ کھل جائیں بھرم اچھے ہیں
——–
اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے
——–
معلوم ہے وعدے کی حقیقت
بہلا لیتے ہیں اپنے جی کو
——–
وہ کہا کرتے ہیں کوٹھوں چڑھی ہونٹوں نکلی
دل میں ہی رکھنا جو کل رات ہوا کوٹھے پر
——–
سچ ہے ان دونوں کا ہے اک عالم
میری تنہائی تیری یکتائی
——–
نفس کو مار کر ملے جنت
یہ سزا قابل قیاس نہیں
——–
یوں آؤ مرے پہلو میں تم گھر سے نکل کر
بو آتی ہے جس طرح گل تر سے نکل کر
——–
تلخ کہتے تھے لو اب پی کے تو بولو زاہد
ہاتھ آئے ادھر استاد مزا ہے کہ نہیں
——–
جو چشم دل ربا کے وصف میں اشعار لکھتا ہوں
تو ہر ہر لفظ پر اہل نظر اک صاد کرتے ہیں
——–
بول اٹھتی کبھی چڑیا جو تری انگیا کی
خوشنوائی کی نہ یوں جیتتی بلبل پالی
——–
سیل گریہ کی بدولت یہ ہوا گھر کا حال
خاک تک بھی نہ ملی بہر تیمم مجھ کو
——–
عقدۂ قسمت نہیں کھلتا مرا
یہ بھی ترا بند قبا ہو گیا
——–
سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود
کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے
——–
ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں
سچ اگر پوچھو تو سچا آشنا ملتا نہیں
——–
حال دل لکھتے نہ لوگوں کی زباں میں پڑتے
وجہ انگشت نمائی یہ قلم ہے ہم کو
——–
کہنے کو تو کہہ گئے ہو سب کچھ
اب کوئی جواب دے تو کیا ہو
——–
یا الٰہی مجھ کو یہ کیا ہو گیا
دوستی کا تیری سودا ہو گیا
——–
تم سے اب کیا کہیں وہ چیز ہے داغ غم عشق
کہ چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے
——–
رہنے دے ذکر خم زلف مسلسل کو ندیم
اس کے تو دھیان سے بھی ہوتا ہے دل کو الجھاؤ
——–
وضو ہوتا ہے یاں تو شیخ اسی آب گلابی سے
تیمم کے لئے تم خاک جا کر دشت میں پھانکو
——–
دم غنیمت ہے سالکو میرا
جرس دور کی صدا ہوں میں
——–
خبر کسے صبح و شام کی ہے تعینات اور قیود کیسے
نماز کس کی وہاں کسی کو خیال تک بھی نہیں وضو کا
——–
معجزہ حضرت عیسیٰ کا تھا بے شبہ درست
کہ میں دنیا سے گیا اٹھ جو کہا قم مجھ کو
——–
شمع رویوں کی محبت کا جو دم بھرتے ہیں
ایک مدت وہ ابھی بیعت پروانہ کریں
——–
اصل وحدت کی بنا ہے عدم غیریت
اس کا جب رنگ جما غیر کو اپنا جانا
——–
جو دل و ایماں نہ دیں نذراں بتوں کو دیکھ کر
یا خدا وہ لوگ اس دنیا میں آئے کس لئے
——–
ہے عکس آئنہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا
تصور ہے مرا استاد بہزاد اور مانی کا
——–
بادبانوں میں بھری ہے اس کے کیا باد نفس
کشتئ عمر رواں کو تاب لنگر کی نہیں
کیفیؔ دہلوی