(Last Updated On: )
’’اردو تحقیق و تنقید کی سمت و رفتار: اکیسویں صدی میں‘‘ کے موضوع پرکشمیر میں قومی سیمینار کا انعقاد
شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اور جی۔این۔کے پبلی کیشنز کی جانب سے پچھلے دو ماہ میں دوسری کامیاب ادبی تقریب
سہ ماہی ’پنج آب‘،’درِ وحدت اور ’نورالدین قاری حیات اور زندگی ‘کی رسم رونمائی
شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اور جی۔این۔کے۔ پبلی کیشنز کی جانب سے سرینگر میں ’’اردو تحقیق و تنقید کی سمت و رفتار: اکیسویں صدی میں‘‘کے موضوع پر یک روزہ قومی سیمینار منعقد کیا گیا۔یہ سوسائٹی کی جانب سے اس مہینے کی دوسری بڑی عالی شان ادبی تقریب تھی جو بہ حسن و خوبی تکمیل کو پہنچی۔جس میں ریاست جموں و کشمیر کے اطراف و اکناف سے ریسرچ اسکالرس،ادبا و شعرا اور مندوبین سے شرکت فرمائی۔یہ سیمینار دو اجلاس پر مشتمل تھا۔
پہلے اجلاس کی ایوانِ صدارت پروفیسر ناصر مرزا،وحشی سعیداورنذیر جوہرنے کی۔ نشست کا آغازتلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا جس کا فریضہ دانش حسین نے انجام دیا جب کہ نعتِ پاک پڑھنے کی سعاوت مدثر حسین لٹو کو حاصل ہوئی۔ادارے کے صدر غلام نبی کمار نے اپنے استقبالیہ خطبے میں سوسائٹی کے اغراض و مقاصداور اس کی ادبی خدمات کے حوالے سے گفتگو کی اوراردو زبان و ادب کی موجودہ صورتِ حال پر بھی روشنی دالی۔
انھوں نے تمام مہمانوں کا استقبال کیااور اردو زبان کے تئیں ان کے جذبے کو سراہا۔۔ اس اجلاس کے مقالہ نگاروں میں مقبول فیروزی،زاہد ظفر،نثار احمد چیچی،زمرودہ محمد میر،محمد الطاف ملک،ڈاکٹر منصور خوشتر،ڈاکٹر ریحان احمد قادری اور ڈاکٹر محمد سالم کے نام قابلِ ذکر ہیںجب کہ ڈاکٹر احسان عالم کے مقالے کی قرأت آصف علی نے کی۔اس دوران تین کتابوں کی رسمِ رونمائی بھی انجام دی گئی جس میں فقیر عبدالرحیم شاہ پلوامی کی کتاب’’درِوحدت‘‘فاروق شاہین کی کتاب’’مولانا نورالدین قاری:حیات اور کارنامے‘‘ اور’’سہ ماہی پنج آب‘‘ مدیر سالک جمیل براڑ ،غلام نبی کمار کے نام قابل ِ ذکرہیں۔اس کے بعد پروفیسر ناصر مرزا نے کنوینر سیمینار کی اردو زبان و ادب میں نمایاں کارکردگی کی ستائش کی ۔
انھوں نے سبھی مقالہ نگاروں کے مقالات پر مختصر مگر بہت جامع انداز میں تبصرہ کیا۔پروفیسر ناصر مرزا نے جموں و کشمیر میں اردو تنقید کی سمت و رفتار کے حوالے سے بھی پُر مغز گفتگو کی۔وحشی سعید نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ پہلے ہمیں تحقیق ،تنقید اور تخلیق کے رشتے کو سمجھنا ہوگا اوراس کے بعدتنقید کیا ہے اور اس کے بنیادی امتیازات کیا ہیں اور موجودہ دور میں تنقید کی اہمیت و معنویت اور صورت حال کس سمت گامزن ہے کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
