کسی بھی قوم یا ملک کی اجتماعی احتیاج زبان کو پیدا کرتی اور نشوونما دیتی ہے۔اگر زبان نہ ہو تو سارا معاشرہ گونگا اور بہرا ہوجائے نہ کوئی کسی سے بات کرے نہ سنے۔دنیا کے سارے کام رُک جائیں اور زندگی گزارنی دوبھر ہوجائے۔در اصل زبان ہی انسان کی معاشرتی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ زبان کسی قوم کے فکر و فلسفے، تہذیب اور علم و فن کے اظہار کا وسیلہ ہوتی ہے۔ایک قوم کا مشترک تہذیب و تمدن اس کی مشترکہ زبان کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے جب تک تبادلۂ خیال کا کوئی مشترک ذریعہ نہ ہو جس سے معاشرے کا ہر طبقہ اور مختلف الزبان افراد ایک دوسرے سے مل سکیں اس وقت تک قومی یک جہتی اور قومی کلچر کو فروغ نہیں ہوتا۔اسی قومی اور تہذیبی سطح پر دیکھا جائے تو اردو زبان کا فروغ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ہمارے مشترک اظہار کا ذریعہ ہے۔اور یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ اردو بحیثیت قومی زبان علاقائی زبانوں سے ہر گز متصادم نہیں ہے بلکہ ان کے فروغ اور تحفظ کی امین ہے۔
کوئی بھی بولی زبان کا درجہ اس وقت حاصل کرتی ہے جب وہ ایک رسم الخط رکھتی ہو۔ ڈاکٹر فرمان فتحپوری کہتے ہیں:"رسم الخط سے مراد وہ نقوش و علامات ہیں جنھیں حروف کا نام دیا جاتا ہے اور جن کی مدد سے کسی زبان کی تحریری صورت متعین ہوتی ہے۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زبان کی تحریری صورت کا نام رسم الخط ہے۔" ڈاکٹر سہیل بخاری کے مطابق :" رسم الخط مختلف آوازاں کی تحریری علامتوں کا نظام ہے"۔ ان ہی تعریفوں کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اردو زبان کا رسم الخط جسے " نستعلیق" کہا جاتا ہے دو خطوط کا مجموعہ ہے۔(نسخ اور تعلیق) جس کا موجد عمومی طور پر میر علی تبریزی کو قرار دیا جاتا ہے۔
خطِ نستعلیق بہت خوبصورت اور جاذب نظر خط ہے۔اس خط میں اہلِ عجم کی نفاست اور حسن پرستی جھلکتی ہے۔یہ خط ِ نسخ کی نسبت زیادہ رواں اور پر کشش ہے۔اس کےدائروں کی گولائیوں اور کشش کی پیوند کاری میں جاذبیت اور تناسب ہے،حروف کی ساخت ، نشست اور ان کےجوڑوں کے بندھن، نوکوں اور پلکوں میں خاص حسن ہے، جس کی بنا پر یہ رسم الخط خطاطی کی حدود سے نکل کر نقاشی اور مصوری کے دائرے میں داخل ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے اسے "عروس الخطوط" کا نام دیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں ہمارے طلبہ کا سب سرے بڑا مسئلہ اردو کی تحریر ہے جو انھیں بہت مشکل لگتی ہے اور اس کی نسبت انگریزی یا رومن لکھنا آسان لگتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے اردو کو بہت مشکل بنا کر پیش کیا ہے اگر غور کیا جائے تو اردو لکھنا بہت آسان ہے۔ پہلی بات جو ذہن نشین کرلی جائے وہ یہ کہ اب اردو زبان کے حروف تہجی کی تعداد چوّن (۵۴) ہے۔اور ہمارے قومی ادارے مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے مختص کردی گئی ہے۔ لہٰذا ہم اس کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے پرانے نصابات سے آگے بڑھ جائیں،اور اپنے بچوں کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں۔نجی اسکولوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اب تک اردو کے قاعدے پرانی ترتیب کے ساتھ ہی پڑھائے جا رہے ہیں جنھیں فوری تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔( نیز اسکول مالکان اور اس میں موجود اردو کے اساتذہ اس بات کو ماننے تک سے انکاری ہیں کہ جو بات وہ پڑھا رہے ہیں اب غلط ہے۔) اکثر جب طلبہ سے سوال کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ اردو میں حروف تہجی بہت زیادہ ہیں،انگریزی میں ہم بچوں کو 26 حرف بڑے اور 26 چھوٹے پوری باون (52) اشکال سکھاتے ہیں۔ تو اردو میں چوّن (54) اشکال سکھانا کیوں مشکل ہے جب کہ بہت سے حروف کی اشکال ملتی جلتی ہوتی ہیں ۔اگر غور کیا جائے تو اردو لکھنا اور بچوں کو سکھانا آسان ہے بشرط یہ کہ اسے مشکل نہ بنا دیا جائے۔ہر زبان میں کچھ محاسن اور معائب ہوتے ہیں اور ہر قوم اپنے رسم الخط سے قلبی اور جذباتی لگاؤ رکھتی ہے کیوں کہ رسم الخط اس کی تہذیبی و ثقافتی اساس کا امین اور تاریخی اور علمی روایات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔اردو کا رسم الخط بھی ہمارے تشخص کی علامت ، ہماری پہچان ہے۔
