14 مئی تاریخ وفات
اردو، سندھی اور بلوچی کے ممتاز شاعر، شہنشاہ تغزل اور غالب سندھ کا خطاب پانے والی شخصیت فیض بخشاپوری 1924 کو بخشاپور ضلع جیکب آباد ( موجودہ ضلع کشمور ) میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا اصل نام فیض اللہ خان اور والد صاحب کا نام مصری خان تھا ۔ انہوں نے شاعری میں فیض بخشاپوری کا تخلص استعمال کیا اور اسی نام سے مشہور و معروف ہوئے ۔ آپ کا تعلق بلوچ قوم کے ڈومکی( ڈومبکی) قبیلے سے تھا ۔ فیض بخشاپوری کے والد صاحب ایک بہت بڑے زمیندار اور معزز ترین قبائلی شخصیت تھے ۔ فیض صاحب کو بچپن میں تعلیم سے دلچسپی نہیں تھی اس لیئے وہ رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکے تاہم بعد ازاں انہوں نے غیر رسمی تعلیم کے طور پر سندھی عربی اور فارسی کی مناسب تعلیم حاصل کی جبکہ رحیم یار خان سے اردو ادیب کی سند بھی حاصل کی ۔ فیض صاحب تیراندازی ،گھڑ سواری اور شکار کے ماہر تھے ۔ فیض صاحب کو بچپن سے شاعری کا شوق تھا تاہم انہوں نے کسی شاعر کی باضابطہ طور پر شاگردی اختیار نہیں کی ۔ انہوں نے سندھی اور اردو شاعری میں بڑا مقام حاصل کیا ۔ انہوں نے حمد و نعت، سلام، منقبت، غزل، نظم اور رباعیات میں خوب طبع آزمائی کی ان کا شمار پاکستان کے نامور شعراء میں ہوتا تھا ۔ وہ ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے ان کے تعلقات اپنے دور کی بہت بڑی علمی و ادبی اور اور نامور سیاسی اور قبائلی شخصیات سے تھے۔
فیض صاحب کے 4 شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں جن میں 1 شعلہ عشق 2 خمخانہ فیض 3 سر چشمہ فیض 4 گنجینہ فیض شامل ہیں جبکہ فیض بخشاپوری صاحب کے بھتیجے اور روحانی فرزند و شاگرد خاص سابق چیف میونسپل آفیسر نواز علی نواز ڈومکی نے غالب سندھ فیض بخشاپوری اکیڈمی کے زیراہتمام ان کی سندھی اور اردو شاعری پر مشتمل ایک ضخیم کتاب " کلیات فیض " کے نام سے 2010 میں شایع کروا کر ایک بہت بڑا ادبی کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔ نواز علی خان ڈومکی صاحب خود بھی سندھی اور اردو کے ایک بہت اچھے شاعر ہیں ۔ حضرت فیض بخشاپوری کا انتقال 14 مئی 1992 میں ہوا ہے ۔ میرے علم کے مطابق ہمارے خطے میں حضرت فیض بخشاپوری واحد شاعر ہیں جن کی وفات کے بعد آج تک ان کی تاریخ وفات کے موقع پر ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ان کی یاد میں بہت بڑا اردو اور سندھی ادبی کانفرنس اور مشاعرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں پاکستان کے ممتاز ادباء و شعراء اور شاعرات شریک ہوتے ہیں ان کی روح کے ایصال ثواب کےلئے قرآن خوانی اور لنگر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ فیض بخشاپوری صاحب کی یاد میں منعقد ہونے والی ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں شریک ہونے والی علمی اور ادبی شخصیات میں احمد فراز، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، راغب مراد آبادی، تابش دہلوی، محسن بھوپالی، ناصر زیدی، گلنار آفرین، ذکیہ غزل، ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، پروفیسر آفاق صدیقی، حسن رضوی، رعنا ناہید رانا، ثروت سلطانہ، عزیز جبران انصاری، شہزاد عالم شہزاد، مرشد گیلانی، سید اظہر گیلانی، قلندر لکیاری، منظر ایوبی احمد خان مدہوش ڈاکٹر عابد لغاری و دیگر شامل ہیں۔
فیض بخشاپوری کی شاعرانہ اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کو اپنے دور کے بڑے بڑے شعراء نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ اس کا برملا اعتراف بھی کرتے اور ان کی قدر و منزلت بھی کرتے تھے ایسے نامور شعراء میں حضرت جوش ملیح آبادی، سراج الدین ظفر، بہزاد لکھنوی، ماہر القادری، احسان دانش، شورش کاشمیری، راغب مراد آبادی، مولانا کوثر نیازی، آغا صادق، مخدوم محمد زمان طالب المولی، ڈاکٹر شیخ محمد ابراہیم خلیل، سید سردار علی شاہ اور عبدالرحمن غور وغیرہ شامل تھے ۔ جناب راغب مراد آبادی نے تو اپنے اشعار میں فیض بخشاپوری صاحب کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے
ہیں غالب سندھ جاں نثار اردو
کہتا ہے زمانہ دوست دار اردو
غالب بھی جو ہوتے تو یہی فرماتے
" سر چشمہ فیض " شاہکار اردو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کا نشاں ہیں فیض بخشاپوری
شیدائے زباں ہیں فیض بخشاپوری
کہتا ہے انہیں ایک جہاں غالب سندھ
یکتائے زماں ہیں فیض بخشاپوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں فیض بخشاپوری کی شاعری سے چند منتخب اشعار قارئین کے ذوق کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے چمن میں سلیماں ہزارہا بلقیس
عروس گل بھی ہے شہزادی سبا کی طرح
وہ مہروش ہیں مرے ہمنشیں کہ جس کے لیے
یہ مہر و ماہ بھی آوارہ ہیں صبا کی طرح
بچا نہ دست زلیخا سے جامہ یوسف
کہ تار تار ہوا پردہ حیا کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتے رہے ہیں رنج و الم کا شکار ہم
زیب قفس رہے کبھی تزئین دار ہم
کعبے میں سر بہ سجدہ وہ، ہم میکدہ میں چور
اک دیندار شخص ہیں، اک دیندار ہم
اٹھتی نہیں ہے آنکھ جگر جب سے جل گیا
مژگان یار سے ہیں بہت شرمسار ہم
آوارگان عشق کی تہمت کشی نہ پوچھ
پھرتے ہیں فیض کوچہ جاناں میں خوار ہم
ترے کشتے ستمگر خون سے نہلائے جاتے ہیں
ارے توبہ بچارے بے کفن دفنائے جاتے ہیں
تیرے پازیب کی جھنکار ہے ساز دم عیسی
کہ مردے گور سے باہر ہی رقصاں پائے جاتے ہیں
لحد میں شور قیامت، جہاں میں شور جہاں
قرار پائیں گے آخر یہ بے قرار کہاں؟
یہاں تو موج صبا خود ہی پیچ و تاب میں ہے
گرہ کشائی گیسوئے تابدار کہاں ؟
ادب کہ فیض پراگندہ شمع محفل ہے
چراغ خانہ مفلس پہ اعتبار کہاں؟
فیض بخشاپوری