اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو نظم و نثر میں غیرعلامتی یعنی سادہ اسلوب کی اپنی ایک کشش ہے۔ سادہ بیانیہ کے افسانے میں اسلوب زبان، منظر نگاری اور دیگر تکنیکی عوامل افسانے کے بطن سے ابھرتے ہیں۔ جو نفس مضمون سے پیوست رہتے ہیں۔ اور متن کی بامعنی ترسیل میں معاون بنتے ہیں۔ سادہ بیانیہ یا سادہ اسلوب ایک ادیب کے خیالات کی قاری کے ذہن تک ترسیل کا سب سے زیادہ موثر عام فہم اور کامیاب ترین طریقہ کار ہے۔ اسی طرح شاعری میں سادہ پیرائے میں کہا گیا خوبصورت شعر زیادہ موثر ہوتا ہے کیونکہ ہر خاص و عام کو سمجھ آتا ہے۔
لیکن علامتی تحریر اپنے اندر دلفریب قابل فہم ابہام کے ساتھ معانی کا جہاں آباد رکھتی ہے۔ اصل متن اپنی جگہ رہتا ہے اور تفہیم وتفسیر کے ہزاروں رنگ بکھر جاتے ہیں۔ جو قاری کے ذہن کے کینوس پر اس کی اپنی سوچ کے برش سے پینٹ ہوتے ہیں۔
لیکن بسا اوقات غیر ضروری ابہام اور کسی ایسے استعارے و کنایہ کا استعمال جوکہ صحیح سمت رہنمائی نہیں کر سکتا۔ جس کے باعث قاری علامتی تحریر کی تفہیم نہیں کر پاتا اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا ہے، بہت غیرصحت مند ہے اور علامت کی صنف کے ساتھ مذاق ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج کل جہاں اکثر ادباء علامتی اور نیم علامتی اندازِ تحریر میں بہت کشش محسوس کر رہے ہیں، وہیں ادباء کی ایک بھاری تعداد علامت کو گنجلک اور ناقابلِ فہم گردانتی ہے۔
لیکن ہر علامتی تحریر سے صرفِ نظر کرنا یا اس کو غیر اہم اور غیرضروری قرار دینا بعض ادباء اور نقاد کا شیوہ ہے۔ دراصل چند حقائق ہیں جن سے صرفِ نظر ایسی سوچ کے پنپنے کا سبب ہے۔ جیسے کہ سیاسی و ملکی حالات اور تاریخی واقعات سے بےخبری، دوسرے سہل پسندی کے باعث یہ سوچنا کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے کسی تگ و دو کی کیا ضرورت ہے وغیرہ
اگر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو علامت ہر مطلق العنان حکومت کے دور میں ابھر کر سامنے آئی۔ جب جب انسانوں سے زبان اور قلم کی آزادی چھینی گئی، لوگوں نے علامتوں کے ذریعے مافی الضمیر بیان کرنا شروع کر دیا۔
علامت کے لغوی معنی ہیں نشان یا سُراغ۔ یعنی علامت کسی دوسری چیز کا سراغ یا پتہ مہیا کرتی ہے اور کسی دوسری چیز مسئلے یا نکتے کی وسیع معنوں میں نشاندہی کرتی ہے۔ اسی لیے قلم یا زبانی لفظوں کا سہارا لے کر ایسی بات کی نشاندہی کی جاتی ہے جسے عام لفظوں میں کہنا قابل گرفت ہو یا اس کی اجازت نہ ہو۔ اکثر ادباء اسے ایک صنعت کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ڈھکے چھپے لفظوں میں مافی الضمیر بیان کرکے اپنی قلم پر گرفت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ بلکہ جدتِ خیال کبھی کبھی بہت خُوش کن لگتی ہے۔
ادبی نکتہ نظر سے بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علامت کو نثر اور شاعری بلکہ سبھی ادبی اصناف سے جدا کرنا ناممکن ہے.
