اردو صحافت سے وابستہ قاری، قلمکار اور صحافیوں، مدیران کو اردو صحافت کا دو صد سالہ جشن مبارک ہو۔
یہ تحریر علی الصبح ہی پیش کرنے کا ارادہ تھا، مگر برا ہو شہر کی ایک مافیا گینگ کا کہ صبح آنکھ کھلتے ہی صحافتی ایوارڈز کے حوالے سے اس کے چند غلیظ تشہیری حربوں نے قلم کا مزا کڑوا کر ڈالا۔
نوٹ: عموماً ہر اتوار کو اپنے افسانوں کے اولین مجموعہ (زیر اشاعت) کے اقتباسات پیش کرنے کی روایت پر، یہ ناچیز عمل کیے جا رہا تھا (اس بار اس روایت پر عمل کل پیر کو سہی)۔
اردو صحافت کے حوالے سے شہر حیدرآباد (دکن) کے تین معتبر مصنفین کی دلچسپ اور قابل مطالعہ کتب (بشکل پی۔ڈی۔ایف فائل) اس یادگار موقع پر پیش خدمت ہیں۔
(1)
ادب اور صحافت
از: عابد صدیقی
صفحات: تقریباً 100
(2)
حیدرآباد میں اردو صحافت (1857ء تا 1959ء)
از: طیب انصاری
صفحات: 240
(3)
جنوبی ہند کی اردو صحافت (1857ء سے پیشتر)
از: ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال
صفحات: 125
***
پہلی کتاب [ادب اور صحافت] کے مصنف عابد صدیقی (عمر تقریباً 75 سال) حیدرآباد کے ادیب اور صحافی رہے ہیں، دوردرشن کے نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ 1974ء میں ان کی پہلی کتاب “ادب اور صحافت” منظر عام پر آئی تھی جسے آندھرا پردیش اردو اکیڈیمی کی جانب سے ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ کتاب میں شامل مضامین کے عناوین ہیں: اقبال اور بھرتری ہری، اردو نثر میں غالب کے خطوط کی اہمیت، ہندوستانی تہذیب اور امیر خسرو، اردو نثر کا ایک شاہکار – سب رس، اردو ناول – نذیر احمد سے پریم چند تک، ادب اور صحافت، سرسید – اردو کے صحیفہ نگار ادیب، فیچر نگاری۔ کتاب کے ابتدائی مضامین ادبی نوعیت کے ہیں جبکہ دیگر مضامین کا تعلق صحافت سے ہے جس کی وجہ بتاتے ہوئے صاحبِ کتاب لکھتے ہیں کہ ان مضامین کو وہ ادب کے زمرہ سے اس لیے خارج نہیں سمجھتے کیونکہ ادب کا زندگی سے اور زندگی کا صحافت سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔
***
دوسری کتاب [حیدرآباد میں اردو صحافت (1857ء تا 1959ء)] کے مصنف ڈاکٹر طیب انصاری (پیدائش: 23/ستمبر 1941ء) ادیب، نقاد، محقق اور دانشور کی حیثیت سے معروف ہیں اور تقریباً 20 سے زائد کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی شاید چوتھی تصنیف ہے۔ ان کی متعدد کتابوں کو ملک کی مختلف اردو اکیڈمیوں (آندھرا پردیش، کرناٹک، بہار، مغربی بنگال، اترپردیش) نے انعامات سے نوازا ہے۔ زیرنظر کتاب کو بھی آندھرا پردیش، اترپردیش اور کرناٹک اردو اکیڈمیوں کی جانب سے ایوارڈ مل چکا ہے۔ اردو صحافت کے مطالعہ، تحقیق اور جستجو میں دلچسپی رکھنے والے قارئین و محققین کے لیے یہ واقعی میں ایک مفید کتاب ہے کہ اس میں حیدرآباد کے نہ صرف قدیم اخبار و رسائل کا تعارف و تذکرہ شامل ہے بلکہ خواتین و اطفال کے علاوہ سابق ریاست حیدرآباد دکن کے مختلف اضلاع کے اردو رسائل کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ونیز 1857ء سے 1959ء کے دوران حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات کے تہذیبی، سماجی، سیاسی اور ادبی پس منطر کو ایک طویل مگر دلچسپ مقالے کے ذریعے عمدہ طور قلمبند کیا گیا ہے۔
***
تیسری کتاب [جنوبی ہند کی اردو صحافت (1857ء سے پیشتر)] کے مصنف پروفیسر افضل الدین اقبال (پیدائش: اپریل 1944 – وفات: مئی 2008) نے سائنس کے طالب علم ہونے کے باوجود اردو ادب و تحقیق میں اپنی منفرد شناخت قائم کی صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ تقریباً دو دہائی طویل تدریسی خدمات کے بعد آپ جامعہ عثمانیہ سے 2004ء میں سبکدوش ہوئے تھے۔ پروفیسر صاحب کے والد مولوی محمد شرف الدین مرحوم، حیدرآباد کی مشہور و مقبول صنعتی نمائش کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔ پروفیسر افضل الدین اقبال کی تقریباً 15 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے بیشتر کو ملک کی مختلف اردو اکیڈمیوں (آندھرا پردیش، اترپردیش، مغربی بنگال) نے مختلف انعامات سے نوازا۔ زیرنظر کتاب درحقیقت اردو صحافت کا ایک وسیع و وقیع تحقیقی مقالہ ہے جس میں غیرملکی صحافت (چینی، انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، اطالوی، ترکی، عربی، فارسی) کے ساتھ ہندوستان کے چاروں علاقوں (شمال، جنوب، مشرق و مغرب) اور زبانوں (ہندی، بنگالی، تامل، تلگو، مراٹھی، فارسی وغیرہ) کی صحافت کی ایک جامع و مختصر تفصیل پیش کی گئی ہے۔ غیرمنقسم ہندوستان کے مختلف شہروں کی صحافت کا بھی ذکر کیا گیا۔ جنوبی ہند کے قدیم اردو اخبارات اور چھاپہ خانوں کا سیرحاصل تذکرہ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا مرکز ہے۔ سارا مواد مختلف زمروں اور عناوین کے تحت نہایت خوش اسلوبی سے مرتب بھی کیا گیا ہے۔
*****
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...