سیّد اکبر حسین رضوی نام ، اکبرؔ تخلص تھا۔ ۱۶؍نومبر۱۸۴۶ء کو قصبہ بارہ، ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدارس اور سرکاری اسکولوں میں پائی۔ ۱۸۶۶ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیل دار مقرر ہوئے۔ ۱۸۷۲ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۸۰ء تک وکالت کی، پھر منصب کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ترقی کرکے سب آرڈینیٹ جج اور بعد میں جج مقرر ہوئے۔ ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب گورنمنٹ سے ملا۔ شعروشاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ وحید الٰہ آبادی کے شاگرد تھے۔ مزاحیہ اور سنجیدہ دونوں طرح کی شاعری کی۔ طنزومزاح کے اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ ۹؍ستمبر۱۹۲۱ء کو الٰہ آباد میں انتقال کرگئے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کو ’’لسانُ العصر‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ’’کلیاتِ اکبر‘‘ چار حصوں میں چھپ گئی ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:218
لسانُ العصر اکبرؔ الٰہ آبادی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامۂ اعمال دیکھ
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
قامت سے ترے صانعِ قدرت نے اے حسَیں !!
دکھلا دیا ہے حشر کو سانچے میں ڈھال کے
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
نکالا کرتی ہیں گھر سے یہ کہہ کر تو تو مجنوں ہے
ستا رکھا ہے مجھ کو ساس نے لیلیٰ کی ماں ہو کر
غم و رنج میں اکبرؔ اگر ہے گھِرا تو سمجھ لے کہ رَنج کو بھی ہے فنا
کسی شے کو نہیں ہے جہاں میں بَقا وہ زیادہ ملُول و حزِیں نہ رہے
نہ تو کچھ فکر میں حاصل ہے نہ تدبیر میں ہے
وہی ہوتا ہے جو انسان کی تقدیر میں ہے
تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر
خُدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ھے ، اے اکبرؔ
یہی وہ دَر ھے ، کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
یہ دلبری یہ ناز یہ انداز یہ جمال
انساں کرے اگر نہ تری چاہ کیا کرے
بولے کہ تجھ کو دین کی اصلاح فرض ہے
میں چل دیا یہ کہہ کے کہ آداب عرض ہے
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
ﻏﻢِ ﺧﺎنہِ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻭُﻗﻌﺖ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ
ﺍﮎ ﻧﺎ ﺷُﻨﯿﺪﮦ ﺍُﻑ ﮨﯿﮟ ، ﺍﮎ ﺁﮦِ ﺑﮯ ﺍﺛﺮ ﮨﯿﮟ
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
سو جان سے ہو جاؤں گا راضی میں سزا پر
پہلے وہ مجھے اپنا گنہ گار تو کر لے
کچھ طرزِ ستم بھی ہے کچھ اندازِ وفا بھی
کھلتا نہیں حال ان کی طبیعت کا ذرا بھی
تمہارے وعظ میں تاثیر تو ہے حضرتِ واعظ
اثر لیکن نگاہِ ناز کا بھی کم نہیں ہوتا
عشوہ بھی ہے ، شوخی بھی ، تبسّم بھی ، حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی ۔۔ !!
حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
ہاں اے نگاہِ شوق ذرا دیکھ بھال کے !!
رہ و رسمِ محبت ان حسینوں سے میں کیا رکھوں
جہاں تک دیکھتا ہوں نفع ان کا ہے ضرر اپنا
تحسین کے لائق ترا ہر شعر ہے اکبرؔ
احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک