کسی بھی معاشرے میں زندگی گزارنے کے لئے سب سے اہم اور ضروری شے ابلاغِ عامہ ہوتا ہے، یعنی اپنی بات دوسروں تک پہنچانا، یا کسی دوسرے کی بات کو سمجھنا اور باہم گفتگو کرنا ـ چنانچہ اس مقصد کے لئے تمام انسان کوئی نہ کوئی زبان استعمال کرتے ہیں ـ کچھ زبانیں اپنی تکمیل میں بہت زیادہ وقت لیتی ہیں اور کچھ جلد ہی پایہء تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں ـ دنیا کی جدیدترین اور کم وقت میں عروج پانے والی زبانوں میں ہماری " اردو " زبان سب سے مقدم سمجھی جاتی ہے ـ یہ زبان آج سے تقریباّ پانچ، چھ، سو سال قبل پیدا ہوئی، یا ابتدائی طور پر بولی جانے لگی ـ مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں، دلی میں بنائے جانے والے شاہی قلعہ معلی، کے حوالے سے اسے اردوئے معلیٰ بھی کہا گیا، جبکہ اس سے پیشتر اسے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا ـ یعنی ہندی، ہندوی، دکنی، اور ریختہ، وغیرہ ــ اس کی جائے پیدائش کے متعلق محققین میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر، محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے حملوں کے بعد اس کی بنیاد پنجاب میں پڑی ـ جبکہ بعض دیگر محققین اس نظرئیے کی نفی کرتے ہیں، اور اسے، دلی یا دکن کی زبان قرار دیتے ہیں ـ تاریخ میں اس نظرئیے کی تائید میں اس دور کے قدیم شعراء کے اشعار کی بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں، جن میں مشہور صوفی شاعر اور موسیقار، امیر خسرو بھی شامل ہیں، جنہوں نے کئی معروف گیت، اور اشعار اس زمانے کی اردو، اور فارسی کے ملاپ کے ساتھ کہے ہیں ـ مزید کئی محققین کا یہ استدلال بھی ہے کہ، دراصل اردو اس دور کے مشرقی پنجاب کے علاقے، " ہریانہ " کی گود میں پلی بڑھی ہے، بعدازاں وہ دلی، دکن، وغیرہ میں جاکر جوان ہوئی، اور مزید بڑھی ـ لیکن اس وقت تک اسے اردو کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا ـ بعدازاں سال 1857، کی تحریک آزادی میں ہندوستانی عوام کی ناکامی کے بعد جب برطانیہ نے ہندوستان پر مکمل غلبہ حاصل کرلیا تو اُس وقت کی برسرِاقتدار زبان فارسی کا اثر کم ہونے لگا، رفتہ رفتہ نوآورد لوگوں کی زبانیں بھی فارسی اور ہندی میں گڈمڈ ہونے لگیں، تو اس زبان کو جلد پنپنے کا موقع میسر آگیا، چناں چہ مختلف علاقوں کے لوگ جو انگریز لشکر میں تھے، اس زبان کو باآسانی سمجھنے اور بولنے لگے ـ اور ایک نئی تجرباتی قسم کی زبان معرضِ وجود میں آنے لگی ، اور اس زبان میں اس وقت کے معتبر لوگوں نے خط و کتابت شروع کردی ـ یوں یہ نومولود زبان معجزانہ طور پر تیزی کے ساتھ پروان چڑھنے لگی، اور یہ لشکری یا ملی جلی زبان کے طور پر متعارف ہونے لگی ـ اس کے دلبرانہ تیور دیکھکر ہر شخص نے اس کی پذیرائی شروع کردی ـ خاص طور پر اس وقت کے فوجی لشکروں میں یہ زبان زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتی چلی گئی، چوں کہ انگریزی لشکر میں ہر علاقے کے لوگ شامل ہوتے تھے، اس لئے اس زبان میں ہر علاقے کے الفاظ شامل ہوتے گئے، اور اس کا یہ ہی انداز سب کو بھاگیا، چنانچہ سب نے اسے اپنی زبان سمجھ کر اپنالیا ـ یہ ہی وجہ تھی کہ اسے اردو یعنی لشکری زبان کا نام دیا گیا ـ ( تاہم کچھ مکتبہء فکر کے لوگ اس کے نام اردو کی وجہ تسمیہ کچھ اور بھی بیان کرتے ہیں) ــ
