اگلے وقتوں میں، یعنی میری طالبعلمی کے زمانے تک، ادب میں عناصر کا خاصا رواج تھا۔ اردو نثر کے عناصر خمسہ، اردو غزل کے عناصر اربعہ، فلاں صنف کے عناصر ثلاثہ (اگرچہ یہاں صنف ہمیشہ مذکر ہی رہتی تھی)۔ اب یہ روایت کم ہو گئی ہے، شاید اس لیے کہ ہوتے ہوتے سائنس کی معلومات ناقدین ادب تک بھی پہنچ چکی ہیں اور یونانی فلسفے کے چار عناصر کا پول کھل چکا ہے۔ اب تو عناصر سو سے بھی اوپر نکل گئے ہیں چنانچہ کسی صنف ادب کے عناصر میں شمار ہونا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ البتہ واضح رہے کہ آخر میں آنے والے عناصر بھاری اور بیشتر تابکار ہوتے ہیں چنانچہ کسی ادیب (اور خاکم بدہن کسی ادیبہ) پر ان کےاطلاق میں احتیاط لازم ہے۔
خیر، یہ تو سب بر سبیل تذکرہ تھا۔ خبر یہ ہے کی پچھلے چند برسوں میں سوشل میڈیا کی برکت سے اردو شعر میں ایک بار پھر عناصر اربعہ کا ظہور ہوا ہے، اور یہ اپنی انتہائ بد نصیبی کی وجہ سے اس شمار میں آۓ ہیں۔ اقبال، فیض، فراز اور جالب وہ چار بد نصیب شاعر ہیں جن کی تازہ بدکلامی ہر روز بافراط واٹس ایپ اور فیس بک پر شائع ہوتی ہے اور ہاتھوں ہاتھ فارورڈ کی جاتی ہے۔ اس تازہ “کلام” کے لیے صرف دو شرائط ہیں۔ اول یہ کہ وزن سے یکسر عاری ہو۔ دوم یہ کہ مفہوم عامیانہ اور اگر ممکن ہو تو مہمل ہو۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ ان چاروں مرحومین کا تازہ کلام عالم بالا سے موصول ہو رہا ہو، اور جنت میں حرمت حور و شراب اٹھ جانے کے ساتھ ساتھ پابندئ وزن و معنی سے بھی رخصت ہو۔ لیکن یہ بعید از قیاس ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ ابلیس کے وہ کارندے جن کا حضرت اقبال اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے زمین پر ہنوز سرگرم ہیں اور یہ فتنہ پھیلا رہے ہیں۔ اس سے ان شعرا کی ارواح انتہائ اذیت محسوس کرتی ہوں گی۔ اقبال تو یقیناً اب تک قرۃ العین طاہرہ، رومی، حضرت جبریل اور براہ راست اللہ تعالیࣿ سے شکوہ کر چکے ہوں گے کہ “میرا وہ گنہ کیا تھا ہے یہ جس کی مکافات”۔ باقی تین شعرا کیا کر رہے ہیں، یہ راز سربستہ ہے لیکن ممکن ہے انہوں نے اقبال کے تیور دیکھ کے انہی کو اپنا وکیل مقرر کر دیا ہو کہ وہی حریم ذات میں شور اٹھائیں۔
احباب سے مخفی نہوگا کہ یہ صورت حال آج کی نہیں، اس وقت سے چل رہی ہے جب سے داخلی اور خارجی پاکستانیوں کی فیس بک سے شناسائ ہوئ ہے (واٹس ایب بعد کی چیز ہے مگر واللہ کیا چیز ہے)۔ تو سوال یہ ہے کہ آج ہی کیوں اس موضوع کہن پر خامہ فرسائ کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس کے جواب میں پیمانۂ صبر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جو لبریز ہو جایا کرتا ہے۔ آج اتفاق سے ایک فیس بکی دوست کی ٹائم لائن پر موجودہ حکومت کے اکابرین کی ہجو میں لکھا ہوا علامہ اقبال کا قطعۂ نثریہ یکایک نظر سوز ہوا۔ یہی قطعہ اس سے پہلے دوسری شخصیات کی شان میں بھی نظر سے گزر چکا ہے (اقبال اسی لیے آفاقی شاعر کہلاتے ہیں)۔ اقبال سے لاکھ نظریاتی اختلاف سہی، لیکن اردو کے عظیم شاعر پر یہ تہمت طبیعت کو قبول نہ ہوئ۔ بھئی مانا کہ امپورٹڈحکومت کے آنے سے آپ کی دن کی نیند اور راتوں کا چین حرام ہو چکا ہے، کھانا ہضم نہیں ہو رہا، دل کسی انجانے خوف سے دھڑکتا ہے اور مژگاں کی گھٹائیں رات بھر برستیاں ہیں، لیکن کیا ضرور ہے کہ اس غم و غصہ کے اظہار کے لیے بیچارے اقبال کو درمیان میں گھسیٹا جاۓ؟ کیا اس سے آپ کی بات میں وقعت پیدا ہو گی، اور کیا اس کے بغیر نہیں تھی؟ اور اگر اس تحریرِ خفیفہ سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا ہی تھا تو متشاعر کے طور پر اپنا یا کسی فرضی دشمن کا نام لکھ دیتے۔ سمجھنے والے تو سمجھ ہی جاتے۔
اب اس سے یہ نہ سمجھا جاۓ کہ یہ علت سفلی صرف فرقۂ عمرانیہ تک محدود ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ آج کل اس فرقے کے لوگ اس میں زیادہ مبتلا ہیں لیکن دوسرے اوقات میں بمحاورۂ انگلیسی جوتا دوسرے پیر پر بھی رہ چکا ہے۔ بلکہ یہاں تو بہت سے پیر ہیں، جوتا ایک سہی۔ واضح ہو کہ یہاں جوتا سراسر علامت اور استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ وہ جوتا جو چل جایا کرتا ہے دوسری چیز ہے (اس جملۂ معترضہ کی ضرورت اس لیے پیش آئ کہ مبادا جو لوگ اقبال اور اے آر وائی کے اینکر کے کلام میں فرق نہیں کر سکتے وہ جوتے کے بارے میں اس باریک نکتے کو نہ سمجھ سکیں۔)
آخر میں ایک مخلصانہ گزارش پاکستانی قوم سے کرنی ہے۔ بھائ، خدا کے لیے یا تو شعر کی شد بد پیدا کیجیے یا نثر میں اظہار خیال سے کام چلائیے۔ اس میں بھی بڑی وسعت ہے، اور عزت بھی سلامت رہتی ہے (بشرطیکہ ہجے بیشتر درست ہوں)۔ سوال یہ ہے کہ اگر میر و غالب کی دلی کے تانگے والے شعرسمجھ کر پڑھ سکتے تھے تو آج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہم وطن اس صلاحیت سے کیوں محروم ہیں؟ اس کے لیے فن عروض میں تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، صرف ذرا سی توجہ چاہیے۔ دوسرے یہ کہ کم از کم بڑے شاعروں سے منسوب شعر کٹ پیسٹ کرنے سے پہلے ان کے اصل کلام سے کچھ واقفیت تو پیدا کر لیجیے۔ اقبال، فیض، فراز اور جالب سے گھٹیا، بے وزن اور مہمل کلام تو وہی شخص منسوب کر سکتا ہے جو ان کے اصل کلام سے یکسر نابلد ہو۔ تو جناب اگر کوئ لغو تحریر ان بزرگوں کے نام کی آپ کے پیش نظر ہے اور آپ کی انگشتِ شہادت اسے فارورڈ کرنے کے لیے بیتاب ہے تو تین گہری سانسیں لیجیے، دس تک گنیے، بسم اللہ پڑھیے اور صدق دل سے سوچیے کہ خدانخواستہ کیا اقبال یا فیض ایسی چیز لکھ سکتے تھے، یا فراز اور جالب سے یہ سرزد ہو سکتی تھی؟ اور اگر نہیں، تو رہنے دیجیے، نہ پھیلائیے اس عفونت کو۔ شاعروں کی ارواح آپ کو دعائیں دیں گی اور کیا معلوم پچھلی لغزشوں کی بھی بخشش ہو جاۓ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...