اس سے پہلے
پھول باسی ہو جائیں
وہ
مجھے مرا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں
وہ میری میت پہ
مرے ہوئے پھول نہیں ڈالنا چاہتے
مگر مجھ پہ
مرے ہوئے نوحے لکھ لکھ کر
مجھ سے جوڑے رشتے پہ تھوکتے
لعنت بیجھتے
کرلاتی ہوئی آواز میں بین کرنا چاہتے ہیں
میری ٹکٹکی پہ بندھی زندگی
ان کہی آہنی ضربوں سے
ہمیشہ خونچکاں رہی ہے
لیکن میں نے کبھی
بڑھ کر دروازہ نہیں کھولا
لیکن اب
ٹوٹی دیوار میرے کمرے تک آگئی ہے
تماش بین پونوں میں روٹیاں باندھے
مجھے سنگسار ہوتا دیکھنے کے لیے
جوق در جوق آرہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
" پانی کے چند گھونٹ ملیں گے؟"
میں نے
قلم نما خنجر پکڑے قاتل سے پوچھا
"ابھی کچھ دیر انتظار کرو
مرنے سے پہلے تمہاری آخری
خواہش پوری کردی جائے گی"
قاتل نے قلم نما خنجر سے
قصیدہ لکھتے ہوئے کہا
" تم
مجھے کب مارنا شروع کرو گے؟"
" آغاز ہو ہو چکا ہے
مکمل بھی مار دیں گے
مجھے قصیدہ مکمل کرنے دو"
قاتل نے قلم نما خنجر
ایک طرف رکھتے کہا
" ایک بات تو بتاو
تم کالی سیاہ
زمین کی کوکھ سے پیدا ہو کر
روشن نظمیں کیسے لکھ لیتے ہو؟
اور یہ بھی بتاو
کیسی موت پسند کرو گے؟"
" میرے اندر
سمندر کی آخری تہہ کی مچھلیاں ہیں
جن کی آنکھیں نہیں ہوتی
مگر جو تمہارے
اس قلم نما خنجر کی دھار سے زیادہ
روشن ہوتی ہیں
اور ۔۔۔۔۔۔
میں بہت آہستہ آہستہ مرنا چاہتا ہوں
تاکہ تم کو ہمبا سکوں"
میرا جواب سن کر
روٹی سے خالی پونے پکڑے تماش بین
زور دار قہقہے لگانے لگے
اور
قاتل کے قلم نما نوک دار خنجر پہ
کھسیانی ہنسی معلق ہو کر رہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ فطرت سوہان نے محمود درویش کی نظم
They want to see medead
سے متاثر ہو کر ایک نظم لکھی" آخری نظم" اور دونوں مجھے میل کر دیں۔ میں دونوں نظموں سے اتنا متاثر ہوا کہ یہ نظم لکھ دی