بہرحال بعدازاں اس زبان میں مکتوب، نثر، شاعری، اور مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی جانے لگیں، یوں یہ زبان دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان پر چھاگئی ـ اردو زبان میں ڈرامے اسٹیج کئے جانے لگے، فلمیں بننے لگیں، اور تقسیمِ ہند کے بعد اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا گیا ــ اب یہ زبان دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کرتی جارہی ہے ـ اور دنیا کے ہر ملک میں یہ اردو زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے ــــ
علامہ اقبال نے بھی اس کے لئے کہا تھا کہ ـ
گیسوئے اردو ابھی منّت پزیرِ شانہ ہے ــــ
یعنی، گو کہ اردو زبان روزبروز ترقی کرتی جارہی ہے، لیکن ابھی اس کے آگے بڑھنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے ــــ
اردو زبان کی ترقی میں جن لوگوں نے بھرپور حصہ لیا، ان کا مختصر ترین جائزہ ہم اس طرح لے سکتے ہیں ــــ
سب سے پہلے سن 1308ء میں اشرف جہانگیر سمنانی، نے کچھ اخلاقی مضامین ابتدائی اردو ( ریختہ) میں ایک رسالے کی شکل میں شایع کئے ـــ
پھر " شیخ عین الدین گنج العلم " نے دکنی اردو میں شرعی مسائل پر مبنی چند رسائل لکھے ـ
1398ء میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز، نے تصوف کے موضوع پر ایک کتاب، " معراج العاشقین " لکھی ــ
پندرھویں صدی عیسوی میں، حضرت خواجہ شمس العشاق، شاہ میراں جی نے، " جلترنگ " ــ " شرح مرغوب القلوب " ــ. " گل باس " ـــ اور " سب رس " اردو زبان میں تصنیف کیں ـ
1582 ء میں شاہ برہان الدین جانم نے ایک کتاب، " کلمۃ الحق " لکھی ـــ
1635 ء، میں مُلّا وجہی، نے ایک کتاب " سب رس " کے نام سے لکھی، جوکہ اردو نثر میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے.
1731 ء میں فضلی نے " وہ مجلس " ( کربل کتھا) کے نام سے ایک مذہبی کتاب کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا ـــ
1799ء، کلکتہ میں قائم ہونے والے. " فورٹ ولیم کالج " سے اردو زبان میں قصے، کہانیوں کی کتابیں لکھی گئیں، جن میں میرامن کا قصہ " باغ و بہار " ــ حیدر بخش حیدری کی. " توتا کہانی " ــ شیرعلی افسوس کی " آرائش محل " اور غلام حیدر کا، " قصہء حسن و عشق " بہت مشہور ہوئیں ــــــــ
بعدازاں ڈپٹی نذیر احمد نے، " مراء ۃ العروس " ـــ " توبه النصوح " ــ اور " ابن الوقت " جیسے مشہور اصلاحی ناول لکھے ـــ اس کے بعد ناول نگاری کے میدان میں، " عبدالحلیم شرر " ــ " سرشار " ــ " منشی پریم چند " ــ " مرزا ہادی رسوا " ، بھی شامل ہوگئے ـــــ