علامت اور اشارہ زبان کے اجزاء ہیں۔ برٹن رُسل Burton Russell کے مطابق علامتیں دو قسم کی ہوتی ہیں:
1۔ فطری علامتیں (Natural Symbols)
2۔ غیرفطری یعنی مصنوعی علامتیں(Artificial Symbol)
ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ "علامت، شے کو اس کے مخفی تصور سے منسلک کرتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ جب شے علامت کا روپ اختیار کرتی ہے تو قاری کے ذہن کو اپنے مخفی تصور کی طرف موڑ دیتی ہے۔ جب شاعر کسی شے یا لفظ کو علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اپنی تخلیقی جَست کی مدد سے اس شے اور اس کے مخفی معنی میں ایک ربط دریافت کرتا ہے۔ شاعر کا سارا جمالیاتی حظ اس کی اِسی جَست کے باعث ہے۔‘‘
ڈاکٹر خالد اقبال یاسر نے اپنی کتاب "ادبی و فکری تحریکات اور اقبال" باب سوئم، مطبوعہ اقبال اکیڈمی پاکستان 1940 میں علامتوں کو ان کے ابلاغ اورمعنویت کی بنا پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
1۔ روایتی علامتیں (Conventional Symbols)
2۔ اتفاقی علامتیں (Accidental Symbols)
3۔ آفاقی علامتیں (Universal Symbols)
لیکن غور کیا جائے تو اتفاقی یا حادثاتی علامت کو عام قاری اتفاقی کا نام نہیں دے سکتا۔ اتفاق کا تعلق صرف ادیب کی اپنی سوچ تک محدود ہے۔ صرف اسے علم ہوتا ہے کہ یہ اتفاقاً علامت میں تبدیل ہوئی۔ قاری کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کیونکہ ادیب کہہ سکتا ہے کہ میری وہی سوچ ہے جو کہ قاری کی ہے۔ صرف اسی صورت میں اسے اتفاقی تسلیم کیا جا سکتا ہے جب ادیب خود اس کے اتفاقی یا حادثاتی ہونے کا اقرار کرے۔ یعنی ادیب یہ بات مان لے کہ میرا مطلب تو کچھ اور تھا یہاں کچھ اور ہی نکل آیا ہے۔ بسا اوقات اتفاقی یا حادثاتی علامت ادیب کی تحریر کی قدروقیمت بڑھا دیتی ہے۔
میرے نکتہ نظر سے بلکہ علامتوں کی اقسام بیانیہ کے اظہار کے حساب سے چار طرح کی ہو سکتی ہیں:
1. روایتی علامتیں(Conventional Symbols)
2. آفاقی علامتیں یا نشانات اور ٹوکن(Universal Symbols)
3۔ مصنوعی علامتیں (Artificial Symbols)
4.حقیقی یا قدرتی علامتیں (Orignal or Natural Symbols)
1۔ روایتی علامتیں وہ ہیں جو عام بول چال میں بھی رائج ہیں ۔ یہ نسل در نسل سفر کرتی ہیں بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل میں من وعن منتقل ہوتی ہیں۔ان روایتوں کا تعلق زبان کی تشکیل سے ہے۔ جیسے کہ چیزوں کے نام حالتوں کے اظہار وغیرہ۔ مثال کے طور پر عربی، اردو اور فارسی شاعری میں منجدھار و کنارہ، گل و بلبل، برق و آشیاں، دشت و جنوں، باد و باراں وغیرہ روایتی علامتیں ہیں۔
2۔ آفاقی علامتیں وہ نشانات اور اشارے ہیں جو کہ کسی بھی چیز کی نمائندگی کے لیے دنیا بھر میں رائج ہیں۔ اس کی سب سے پہلی اور بڑی مثال قومی جھنڈا ہے۔ اگر آپ ایک ہجوم میں کھڑے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں پاکستانی یا یا برطانوی یا امریکن جھنڈا ہے تو آپ کو اسی قومیت اور ملک کا نمائندہ سمجھا جائے گا جس کا کہ جھنڈا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علامت اور اس چیز میں ایک مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ کیونکہ علامت اس چیز کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے۔
