چار سو جلوۂ لَولَاکَ لَما رقص میں ہے
والقلم ! سلسلۂ ارض و سما رقص میں ہے
لیلة القدر میں خورشید بکف ہے جبریلؑ
جبل النُور پہ خود نورِ ہدیٰ رقص میں ہے
صبحِ تہذیبِ طریقت کی اذاں سے پہلے
ہمہ تن کار گہِ قدر و قضا رقص میں ہے
عرشِ اعیان کی لے فرش ِزمیں تک پہنچی
سازِ اقرا پہ شبستانِ حرا رقص میں ہے
وجد میں عالمِ امکاں ہی نہیں ہے ، والعصر
اپنے نغمات پہ خود نغمہ سرا رقص میں ہے
عالمِ وجد میں ہے ارضِ فلسطین و حجاز
آج پھر وادیٔ مروا و صفا رقص میں ہے
قلبِ امیّ پہ اتر آئی کتابِ محفوظ
للہ الحمد براہیمی دعا رقص میں ہے
ذات سے اٹھ گئے جب سارے حجابات ِصفات
دیکھا ” اِلا “ کو کہ درپردۂ لا رقص میں ہے
جس کو ہونا ہے شرف یابِ ردائے تطہیر
خرقَہ فقر پہ راضی بہ رضا رقص میں ہے
کافتہ الناس ہے سرچشمۂ عرفانِ وجود
دوشِ رحمت پہ رسالت کی رِدا رقص میں ہے
جھوم اٹھا تھا جسے دیکھ کے خود نورِ ازل
آج وہ حسنِ ازل صلِ علیٰ رقص میں ہے