اس رسم الخط کی خوبیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1۔بہت سے حروف ہم شکل اور باہم مشابہ ہیں۔جن میں نقطوں یا علامات کا خفیف سے فرق ہے ۔صرف ایک تہائی بنیادی حرف سیکھ لیں تو باقی حروف کی شناخت اور لکھائی آسان ہوجاتی ہے۔
2۔اردو رسم الخط اپنی ترکیبی خصوصیات کی بنا پر مختصر نویسی یعنی شارٹ ہینڈ ہے۔اس کی اتصالی خوبی کی وجہ سے اکثر الفاظ بیک جنبشِ قلم لکھے جا سکتے ہیں اور بار بار قلم اٹھانا نہیں پڑتا،جیسا کہ ناگری اور رومن وغیرہ میں ہوتا ہے۔
3۔ یہ جگہ بھی کم گھیرتا ہے ، جس کے سبب تحریر و طباعت میں وقت اور اخراجات کی بچت ہوتی ہے۔
4۔ اردو رسم الخط خوشنما اور مختصر ہونے کی وجہ سے نظر کی تسکین کا باعث بنتا ہے۔اس کی اتصالی خاصیت کی بدولت ایک نظر میں پورے جملے کو پڑھا جاسکتا ہے۔اس طرح عبارت خوانی میں سہولت رہتی ہے۔
5۔اردو میں ساقطے ( سائیلنٹ ورڈز) زیادہ نہیں ہیں۔ساقط الصور حرف صرف چار ہیں۔تین مصوتے ا ، و ، ی اور ایک مصمتہ ل، جو بعض تراکیب میں نہیں پڑھے جاتے ۔جبکہ دوسری زبانوں خاس طور پر یورپ کی زبانوں میں ساقطے عام ہیں۔
6۔اردو میں حروف ہجا متغیرات الصوت نہیں ہیں۔ اس کے بر عکس ہندی، انگریزی، فرنچ ، جرمن، روسی ، ہسپانوی میں ایک حرف کئی کئی آوازیں دیتا ہے۔
7۔حروفِ تہجی ریاضیاتی اصول پر ہیں۔ریاضیات کے بنیادی اصول پانچ ہیں(۱) نقطہ ، (۲) خط یا لکیر (۳)زاویہ ، (۴)دائرہ ، (۵) پیمائش یا ساخت۔
8۔اردو میں لفظ کی ابتدا حرکتِ اعرابی سے اور خاتمہ سکون پر ہوتا ہے۔یہ امرِ طبعی کے عین مطابق ہے جس سے تلفظ میں آسانی ہوتی ہے۔
9۔یہ جامع الاصوات رسم الخط ہے ۔دنیا کی تقریباً بڑی بڑی زبانوں کی تمام اوازیں اس میں شامل ہیں۔اسی لیے اردو بولنے والا تمام بڑی زبانوں کو ان کے لہجے اورتلفظ کے مطابق ادا کرسکتا ہے۔
10۔ادغام کا عمل بھی اردو کی خاصیت ہے۔ جو اعراب تشدید یعنی مرکب علامت مصوتہ کے ذریعہ ہوتا ہے جس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ تحریر و کتابت میں حروف علت و صحیح کی کثرت اور تکرار کا عیب نہیں پیدا ہوتا۔
11۔ اردو رسم الخط ایک آفاقی رسم الخط ہے۔یہ نہ صرف مسلم ممالک میں بلکہ یورپ اور دوسرے ممالک میں بھی جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور قرآن پاک پڑھا جاتا ہے۔وہاں یہ رسم الخط نہ صرف پڑھااور سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ ہمارے روابط کو استحکام بخشتا ہے۔
اردو رسم الخط پر کچھ اعتراضات بھی ہیں جن پر کسی وقت تفصیل سے روشنی ڈالیں گے اور ان کا دفاع بھی کریں گے۔ فی الحال تو اگر تدریس کے عمل کے دوران طلبہ کو اردو رسم الخط کی خوبیاں اور سہولتوں سے آگاہ کیا جائے تو شاید انھیں اردو لکھنے میں اتنی بیزاری نہ ہو۔ اور وہ اپنی زبان پڑھنے اور لکھنے میں رواں ہوجائیں گے۔ اردو رسم الخط ایک بہت دلچسپ مضمون ہے بشرط یہ کہ اسے دلچسپی سے پڑھایا جائے۔
(نوٹ: تفصیلات اور حوالوں کے لیے دیکھیے)
۱۔سہیل بخاری،ڈاکٹر،"اردو رسم الخط کے بنیادی مباحث"، (اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان)، ۱۹۸۸ء
۲۔رشید حسن خان،"اردو املا"، (لاہور: مجلسِ ترقیِ ادب)، ۲۰۰۷ء
۳۔فرمان فتح پوری،"اردو املا اور رسم الخط"، (لاہور: الوقار پبلی کیشنز)، ۲۰۰۴ء
۴۔فوزیہ اسلم، عبدالستار ملک، " اردو رسم الخط میں تبدیلی کے مباحث" مضمون مشمولہ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...