نذیر جوہر نے بھی جموں و کشمیر میں اردو تنقید کے حوالے سے اپنا بھرپور مقالہ پڑھا۔اس سیشن میں نظامت کے فرائض محترمہ رافعہ ولی نے انجام دیے۔ دوسرے اجلاس میں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر اشرف آثاری،ستیش ومل ،غلام نبی حلیم اور ناظم نذیر فرما رہے تھے۔اس سیشن میں جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں پرویز مانوس، عاصم اسعدی،فقیر عبدالرحیم شاہ،شاہباز ہاکباری، اشہر اشرف،شبیر احمد شبیر،فاروق شاہین،ریاض توحیدی،مقبول فیروزی،راشف عزمی،ڈاکٹر گلزار احمد وانی،شفیع شاداب،مصروفہ قادر،برکت علی،عذرا حکاک،طالب شاہین کے نام شامل ہیں۔
اس موقع پر ایوانِ صدارت میں تشریف فرما شعرا حضرات نے بھی سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمایا۔ڈاکٹر اشرف آثاری نے کہا کہ ایسی محفلیں اور سیمینار اردو زبان اور شعر و ادب میں روح پھونک دیتے ہیں اس لیے ایسی ادبی تقاریب کا انعقاد ایک امید افزا بات ہے۔ستیش ومل نے نوجوان شعرا اور ناقدین کے حوصلے اور عزم کو سراہتے ہوئے انھیں مبارکباد پیش کی۔انھوں نے کہا کہ یہاں اردو تنقید اور شعر و ادب کی زمین بہت زرخیز رہی اس لیے نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی ایک بڑی سعادت ہے۔رکن تعمیل ارشاد ناظم نذیر نے بھی آخر میں اپنی متاثر کن تقریر سے سامعین کے دل جیت لیے۔
انھوں نے غلام نبی کمار کی ادبی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نوجوانوں کی آمد ایک خوش آئندبات ہے۔انھوں نے اس موقع پر’’ستیش ومل کے نام ایک شام‘‘رکھنے کی بھی تجویز پیش کی جس کا خیر مقدم کیا گیا۔اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ محترمہ مصروفہ قادرنے انجام دیا۔شرکاء میں نور شاہ،جمیل انصاری،ڈاکٹر نذیر احمد کھنڈا،رئیس احمد کمار،بشیر احمد بٹ،منظور احمد کمار،محمد آصف کمار،بشیر اطہر ،عبدالرحمان کمار،شبیر حسین لٹو،الطاف جمیل ندوی کے اسمِ گرامی اہم ہیں۔پروگرام کے اخیر میں مقالہ نگاروں کو اسناد تفویض کی گئیں۔
اس کے علاوہ فاروق شاہین اور فقیر عبدالرحیم شاہ کی شال پوشی کی گئی اورمزید اسناد سے نوازا گیا۔اس سیمینارمیں روزنامہ لازوال جموں، روزنامہ تعمیل ارشاد اور روزنامہ نیا نظریہ بھوپال میڈیا پارٹنر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
پہلے اجلاس کی ایوانِ صدارت پروفیسر ناصر مرزا،وحشی سعیداورنذیر جوہرنے کی۔ نشست کا آغازتلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا جس کا فریضہ دانش حسین نے انجام دیا جب کہ نعتِ پاک پڑھنے کی سعاوت مدثر حسین لٹو کو حاصل ہوئی۔ادارے کے صدر غلام نبی کمار نے اپنے استقبالیہ خطبے میں سوسائٹی کے اغراض و مقاصداور اس کی ادبی خدمات کے حوالے سے گفتگو کی اوراردو زبان و ادب کی موجودہ صورتِ حال پر بھی روشنی دالی۔
انھوں نے تمام مہمانوں کا استقبال کیااور اردو زبان کے تئیں ان کے جذبے کو سراہا۔۔ اس اجلاس کے مقالہ نگاروں میں مقبول فیروزی،زاہد ظفر،نثار احمد چیچی،زمرودہ محمد میر،محمد الطاف ملک،ڈاکٹر منصور خوشتر،ڈاکٹر ریحان احمد قادری اور ڈاکٹر محمد سالم کے نام قابلِ ذکر ہیںجب کہ ڈاکٹر احسان عالم کے مقالے کی قرأت آصف علی نے کی۔اس دوران تین کتابوں کی رسمِ رونمائی بھی انجام دی گئی جس میں فقیر عبدالرحیم شاہ پلوامی کی کتاب’’درِوحدت‘‘فاروق شاہین کی کتاب’’مولانا نورالدین قاری:حیات اور کارنامے‘‘ اور’’سہ ماہی پنج آب‘‘ مدیر سالک جمیل براڑ ،غلام نبی کمار کے نام قابل ِ ذکرہیں۔اس کے بعد پروفیسر ناصر مرزا نے کنوینر سیمینار کی اردو زبان و ادب میں نمایاں کارکردگی کی ستائش کی ۔
