ڈاکٹرمحمدغوث ڈائرکٹر تلنگانہ ریاستی اردواکیڈیمی کے ہاتھوں محسن خان کی کتاب’’ میزان ادب‘‘ کی رسم اجراء
آج بھی اردومیڈیم اسکولس میں طلبہ کی کثیرتعداد موجودہے مگرچند وجوہات کی بناء پریہ اردومیڈیم اسکولس مقبول نہیں ہورہے ہیں اس پر تمام محبان ارردو کو غور کرنا چاہئے۔ صحافی سماج کا نباض ہوتا ہے ۔انہیں حق حاصل ہے کہ وہ اردوزبان پربیباک رائے قائم کریں۔ اردوصحافت سے تعلق رکھنے والے صحافیو ںکوبھی فرو غ اردو کے لیے کوشیں کرنا چاہئے اورکیوں اردومیڈیم اسکولس مقبول نہیں ہورہے ہیں اس کا حل نکالنا چاہئے۔ان خیالات کا اظہارسیدفضل اللہ مکرم(صدرشعبہ اردوحیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی) نے ذیمریس ہال میں اپنے توسیعی لکچر میں کیا۔ انہوں نے کہاکہ 18عیسوی میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کامقصد انگریزوں کواردوسیکھاناتھا۔ اس کے بعد دلی کالج قائم ہوا ہندوستانیوں کوانگریزی علوم سیکھنانے کے لیے۔ 1857ء کی جنگ کے بعد انگریزی زبان ہم پرمسلط کردی گئی جس کااثرآج بھی برقرار ہے ۔ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم نے کہاکہ زبان صرف ذریعہ ہے علم نہیں‘علم کا حصول زبان کے ذریعہ ہوتا ہے۔ سینکڑوں ماہرین تعلیم کاکہناہے کہ بچے کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہئے۔ آج ہمارے گھرمیں انگریزی زبان کا استعمال ہورہا ہے تاکہ بچے انگریزی زبان سیکھے لیکن اردو زبان کواس سے نقصان ہورہا ہے۔ ہماری تہذیب کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ ہمیں اردومیڈیم اسکولس کا انفراسٹرکچر بہتربنانے کی ضرورت ہے،اردومیڈیم اساتذہ کوبھی جدید تقاضو ں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ اردوہماری شناخت ہے ۔آج لوگوں کے ذہن میں اردومیڈیم اسکولس کے تعلق سے جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں اس کے لیے ہم تمام اردووالوں کوپہل کرنا چاہئے۔ ہم کوشکایتوں کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کرنا بھی چاہئے۔اردو زبان سے دوری کی وجہ سے مذہب بھی ہم دور ہورہے ہیں کیوں کہ اردومیں جتنا مذہبی مواد موجودہے وہ کسی اورزبان میں نہیں ہے۔ ہم میں سے ہرفرد کسی ایک شخص کواردوپڑھانے کی ذمہ داری قبول کریں۔ انٹرنیٹ پربہت سار ے ویڈیوز اور مواد ہے جہاں سے ہمارے بچے اردوسیکھ سکتے ہیں۔ زبانیں کبھی ختم نہیں ہوتی جب تک اہل زبان اس کو نہ کرے۔ اسرائیلی زبان جوختم ہوچکی تھی آج اس کواسرائیلیوں نے دوبارہ زندہ رکھاہے۔ اردوکے تعلق سے کچھ کام کرکے ہم احسان نہ جتائے کیو ںکہ ہم زبان کا حق ادا کررہے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے کچھ مانگتا نہیں جاتا بلکہ ان کودیاجاتا ہے جن میں مادرودطن،ماں اور زبان ہے۔ ہم کوکام کرتے رہنا چاہئے،تنقیدیں ہوں گی اوریہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کچھ کررہے ہیں۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمدغوث ڈائرکٹرسکریٹری تلنگانہ ریاستی اردواکیڈیمی نے کہاکہ ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم کی زیرنگرانی ہم نے ایک کتاب دروس اردوکتاب تیار کی جس میں اردوسکھانے کا کام کیاجارہا ہے۔ اورآن لائن بھی اردواکیڈیمی اردوسکھارہی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ بچو ںکو نورانی قاعدہ کے ساتھ ساتھ بولتا قاعدہ بھی پڑھانا چاہئے۔ انہوں نے نوجوانوں اوراسکالرس سے کہاکہ وہ قومی زبان اورروشن ستارے میں اپنے مضامین لکھیں۔ اسکول کے بچوں کواردوسکھانے کے لیے روشن ستارے اہم میگزین ہے۔ ڈاکٹرمحمدغوث نے کہاکہ اردوزبان کی حفاظت کی ذمہ داری اداروں کے ساتھ ساتھ ہرفرد پربھی عائد ہوتی ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیو ں اور بڑے اداروں میں اردوکوپہنچانے کی ضرورت ہے اس سے اردو زبان کے طلبہ کووہاں روزگار حاصل ہوگا۔اس موقع پرمحسن خان کی تیسری تصنیف میزان ادب کا رسم اجراء عمل میں آیا۔ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم کی ادبی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے انہیں آل انڈیا اردوماس سوسائٹی فارپیس کی جانب سے انمول رتن ایوارڈ پیش کیاگیا۔ ڈاکٹرمختاراحمدفردین نے خیرمقدمی تقریر کرتے ہوئے مہمانوں کااستقبال کیا اورڈاکٹرسیدحبیب امام قادری(ایڈیٹرتاریخ دکن) نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔تاریخ دکن چینل اور ذیمریس فیس پیچ پریہ پروگرام لائیو پیش کیاگیاجس سے کثیرتعداد میں آن لائن محبان اردو نے دیکھا۔ ڈاکٹرمحمدناظم علی، محمدآصف علی، ڈاکٹرجاوید کمال،ڈاکٹرم ق سلیم، ڈاکٹرمحامدہلال اعظمی،جہانگیر قیاس ، عظمت اللہ بیابانی، ڈاکٹرایم اے ساجد ،سیداصغر ،سلیم فاروقی، خالد صدیق حسین اوردیگرموجودتھے۔ خواجہ سعیدالدین (تلنگانہ گرین کراس سوسائٹی)، محمدسمیع، محمدشعیب اورمحمدسیف نے انتظامات کی نگرانی کی۔