اردو زبان و ادوب کے چمن کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے جہاں عصری درسگاہوں سے تعلیم یافتہ حضرات نے اپنی خونِ جگر سینچا ہے اور مسلسل اس کو پروان چڑھا نے کے عمل میں لگے ہوئے ہیں وہیں دینی درسگاہوں کے فضلاء نے اسے ایک پائیدار اور مستند مقام عطا کیا ہے اور مستقل اس زبان کے لئے اپنی بے لوث خدمات پیش کر رہے ہیں۔ مدارس میں پڑھائے جانے والے تمام فنون کا ذریعہ تعلیم اردو ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں اردوزبان نہ بولی جاتی ہے ، نہ سمجھی جاتی ہے ، وہاں بھی مدارس نے اردو زبان کی باضابطہ تعلیم کا نظام قائم کررکھا ہے، اسی طرح دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی برِ صغیر کے لوگوں کے مدارس ہیں چاہے افریقہ میں ہوں یا یورپ میں وہاں بھی کسی نہ کسی درجہ میں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔مدارس کے اردو زبان کی خدمت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ مدارس کے فضلاء نے فارسی اور عربی زبان کی ہزاروں کتابوں کا نہ صرف یہ کہ اردو میں ترجمہ کیا ہے بلکہ ادبی اعتبار سے بہترین اردو شروحات بھی سپردِ قرطاس کیا ہے۔کسی بھی مذہب کے اسرارو رموز کے سمجھنے میں زبان کا اہم کردار ہوتا ہے،اگر اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ا سلامی علوم و معارف کو فضلائے مدارس نے اردو زبان کا پیرہن عطاءکرکے اردو داں طبقہ کے لئے روح کی غذا کے طور پرخاصا مواد فراہم کر دیا ہے۔چنانچہ اردو زبان میں جہاں کئی کئی جلدوں میں تفاسیرِ قرآنِ کریم اور تشریحاتِ حدیث شریف موجود ہیں وہیں توضیحاتِ شریعت اور احکام و مسائل پر بہترین اردو کتابیں بھی موجود ہیں اور مستقل ہر سال فضلائے مدارس کی سیکڑوں کی تعداد میں نئی اردو کتابیں منظرِ عام پر آتی ہیں۔اگر خالص ادبیات کی بات کی جائے تو فضلائے مدارس میں اچھی خاصی تعداد ادیبوں اور شاعروں کی مل جائے گی چنانچہ مولانا ابو الکلام آزاد نے جہاں غبارِ خاطر میں اردو ادب کو ایک انوکھی اور نئی بلندی عطا کی ہے وہیں مولانا مناظر
احسن گیلانی نے النبی الخاتم میں اردو ادب کو ایک خوبصورت اسلوب عطا کیا ہے ۔فضلائے مدارس کے درمیان صاحبِ دیوان شاعروں کی بھی متعدد بہ تعداد موجود ہے چنانچہ مولانا حالی شاعری کی دنیا میں اپنے منفرد مسدس کے لئے مشہور ہیں۔ فضلائے مدارس کے درمیان اردو زبان کے ادباءاور شعراءکے تذکرہ کے لئے مستقل تصانیف کی ضرورت ہے۔اردو کے حوالے سے مدارس کی خدمات گنانے کے لئے ماضی کی ادبی شخصیات کا نام لیا جاسکتا ہے۔ صوفیا ئے کرام سے لےکر ترقی پسند تحریک تک علما اور مدارس کے فضلا تک ایک لمبی فہرست ہے۔ اس فہرست میں خواجہ بندہ گیسودراز، مولوی ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، مولانا شبلی، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا ابوالکلام آزاد،مولوی عبدالحق، مولانا حسرت موہانی، پروفیسر عبدالمغنی اور حیات اللہ انصاری جیسے نہ معلوم کتنے نام ہیں۔ دینی مدارس میں طلباء کے اندر زبان وبیان کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے ہر جمعرات کو تقریری پروگرام منعقد کیاجاتاہے ، جس میں ہر طالب علم کے لئے اردو زبان میں یاد کی ہوئی تقریر پیش کرنا لازم ہوتا ہے ، تقریری پروگراموں اور بزموں میں عربی سے زیادہ ارود میں تقریریں کرائی جاتی ہیں۔ بعض مدارس میں اردو مقالہ نگاری کا مسابقہ کرایا جاتا ہے ، جس کے عنوانات اور صفحات متعین ہوتے ہیں اوربحث و تحقیق کا ذوق پیدا کرنے کے لئے قدیم سرمایہ سے استناد کو شرط قرار دیا جاتا ہے،اسی طرح ا ردو بیت بازی کا پروگرام بھی منعقد ہوتا ہے جس میں عام معمول کے مطابق شرکاءپانچ سو سے ایک ہزار تک معیاری اشعار پیش کرتے ہیں ، نگراں اساتذہ کو جن اشعار پر شبہ ہوتا ہے ان کی تحقیق کرائی جاتی ہے ، پھر فاتح اور مفتوح کا اعلان کیا جاتا ہے ، ان تمام پروگراموں میں شریک طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے عربی کے ساتھ ساتھ ، اردو زبان و ادب کی کتابیں انعام کے طور پر دی جاتی ہیں، اردو لائبریری طلبہ کے ذوق اور تعلیم و تربیت کے مناسب اردو زبان وادب کی کتابیں عاریتاً فراہم کی جاتی ہیں جن سے وہ اپنی تقریرو تحریرکی تیار ی میں مدد لیتے ہیں، اردو خوش خطی تو مدارس کی شناخت ہے،بڑے مدارس میں تو باضابطہ خوش خطی کاشعبہ قائم ہے اور دیگر مدارس میں خوش خطی کی پابندی سے مشق کرائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ کہ ارباب مدارس کی اردو تحریر اوروں سے صاف، ممتاز اور انتہائی پر کشش ہوتی ہے۔ بعض دینی مدارس اپنا پندرہ روزہ یا ماہنامہ رسالے نکالتے ہیں جس میں اہل قلم علماءاور طلبہ کے قیمتی مضامین اور تحقیقی مقالات کے علاوہ ، حالات حاضرہ پر تجزیاتی اداریئے اور مدرسے کے شب و روز کی سرگرمیاں بھی شامل اشاعت ہوتی ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ فضلائے مدارس نے اپنے حدود میں رہتے ہوئے اردو زبان و ادب کی جوخدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہے،ہاں یہ سچائی ہے کہ ان کی خدمات کو حکومتی سطح پر اور اردو زبان و ادب کے ادروں کے ذریعہ وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق ہیں۔اردو زبان و ادب میں خدمت کے لئے ایوارڈ بھی دیئے جاتے ہیں لیکن یہ فضلائے مدارس اپنی گرانقدر خدمات کے باوجود اس طرح کے ایوارڈ سے ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔اردو زبان و ادب سے وابستہ افراد اگر حقیقتاً اردو سے محبت کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ فضلائے مدارس کی خدمات کو بھی سراہیں اور ان کی خدمات پر مشتمل تحقیقاتی مواد کو منظرِ عام پر لائیں۔ قیام پاکستان کے بعد اردو زبان کے ساتھ ملک میں کچھ اس قسم کے حالات پیدا ہوئے کہ یہ زبان محدود ہوکر رہ گئی۔ اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اردو زبان کو عام کریں۔ ان لوگوں کو بھی اردو سیکھائیں جو اردو سیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نیک کام کو جو بھی کرے ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ حوصلہ شکنی اور تہمت تراشی سے اردو کا بھلا نہیں ہوسکتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ خود اردو والوں میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو اردو زبان کی زبوں حالی کے لیے مدارس اور اس کے فضلا کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ان مدارس کے طلبا نے اردو کا تلفظ بہت گاڑھا کردیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مدارس کو اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے انہیں اردو کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔ مان لیتے ہیں کہ مدارس نے اپنے بچوں کو اردو پڑھانا چھوڑدیا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اردو پڑھنے والے بچے کہاں سے آئیں گے؟ تعلیمی اداروں میں اردو تعلیم کی صوتحال اچھی نہیں ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں سے اردو غائب ہوچکی ہے۔ ایسے میں مدارس سے اس قسم کا بچکانہ مطالبہ کرنے والے اردو کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...