ہمارے ماضی قریب کے زمانے میں، " عصمت چغتائی " ــــــــــ " قرۃ العین حیدر " ـــ " فضل احمد کریم فضلی " ـــــــــ " شوکت صدیقی " ـــ " ممتاز مفتی " ـــ " خدیجہ مستور " ــ " جمیلہ ہاشمی " ــ " عبداﷲ حسین " وغیرہ نے ناول کی روایت کو مزید ترقی دی ــــ
اردو نثر میں مختصر افسانہ لکھنے والوں میں، " سجاد حیدر یلدرم " ــ اور " منشی پریم چند " کے نام نمایاں ہیں ــ
سال 1936ء میں ترقی پسند افسانے لکھے جانے لگے، لکھنے والوں میں، سرِفہرست، کرشن چندر ـ راجندرسنگھ بیدی ــ اخترحسین رائے پوری ــ عصمت چغتائی ــ سعادت حسن منٹو ــ ممتاز شیریں ــ آغابابر ــ ابراہیم جلیس ــ ہاجرہ مسرور ــ انتظار حسین ــ غلام عباس ــ احمد ندیم قاسمی ــ شوکت صدیقی ــ قدرت اللہ شہاب ــ ابوالفضل صدیقی، وغیرہ شامل ہیں ـــ
اردو نثر و نظم کے بعد اردو ڈرامہ بھی لکھا اور سٹیج کیا جانے لگا ـــ ڈرامہ لفظ دراصل یونانی ہے، جس کے معنی ہیں، کچھ کرنا، یا کچھ کرکے دکھانا ــ ابتدائی ڈرامے لکھنے والوں میں، ــ مداری لال ـ خادم حسین افسوس ــ بھیروں سنگھ عظمت ــ امام بخش ــ میاں حسین ظریف، مشہور ہیں ــ
بعدازاں آغا حشر کاشمیری ــ پنڈت بیتاب ــ احسن لکھنوی ــ اور ظریف نے بڑے مقبول ڈرامے لکھے ـــ
ماضی قریب میں ادبی اور تاریخی ڈرامہ نویسوں میں، ــــ امتیازعلی تاج ــ احمد شجاع ــ منشی پریم چند ــ عنایت اللہ دہلوی ــ سید ابن الحسن ــ جگت موہن لال ــ سجاد حیدر یلدرم ــ غلام باری ( علیگ) ــ شوکت تھانوی ــ مرزا ادیب ــ اوپندر ناتھ اشک، شامل ہیں ــ
پاکستان میں اردو تھیٹر کو زندہ رکھنے کا سہرا، خواجہ معین الدین، کے سر بندھتا ہے، جن کے کھیل " لال قلعے سے لالو کھیت " ــ " تعلیمِ بالغان " ــــ " مرزا غالب بندر روڈ پر "
بڑے مایہ ناز ڈرامے ہیں ــ ان کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی پر پیش کئے جانے والے ڈرامہ لکھنے والوں کے نام، آغا ناصر ــ بختیار احمد ــ اشفاق احمد ــ بانو قدسیہ ــ حسینہ معین ــ فاطمہ ثریا بجیا ــ امجد اسلام امجد ــ منوبھائی ــ تاجدار حیدر ــ یونس جاوید ــ ڈاکٹر ڈینس آئزک ــ مستنصر حسین تارڑ ـــ ہیں، ان میں سے اکثر ڈرامے کتابی شکل میں بھی موجود ہیں، جبکہ مذکورہ مصنفین میں سے بھی کچھ لوگوں کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا یے، جبکہ کچھ لوگ ماشاءاللہ ابھی حیات ہیں ــــ
اس کے علاوہ ماضی قریب اور ہمارے دور کے جاسوسی ادب لکھنے والوں میں " ابنِ صفی " کو اس صنف کا بانی سمجھا جاتا ہے ــ جبکہ جناب رئیس امروہوی صاحب نے، شاعری، نفسیات و مابعد نفسیات، اور روحانی و ماورائی علوم پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں ـ چنانچہ اردو آج بھی الحمدلله. ہر میدان میں روز افزوں ترقی پزیر ہے ـــ
نوٹ: — اس مضمون کی تیاری کے لئے ـ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، کی گیارہویں جماعت کی کتاب " گلزار اردو " سے مدد لی گئی ہے ـــــــــ