اردو کے آغاز و ارتقا کا سلسلہ عام طور پر ہندستان میں مسلمانوں کی آمد اور یہاں قیام کرنے سے جوڑا جاتا ہے جو بڑی حد تک درست ہے۔ اردو کے آغاز کا مسئلہ علمائے محققین و ماہرین لسانیات کے نزدیک مختلف فیہ رہا ہے۔ لیکن جدید تحقیق اور لسانیاتی نقطہ نظر نے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ اردو کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوئی۔ مندرجہ ذیل سطور میں ہم اس مسئلے پر مختصر روشنی ڈالیں گے
ملواں زبان ہونے کا نظریہ
اردو کے آغاز کے بارے میں سب سے پہلے میر امن نے باغ و بہار (1803ء) کے دیباچے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ در اصل جو لوگ لسانیات سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے، ہند آریائی زبانوں کے تاریخی ارتقا نیز ان کے صرفی و نحوی اصولوں اور صوتی تبدیلیوں پر نظر نہیں رکھتے وہ جب بھی اردو زبان کے آغاز و ارتقا پر غور کرتے ہیں تو محض قیاس آرائی سے کام لیتے ہیں اور بالعموم یہ غلطی کر جاتے ہیں کہ اردو کو ایک کھچڑی یا ملواں زبان قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایسی زبان جو مختلف زبانوں کے لفظوں سے اختلاط پاکر ایک تیسری زبان کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی ہو۔ میر امن نے بھی باغ و بہار (1803ء) کے دیباچے میں کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ "جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدر دانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سن کر حضور میں آکر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف،سوال جواب کرتے، ایک زبان اردو کے مقرر ہوئی"
امام بخش صہبائی نے بھی اردو کی پیدائش کے سلسلے میں فارسی اور ہندی الفاظ کے خلا ملا کی بات کہی ہے۔
لیکن یہ نظریہ غلط تھا کیوں کہ لسانیات کا مسلمہ اصول ہے کہ زبان اپنی اصل، اپنی ساخت اور بنیاد نیز اپنے اصول و قواعد سے پہچانی جاتی ہے نہ کہ سرمایہ الفاظ سے۔
برج بھاشا سے پیدا ہونے کا نظریہ
اس کے بعد مولانا محمد حسین آزاد نے (1880ء) میں آب حیات لکھی اس میں میر امن سے ہٹ کر اپنا الگ نظریہ پیش کیا۔ محمد حسین آزاد اپنی کتاب "آب حیات" (1880ء) میں لکھتے ہیں کہ "اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندستانی زبان ہے۔"
یہ نظریہ سب سے پہلے ہند آریائی لسانیات کے بڑے ماہر شخص روڈولف ہیور نلے نے پیش کیا تھا۔ ان دونوں کے علاوہ سید شمس اللہ قادری نے رسالہ "تاج اردو" کے قدیم نمبر میں ذکر کیا ہے۔ اور ان کے علاوہ بھی کئ مصنفین نے یہی نظریہ پیش کیا ہے۔ لیکن اس نظریے کی تردید پروفیسر مسعود حسین خان نے "مقدمہ تاریخ زبان اردو" میں اور شوکت سبزواری نے "داستان زبان اردو" میں کھل کر کی ہے اور دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ برج بھاشا اور اردو کے درمیان بہنوں کا رشتہ ہے نہ کہ ماں بیٹی کا۔ مسعود حسین نے یہ بھی کہا ہے کہ آزاد نے محض روایتی طور پر برج کو اردو کا ماخذ بتایا ہے کیوں کہ وہ ماہر السنہ نہ تھے اور نہ ہی نواح دہلی کی بولیوں کے نازک اختلافات سے واقف تھے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں نہ کوئی دلیل پیش کی نہ لسانی حقائق و شواہد سے بحث کی
وادی سندھ میں پیدا ہونے کا نظریہ
711ء میں محمد بن قاسم کی قیادت میں بری و بحری راستوں سے سب سے پہلے مسلمان سندھ میں داخل ہوئے۔ سندھ کا حکم راں راجا داہر تھا۔ عرب مسلمانوں نے سندھ کو فتح کیا اور اسے اسلامی حکومت کا صوبہ بنا دیا۔ تقریبا تین سو سال تک مسلمان وادی سندھ میں مقیم رہے۔ اس طویل عرصے کے دوران مسلمان اور مقامی باشندے ایک دوسرے سے میل جول اور سماجی روابط رکھتے تھے۔ اسی لئے سلیمان ندوی اردو کی جائے پیدائش وادی سندھ کو قرار دیتے ہوئے "نقوش سلیمانی" (1939ء) میں لکھتے ہیں:
"مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولی اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا"
لیکن علمی اور لسانیاتی نقطہ نظر سے اس بیان میں صداقت نہیں۔ عربوں نے وادی سندھ میں اپنے قیام کے دوران کسی نئ زبان کو جنم نہیں دیا تھا بلکہ اس خطے میں بولی جانے والی زبان کو متاثر کیا تھا
وہ اسی زبان کی قدیم شکل تھی جسے آج سندھی کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سندھی زبان میں عربی زبان کے الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں
دکن میں پیدا ہونے کا نظریہ
بعض اہل علم نے یہ ظاہر کیا ہے کہ اردو دکن میں پیدا ہوئی۔ کیوں کہ مسلمان اولا سندھ کے علاوہ مالا بار اور کارومنڈل کے ساحلوں پر بھی نمودار ہوئے تھے ان عربوں اور مقامی باشندوں کے درمیان میل ملاپ اور رسم و روابط کے نتیجے میں اردو کا آغاز و ارتقا ہوا۔
نصیر الدین ہاشمی نے "دکن میں اردو" (1923ء) لکھی جس میں انھوں نے ذکر کیا ہے
"اب یہ امر خاص طور سے غور طلب ہے کہ جب مسلمانوں نے مدتوں دکن میں بود باش کی تو ظاہر ہے کہ ایک خاص زبان کا پیدا ہونا ضروری تھا جو دونوں غیر قوموں کے لیے تبادلہ خیالات کا ذریعہ ہوتی۔ اس لحاظ سے جو دعوی اردو کے دکن سے پیدا ہونے کا کیا جاتا ہے وہ بہت بڑی حد تک صحیح ہو سکتا ہے۔"
نصیر الدین ہاشمی کے علاوہ ڈاکٹر آمنہ خاتون نے بھی اپنے کتابچے "دکنی کی ابتدا" میں اردو کی ابتدا و نشو و نما کو سر زمین دکن میں بتایا ہے۔ لیکن اردو کے دکن میں پیدا ہونے کا نظریہ بھی کسی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ بحری راستوں سے جو عرب مسلمان دکن میں آئے تھے ان کا زیادہ تر سابقہ دراویڑی خاندان کی زبانوں مثلا ملیالم ،تامل اور کنڑ یا ان کی قدیم شکلوں سے پڑا۔ دراویڑی زبانوں اور عربی زبانوں کے میل سے (جو الگ الگ لسانی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں) ایک تیسرے لسانی خاندان یعنی ہند آریائی سے تعلق رکھنے والی زبان اردو کے معرض وجود میں آنے کی بات کہنا محض قیاس آرائی ہی ہو سکتا ہے
پنجاب میں پیدا ہونے کا نظریہ
دسویں صدی عیسوی کے ربع آخر میں دوسری بار مسلمان غزنی کے بادشاہ امیر سبکتگین کی زیر قیادت پنجاب میں داخل ہوئے۔ ہندستان میں دہلی سے لیکر کابل تک راجا جے پال کی حکومت تھی جس کا دار الخلافہ لاہور تھا۔ سبکتگین نے راجا جے پال کی فوجوں کو شکست دے کر پشاور اور پنجاب کے دوسرے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ 997ء میں امیر سبکتگین کا انتقال ہوا اس وقت تک حال میں موجودہ پورا افغانستان اور تقریبا پورا ہی پنجاب اس کے زیر نگیں تھا۔ سبکتگین کے بعد 1001ء سے 1027ء تک اس کے فرزند و جانشین محمود غزنوی کے پنجاب اور ہندستان کے دوسرے علاقوں پر لگاتار حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔اور لاہور وغیرہ کو اپنی سلطنت میں شامل کرکے وہاں ایک ترکی حاکم کو مقرر کرنے کے بعد سلطان محمود غزنوی 1027ء میں غزنہ واپس چلا گیا جہاں 1030ء میں اس کا انتقال ہوجاتا ہے۔ غزنوی سلطنت کے قیام کے بعد رفتہ رفتہ مسلمان سارے پنجاب میں پھیل گئے۔ یہ سندھ میں وارد ہونے والے عرب مسلمانوں کے بر خلاف فارسی بولتے ہوئے آئے تھے ان میں سے کچھ کی مادری زبان ترکی تھی۔
مسلمانوں نے تقریبا دو سو سال تک یہاں قیام کیا۔ اس دوران مسلمانوں اور اہل پنجاب کے درمیان مضبوط میل جول اور رابطے رہے
اسی بنیاد پر حافظ محمود خاں شیرانی اپنی تحقیقی تصنیف "پنجاب میں اردو" (1928ء) میں لکھتے ہیں:
"اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے۔ اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے اپنے ساتھ کوئی زبان لے کر گئے ہوں گے"
اس بیان کے ثبوت میں پنجابی اور اردو بالخصوص قدیم دکنی اردو کی لسانی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
"ان کی تذکیر و تانیث اور جمع اور افعال کی تصریف کا اتحاد اسی ایک نتیجے کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے، دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانی ہوگئ ہیں تب ان میں جدائی واقع ہوئی ہے"
لیکن محمود شیرانی صاحب کے اس نظریے کو پروفیسر مسعود حسین صاحب نے اپنی تصنیف "مقدمہ تاریخ زبان اردو" میں یہ کہتے ہوئے رد کر دیا ہے کہ قدیم اردو اور دکنی کی جو خصوصیات شیرانی صاحب پنجابی سے منسوب کرتے ہیں وہ دہلی اور نواح دہلی کی بولیوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بہرکیف اردو کے پنجاب سے منسوب ہونے کے نظریے کو محمود شیرانی سے پہلے شیر علی خاں سر خوش نے بھی اپنے تذکرے "اعجاز سخن" (1923ء) بھی پیش کیا ہے۔ نیز اسی نظریے کو سید محی الدین قادری زور اپنی تصنیف "ہندوستانی لسانیات" (1932ء) میں اس طرح ذکر کرتے ہیں:
"اردو کا سنگ بنیاد در اصل مسلمانوں کی فتح دہلی سے بہت پہلے ہی رکھا جا چکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اس وقت تک ایک مستقل زبان کی حیثیت نہیں حاصل کی تھی جب تک کہ مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا پایہ تخت نہ بنا لیا۔ اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اردو اس زبان پر مبنی ہے جو پنجاب میں بارھویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔"
پنجابی زبان کے مستند عالم ٹی۔ گراہم بیلی محمود شیرانی کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے رائل ایشیا ٹک سوسائٹی کے مجلے میں لکھتے ہیں "اردو 1027ء کے لگ بھگ لاہور میں پیدا ہوئی۔ قدیم پنجابی اس کی ماں ہے اور قدیم کھڑی بولی سوتیلی ماں۔ برج سے براہ راست اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ مسلمان سپاہیوں نے پنجابی کے اس روپ کو جو ان دنوں دہلی کی قدیم کھڑی بولی سے زیادہ مختلف نہ تھا اختیار کیا اور اس میں فارسی الفاظ اور فقرے شامل کر دیے۔"
گراہم بیلی نے اس نقطہ نظر کو اپنی تصنیف " اے ہسٹری آف دی اردو ٹریچر" میں بھی پیش کیا ہے
دہلی و نواح دہلی میں پیدا ہونے کا نظریہ
شہر دہلی چار بولیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ بولیاں ہریانوی، کھڑی بولی، برج بھاشا اور پنجابی ہیں۔ مسعود حسین خاں کے مطابق اردو کے ارتقا میں ان تمام بولیوں کے اثرات پڑتے رہے ہیں۔ ہریانوی نے قدیم اردو کی تشکیل میں حصہ لیا، کھڑی بولی نے جدید اردو کا ڈول تیار کیا، برج بھاشا نے اردو کا معیاری لب و لہجہ متعین کرنے میں مدد دی اور میواتی نے قدیم اردو پر اپنے بعض اثرات مرتسم کیے۔ ما حصل یہ کہ لسانیاتی تجزیے سے پروفیسر مسعود خان نے اپنے جس بنیادی نظریے کی تشکیل کی ہے وہ یہ ہے:
"نواح دہلی کی بولیاں اردو کا اصل منبع اور سر چشمہ ہیں اور حضرت دہلی اس کا صحیح مولد و منشا۔"
"مقدمہ تاریخ زبان اردو" (1948ء)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کے آغاز کے سلسلے میں دہلی و نواح دہلی کی تمام بولیوں میں ہریانوی کو ہی سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور قدیم اردو کو براہ راست ہریانوی سے تشکیل پذیر بتایا ہے جس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں۔لیکن پروفیسر مسعود حسین کے یہ خیالات 1987ء سے پہلے کے ہیں۔انھوں نے 1987ء کے بعد جب "مقدمہ تاریخ زبان اردو" کا جدید ایڈیشن (ساتواں ایڈیشن) تیار کیا تو اپنے نظریے میں بھی ترمیم کرلی جس کی رو سے اردو کے آغاز کے سلسلے میں ہریانوی کے بجائے کھڑی بولی کو اولیت حاصل ہو گئ