انھوں نے سبھی مقالہ نگاروں کے مقالات پر مختصر مگر بہت جامع انداز میں تبصرہ کیا۔پروفیسر ناصر مرزا نے جموں و کشمیر میں اردو تنقید کی سمت و رفتار کے حوالے سے بھی پُر مغز گفتگو کی۔وحشی سعید نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ پہلے ہمیں تحقیق ،تنقید اور تخلیق کے رشتے کو سمجھنا ہوگا اوراس کے بعدتنقید کیا ہے اور اس کے بنیادی امتیازات کیا ہیں اور موجودہ دور میں تنقید کی اہمیت و معنویت اور صورت حال کس سمت گامزن ہے کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
نذیر جوہر نے بھی جموں و کشمیر میں اردو تنقید کے حوالے سے اپنا بھرپور مقالہ پڑھا۔اس سیشن میں نظامت کے فرائض محترمہ رافعہ ولی نے انجام دیے۔ دوسرے اجلاس میں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر اشرف آثاری،ستیش ومل ،غلام نبی حلیم اور ناظم نذیر فرما رہے تھے۔اس سیشن میں جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں پرویز مانوس، عاصم اسعدی،فقیر عبدالرحیم شاہ،شاہباز ہاکباری، اشہر اشرف،شبیر احمد شبیر،فاروق شاہین،ریاض توحیدی،مقبول فیروزی،راشف عزمی،ڈاکٹر گلزار احمد وانی،شفیع شاداب،مصروفہ قادر،برکت علی،عذرا حکاک،طالب شاہین کے نام شامل ہیں۔
اس موقع پر ایوانِ صدارت میں تشریف فرما شعرا حضرات نے بھی سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمایا۔ڈاکٹر اشرف آثاری نے کہا کہ ایسی محفلیں اور سیمینار اردو زبان اور شعر و ادب میں روح پھونک دیتے ہیں اس لیے ایسی ادبی تقاریب کا انعقاد ایک امید افزا بات ہے۔ستیش ومل نے نوجوان شعرا اور ناقدین کے حوصلے اور عزم کو سراہتے ہوئے انھیں مبارکباد پیش کی۔انھوں نے کہا کہ یہاں اردو تنقید اور شعر و ادب کی زمین بہت زرخیز رہی اس لیے نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی ایک بڑی سعادت ہے۔رکن تعمیل ارشاد ناظم نذیر نے بھی آخر میں اپنی متاثر کن تقریر سے سامعین کے دل جیت لیے۔
انھوں نے غلام نبی کمار کی ادبی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نوجوانوں کی آمد ایک خوش آئندبات ہے۔انھوں نے اس موقع پر’’ستیش ومل کے نام ایک شام‘‘رکھنے کی بھی تجویز پیش کی جس کا خیر مقدم کیا گیا۔اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ محترمہ مصروفہ قادرنے انجام دیا۔شرکاء میں نور شاہ،جمیل انصاری،ڈاکٹر نذیر احمد کھنڈا،رئیس احمد کمار،بشیر احمد بٹ،منظور احمد کمار،محمد آصف کمار،بشیر اطہر ،عبدالرحمان کمار،شبیر حسین لٹو،الطاف جمیل ندوی کے اسمِ گرامی اہم ہیں۔پروگرام کے اخیر میں مقالہ نگاروں کو اسناد تفویض کی گئیں۔
اس کے علاوہ فاروق شاہین اور فقیر عبدالرحیم شاہ کی شال پوشی کی گئی اورمزید اسناد سے نوازا گیا۔اس سیمینارمیں روزنامہ لازوال جموں، روزنامہ تعمیل ارشاد اور روزنامہ نیا نظریہ بھوپال میڈیا پارٹنر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