آفاقی سطح پر علامت کے لیے نشانات اور ٹوکن کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ امن کے لیے فاختہ کا نشان اور تین حصوں میں تقیسم دائرہ ☮ جو کہ دھات یا کسی بھی میٹیریل کی شکل میں یا قلم اور برش کا مرہون منت ہے۔ سفید جھنڈا امن کا نشان ہے ۔ اسے پرانے زمانے کی دست با دست جنگوں میں امن کے نشان اور جنگ میں صلح کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی طرح خطرے کے اظہار کے لیے کھوپڑی ☠ کا نشان بنایا جاتا ہے۔ محبت کے لیے دل اور دوستی کی مسکراہٹ علامت ہے۔
3۔ غیر فطری یا مصنوعی علامت دو حقیقتوں کے درمیان باہمی ربط کو ظاہر کرتی ہے۔ جیسے کہ بازو پر کالی پٹی باندھنا غم و سوگ اور احتجاج کو ظاہر کرتا ہے۔ سوگ کا اظہار سیاہی یعنی اندھیرے یا سیاہ رنگ سے کرنا۔ قومی پرچم کو سرنگوں کرنا۔ قومی پرچم اور سوگ کے مابین تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔یعنی پوری قوم کی طرف سے سوگ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ان مصنوعی علامات کو سمبل یعنی اشارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
4۔ حقیقی یا قدرتی علامتیں فطرت سے جڑی ہیں۔ فطری علامت حقیقت کی من وعن عکاسی کرتی ہے۔ شاید ان چند مثالوں سے فطری کا تصور واضح ہو جائے۔ جیسے کہ شام کے وقت گھنگھور گھٹاؤں کا وجود اگلی صبح بارش کی نوید ہے۔ ہوا میں سوندھی مٹی کی خوشبو بارش کے امکانات کی گواہ ہے۔ آنکھ کی سرخی ضبطِ کمال کا اشارہ ہے یا گریہ کی شہادت ہے یا آشوبِ چشم کے سبب ہے۔ بدن کا تپنا بخار کی علامت ہے۔ یہ سب مثالیں فطری علامتوں کے زمرے میں آتی ہیں۔
علامت کا استعمال ادب میں نہ صرف ادبی مواد کی خوبصورتی کا باعث ہے بلکہ اگر عقل و شعور کو ساتھ لے کر چلیں تو ہمیں مستقبل میں پیش رفت میں آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بھی ہو سکتا ہے یعنی بادل گِھر آنے سے صبح بارش تو ہوگی لیکن اب صبح کو چھتری لے کر جانا بہتر ہے تاکہ بارش میں بھیگنے سے بچا جا سکے یعنی حفظِ ماتقدم۔ ہمارے ہاں ادباء علامت کی خوبصورتی سے تو آگاہ ہیں۔ علامت کا استعمال بھی بخوبی کرتے ہیں۔ ماضی کے قصے اور کہانیاں بھی بیان کرتے ہیں لیکن اس بات کو قبول نہیں کر پاتے یا بیشتر اوقات سمجھ نہیں پاتے کہ ان علامات و اشارات کی روشنی میں کردار و عمل میں خاطرخواہ تبدیلی لا کر بہتری کی راہیں متعین کی جا سکتی ہیں۔
علامت میں خاص واقعہ یا کسی خاص حادثے کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ کسی خاص احساس کو بھی علامت کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ علامتی تحریر میں غیرضروری اشعارے ابہام کی طرف لے جاتے ہیں ایسا ابہام جس کے آگے بالکل اندھیرا ہے۔ ایسی تحریر علامتی نہیں بلکہ نہ حل ہونے والی پہیلی بن جاتی ہے جو ادب کے ساتھ اور قاری کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ علامت کو سمجھنے کے لیے کوئی نہ کوئی ہنٹ یا اشارہ اصل واقعہ یا کہانی تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوتا ہے جیسے کہ علامت میں کسی خاص تعداد یا نمبر یا نام یا جگہ کی نشاندہی کرنا۔ علامتی تحریر اشارے کی منتظر ہوتی ہے۔ کچھ اشارہ ملے تو پرتیں کھلتی چلی جائیں۔ کوئی خاص عدد یا نام کسی خاص واقعہ کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ نمبر ایسے ہیں جو اردو محاوروں میں استعمال کیے گئے ہیں۔ وہ محاورے کی خصوصیت لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ دو چار دن کی بات تھی، تین میں نہ تیرہ میں، نو دو گیارہ ہو جاؤ، دسیوں میں، سینکڑوں میں، ہزاروں میں، لاکھوں میں، کروڑوں میں، ہزار بار سو بار۔ تین پانچ کرنا، چھٹی کا دودھ یاد دلانا، دو اور دو چار کرنا ، آنکھیں چار کرنا وغیرہ۔ یہ اعداد محاوروں کے لیے تو صحیح ہیں لیکن یہ کسی خاص چیز کی علامت نہیں ہیں۔ کچھ اعداد صفات میں آتے ہیں جیسے کہ سات ستاروں کا جھرمٹ, بارہ من کی دھوبن وغیرہ اور کچھ رسومات میں آتے ہیں۔ جیسے کہ سات سہاگنیں۔
لیکن خاص تعداد استعمال کرنے کا مطلب کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرنا ہے جیسے کہ بہتر( 72) شہدا کا ذکر واقعہ کربلا کی طرف اشارہ ہے اور تین سو تیرہ (313) مجاہدین کا لشکر جنگ بدر کا استعارہ ہیں۔
اسی طرح نمبر کے علاوہ کسی واقعہ یا کہانی سے جڑے خاص الفاظ جو اصل واقعے کو نظر کے سامنے لے آئیں۔ جیسے کہ دودھ کی نہر کھودنے کے واقعہ سے محبت کی لازوال داستان"شیریں فرہاد"، چناب میں کچا گھڑا ڈالنے سے محبت کی لوک کہانی"سوہنی مہینوال" اور بے انتہا طاقت اور بالوں کی طاقت کے حوالے سے "حضرت شمعون اور حضرت نائلہ کا واقعہ" ایک دم ذہن میں آ جاتا ہے۔
علامت محض لفاظی یعنی لفظوں کا کھیل نہیں ہے۔ شاعری اور نثر میں نئے اسلوب کی تلاش اور اظہار کے نئے پیرائے کی جستجو کسی شاعر یا ادیب کو انٹلیکچویل یا منفرد ثابت نہیں کرتی بلکہ یہ ذہن میں در آنے والے ہمہ گیر وجدان کے نکاس کا ذریعہ اور کلی تجزیے کو انتہائے علم کا ٹچ دیتے ہوئے صفحۂ قرطاس پہ بکھیرنے کی کوشش کا نام ہے۔ علامت میں جہاں عقل و شعور کارفرما نظر آتا ہے وہیں علامت نئے سیاق میں جلوہ گر ہو کر نیا مفہوم خلق کرتی ہے۔ علامت نگاری خیال کی وہ ترسیلی شکل ہے جو حقیقت کی پرتوں کو کھولنے کے ساتھ ساتھ مفروضوں کے قلعے تعمیر کرتی ہے۔
اعلی تخیل ،استعارات و تشبیہات اور کنایہ علامت کا حسن ہی نہیں بلکہ اہم ستون ہیں۔
علامت میں استعارہ کا استعمال اس کی معنویت کو متناسب ابہام مہیا کرتا ہے۔ لیکن ابہام کے باوجود ایک متن مسلم ہوتا ہے۔ استعارہ علامت کا ایسا ستون ہے جس میں گنجینہ معانی کا طلسم قید ہے۔
علامتی افسانے میں علامتیں، استعارے اور رمز و کنایے پڑھنے والے کے لیے کشش پیدا کرتے ہیں۔ یہ ایک riddle یا معمے کی طرح دکھائی دیتا ہے کیونکہ علامت و استعارہ اور رمز و کنایہ کی کلید جب تک ہاتھ نہیں لگتی، افسانے کے رموز نہیں کھلتے۔ لیکن جب آئینے سے گرد ہٹ جاتی ہے اور تمام غیر شفاف رکاوٹیں عبور کر لی جاتی ہیں تو متن اظہر من الشمس ہو جاتا ہے۔
راست بیانیہ کا اپنا ایک حسن اور حیثیت مسلم ہے وہ خیال آفرینی اور بلند فکر کے سبب ادب میں اعلٰی درجے پر فائز ہوتا ہے لیکن علامت واستعارہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ استعارات اور علامات فکر کو جلا بخشتے ہیں اور معانی کے نئے در وا ہوتے ہیں یعنی کثیرالجہت مطالب اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بات ایک بار پھر دوہرانے کی ضرورت ہے تاکہ ذہن نشیں ہو جائے کہ بادشاہِ وقت کے خوف سے یا معاشرتی دباؤ کے سبب جو بات عام پیرائے میں بیان نہیں کی جا سکتی علامتوں کے ذریعے آسانی سے کہ دی جاتی ہے لیکن علامتوں کا بے جا استعمال کرکے متن کو مبہم بلکہ منہدم کرکے ایک ناقابلِ فہم سانچہ تیار کرنا قاری اور ادب کے ساتھ مذاق ہے۔