کھڑی بولی سے پیدا ہونے کا نظریہ
اردو کے آغاز سے متعلق اب تک کا سب سے اہم نظریہ پروفیسر مسعود حسین خان کی تحقیقی روشنی کے مطابق یہ ہے کہ اردو بارھویں صدی کے آخر میں 1193ء کے بعد دہلی و نواح دہلی میں کھڑی بولی سے تشکیل پذیر ہوئی جس پر ابتدا میں ہریانوی کے اثرات پڑے۔ مسعود حسین خان کا یہی نظریہ اب تک کا سب سے ٹھوس اور قابل قبول نظریہ ہے جسے لسانیاتی بنیادوں پر چیلینج نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے علاوہ سارے نظریے لسانیاتی بنیادوں پر رد کیے جا چکے ہیں۔ ہمارے عہد کے بیشتر عالموں، دانشوروں اور لسانیات دانوں نے بھی کھڑی بولی کو ہی اردو کی اصل قرار دیا ہے۔ مثلا گیان چند جین اپنے مضمون "اردو کے آغاز کے نظریے" میں لکھتے ہیں:
"اردو کی اصل کھڑی بولی صرف کھڑی بولی ہے۔ کھڑی بولی دہلی اور مغربی یو پی کی بولی ہے۔"
شوکت سبزواری نے اپنی تصنیف "داستان زبان اردو" (1961ء) میں اردو کے آغاز سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق اردو ہندستانی یا کھڑی بولی سے ترقی پاکر بنی ہے۔ وہ کھڑی بولی اور ہندستانی کو ایک ہی زبان تصور کرتے ہیں اور اردو کو اس کی ادبی شکل مانتے ہیں۔ سہیل بخاری کا قدیم نظریہ بھی تقریبا وہی تھا جو شوکت سبزواری کا ہے۔ سہیل بخاری لکھتے ہیں کہ "در اصل اردو اور ہندی ایک ہی زبان کے دو روپ ہیں جسے ماہرین زبان نے کھڑی بولی کا نام دیا ہے"۔
جارج ابراہم گریرسن نے بھی اردو کا ارتقا کھڑی بولی سے بتایا ہے۔ ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سے محققین و مصنفین نے اردو کی ابتدا و ارتقا کو کھڑی بولی سے بتایا ہے۔
در حقیقت اپ بھرنش کے آخری دور کے نمونوں میں کھڑی بولی کے ابتدائی نقوش کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ نمونے مشہور جین عالم ہیم چندر (1088ء تا 1172ء) کی قواعد "ہیم چندر شبد انوشاسن" (1155ء) میں نقل شدہ دوہوں پر مشتمل ہیں جن میں سے ایک دوہا یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
بھلا ہو آ ج ماریا بہنی مہارا کنت لجے جام ت وسیاہ جئ بھگا گھر انت
یعنی
"بھلا ہوا بہن جو میرا پیارا، سوامی، شوہر مارا گیا جو بھاگا گھر آتا تو ہم عمر سہیلیوں میں مجھے شرم آتی"
اس دوہے کا پورا کینڈا قدیم کھڑی بولی کا ہے جس کی قواعد کی کئ شکلیں اس میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اپ بھرنش کے آخری دور کے کچھ نمونے اس دور کی طویل رزمیہ نظموں میں بھی ملتے ہیں جنھیں راسو کہتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور "پرتھوی راج راسو" ہے۔ نیز کچھ ادبی نمونے بدھ سدھوں اور گورکھ پنتھی جوگیوں سے بھی منسوب ہیں۔ اپ بھرنش کے ان نمونوں کا جب ہم لسانیاتی تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ کس طرح مدھیہ دیشہ میں رائج اپ بھرنش اپنے ارتقا کے آخری دور میں بعض سیاسی،سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں کے زیر سایہ بدلتی ہے اور کس طرح یہ لسانیاتی عمل دہلی و نواح دہلی کی بولیوں، کھڑی بولی اور ہریانوی بولی کے ارتقا کی راہیں ہموار کرتا ہے جو اردو کے آغاز کا سبب بنتی ہیں۔ اسی لیے مسعود حسین خان کے نزدیک اردو کا بنیادی ڈھانچا کھڑی بولی پر قائم ہے وہ لکھتے ہیں:
"اردو کے ڈانڈے آج بھی غزل تا گیت پھیلے ہوئے ہیں لیکن کھڑی بولی پر اس کی اساس کا ہونا شرط ہے"