بسااوقات الفاظ کے پیچ و خم اور بھاری اصطلاحات و تشبیہات اور مشکل استعارے میں گم تحریریں خیال کی بے ساختگی اور فطری بہاؤ کو روک دیتی ہیں۔ اور قاری علامتی کو بھی تجریدی گردان کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ علامتی اور تجریدی کا فرق معلوم نہ ہو تو ادیب اور قاری ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ تجریدی مکمل طور پر لاشعوری برقی عوامل کا پیش خیمہ ہے، جس کا کوئی واضح انجام اخذ کرنا عام فہم انسان کے بس کا نہیں۔ یہ سررئیل ازم کا شاخسانہ ہے۔
کہانی کا کوئی منطقی انجام نہ ہو تو وہ علامتی نہیں ہوتی۔ علامتی افسانے، افسانچے یا مائیکرو فکشن میں ایک کہانی کا پایا جانا ضروری ہے۔ پھر تشبیہات واستعارات اور علامات کا استعمال کرکے اس میں دلکش لیکن قابلِ فہم ابہام پیدا کیا جائے۔ لیکن قطعی ابہام جو تحریر کو ناقابلِ فہم بنا دے، سے گریز بہتر ہے۔ ایسا ابہام تحریر کو ایک گنجلک الفاظ کا گورکھ دھندہ بنا دیتا ہے۔ اگر تحریر میں قطعی ابہام در آئے تو تخلیق تشکیک کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ ایسی قطعی ابہام کی حامل تحریر مصنف کے ذاتی کتھارسس کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
تجریدی میں عموماً انجام نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کہانی کا سرا ملتا ہے, تحریر کو بمعہ انجام منجدھار میں قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ چاہے جو اخذ کرے۔
"علامت نگاری"، اور "لفاظی" یعنی دیدہ زیب اور خوبصورت الفاظ کو ایک پیرہ گراف میں جمع کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ کسی کہانی میں دقیق اسلوب کے ذریعے الجھاؤ پیدا کرنا علامت نگاری نہیں۔ اور دقیق اسلوب کی حامل تحریر کو کسی منطقی کہانی سے محروم رکھنا بھی علامت نہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مخصوص الفاظ کے چناؤ کو علامت سے ملزوم سمجھ کر سادہ اسلوبِ تحریر رد کرنا غلط سوچ ہے۔ سادہ اسلوبِ تحریر کا اپنا لطف ہے۔ اسے ادب سے خارج کیا جا سکتا ہے نہ علامت کو اس پر فوقیت دی جا سکتی ہے۔
شعور اور لاشعور کا ادبی تخلیق پر بہت اثر پڑتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے فرائڈ کے مطابق اشاری عمل غیرمعقولیت اور غیرشعوری میلانات کا نتیجہ ہے اور ہمارے ادباء اور نقاد زیادہ تر فرائڈ کے نظریات سے متاثر نظر آتے ہیں. ایک طبقے نے تو اسے فرائڈ کے نظریۂ خواب سے نتھی کرکے علامتی اور اشارتی خیال کو تعبیرِ خواب کے ذمرے میں ڈال دیا۔ لاشعور کیا ہے؟ ہماری ناآسودہ خواہشات اور ناقابلِ اظہار حسرتوں کا منبہ جن کو مختلف پیرائے میں مختلف مہذب لبادے میں اس صورت میں منظرِعام پر لایا جاتا ہے کہ معاشرے کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اسے ہم تجریدی کا نام دیتے ہیں۔ علامت کیا ہے؟ ایک ادیب کسی خاص واقعہ یا کسی نظام کے خلاف اٹھائی گئی آواز کو اپنی تخلیق میں ڈھکے چھپکے الفاظ میں بیان کرنے کے لیے اشاروں، کنایوں، استعاروں اور تشبیہات کا جامہ یا لبادہ پہناتا ہے، علامت اسی لبادے کا نام ہے۔