نظم نگار : فہمیدہ ریاض
انتخاب کلام : ظفر معین بلے جعفری
بارہ ، تیرہ برس پہلے کی بات ہے جب صدیقہ بیگم کراچی آئیں۔ کئی ادیبوں اور شاعروں نے ان کے اعزاز میں ضیافتوں کا اہتمام کیا۔ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا، بلکہ انھوں نے اپنے تمام ادبی پروگراموں کو میری مشاورت سے حتمی شکل دی۔ ہر محفل میں انھوں نے مجھے ساتھ ساتھ رکھا۔ صدیقہ بیگم کے اسی دورہ کراچی کے دوران ہی کا ایک دل چسپ اور یادگار واقعہ یاد آرہا ہے۔ کہیں سے حضرت مشتاق احمد یوسفی صاحب علیگ کو بھنک پڑ گئی کہ محترمہ صدیقہ بیگم آئی ہوئی ہیں۔ اللہ جانے کیسے اور کس سے؟ انھوں نے مجھ سے رابطے کا نمبر حاصل کیا۔ ان کا جب فون آیا اور میں نے السلام علیکم کہہ کر فون ریسیو کیا تو انھوں نے اپنے دھیمے لہجے میں فرمایا وعلیکم السلام۔کیا ہماری ظفر معین بلے صاحب سے بات ہوسکے گی؟ میں نے برجستہ عرض کیا جی میں ظفرمعین بلے ہی عرض کررہا ہوں۔ اس سے قبل کہ میں کچھ اور کہہ پاتا۔ دوسری طرف سے آواز آئی کہ مشتاق احمد یوسفی آپ سے مخاطب ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ لاہور سے ماہنامہ ادبِ لطیف کی چیف ایڈیٹر صدیقہ بیگم کراچی تشریف لائی ہوئی ہیں اور میزبانی کا اعزاز آپ کو حاصل ہے۔ لہذا ہم نے مہمان کے بجائے براہ راست میزبان سے رابطہ کیا ہے۔ ہم صدیقہ بیگم صاحبہ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں اور یہ آپ کی معاونت کے بنا ممکن بھی نہیں۔ آپ صدیقہ بیگم کو ہمارا سلام عرض کریں اور ہماری خواہش بھی اپنے الفاظ میں ان تک پہنچا دیں۔ میں نے بہ صد احترام عرض کیا ضرور ضرور لیکن۔۔۔۔ شام پانچ بجے تک ہماری تدریسی مصروفیات ہیں، اس کے بعد صدیقہ بیگم امی کی خدمت میں آپ کا سلام بھی اور آپ کا حکم پیش کردوں گا۔۔ ظفر صاحب آپ نے خواہش اور گزارش کو حکم میں تبدیل کردیا۔ چلیے۔ ہم آپ کے فون کے منتظر رہیں گے، شام چھ بجے کے بعد۔ شام کو ہم نے محترمہ صدیقہ بیگم کو تمام ماجرا سنا ڈالا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے ہی موبائل سے ان کا فون نمبر ملاؤ اور میری بات کرادو۔ ہم نے بھی فوراً ہی یوسفی صاحب کا فون نمبر ملایا اور بعد از سلام عرض کیا کہ آپ کا حکم صدیقہ بیگم تک پہنچا دیا ہے اور وہ آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہیں۔ یوسفی صاحب نے فرمایا جی جی ضرور بات کروائیے۔ قریباً دس بارہ منٹ ان دونوں کی گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد صدیقہ بیگم نے فرمایا منڈیا تیار رئیں کل زہرہ نگاہ کے گھر جانا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب کو بھی میں نے وہیں ملنے کے لیے بلوا لیا ہے۔ کل شام ٹھیک سات بجے تک پہنچنا ہے وہاں۔ اگلے روز ہم التمش ڈینٹل ہاسپٹل کالج کے عقب میں گزری لین پر واقع زہرا نگاہ آپا کی اقامت گاہ پر پہنچے۔ یوسفی صاحب کے ساتھ ایک خاتون ڈاکٹر عائشہ بھی آئی تھیں۔ کم و بیش ڈھائی تین گھنٹے تک مسلسل مختلف موضوعات زیر بحث آئے۔ یوسفی صاحب نے اپنے زمانہ طالب علمی کے حوالے سے مادر علمی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بہت سے واقعات سنائے اور فرمایا ظفر معین بلے صاحب ہم آپ کے والد گرامی سید فخرالدین بلے صاحب کو بھی اسی عہد علی گڑھ سے جانتے ہیں۔ مختار مسعود صاحب، علامہ غلام شبیر بخاری علیگ، انجم اعظمی علیگ، ڈاکٹر برہان الدین فاروقی علیگ سے مراسم پچاس ساٹھ برسوں پر محیط ہیں۔ مختارمسعود صاحب اور فخرالدین بلے علیگ تو مسلم اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے عہدیداران میں سے تھے۔ یونی ورسٹی کے میگزین کی مجلس ادارت سے بھی وابستہ تھے۔ یوسفی صاحب نے صدیقہ بیگم کی ادب لطیف اور حضرت چوہدری برکت علی کی بے مثل ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے شان دار الفاظ میں خراج محبت بھی پیش کیا اور فرمایا کہ ادب لطیف نے ترقی پسند تحریک کو کامیابی اور کامرانی سے ہم کنار کرنے میں اہم اور تاریخی کردار ادا کیا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ترقی پسند تحریک کی کامیابی کا سہرا ادب لطیف اور چوہدری برکت علی کے سر ہے جب کہ چوہدری برکت علی کی وفات کے بعد بھی اس تحریک سے وابستہ مقتدر تخلیق کاروں کی نظر کا محور ادب لطیف اور اس کی مجلس ادارت رہی۔ صدیقہ بیگم نے کمال ہمت و جاں فشانی سے اپنے والد اور ادب لطیف کے مشن و مقصد کو جاری رکھا۔ نشست کے اختتام پر محترمہ صدیقہ بیگم نے قبلہ والد گرامی سید فخرالدین بلے کا یہ شعر پڑھا اور اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئیں.
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
فوٹو سیشن بھی ہوا لیکن میزبان محفل زہرا نگاہ آپا نے اس میں شامل ہونے سے ہی یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یوسفی صاحب نے فون پر اپنی پسند اور پرہیز کے تین چار کھانے بتا کر کہا تھا کہ میں تو گزارہ کرلوں گا، صدیقہ بیگم ہیں آپ کی اور ہماری خاص مہمان، ان کے بارے میں آپ خود سوچ لیجے گا۔ لہذا کچن سے جس برے حال میں آج میں نکلی ہوں تو یہ حلیہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا جائے.
صدیقہ بیگم نے کراچی میں اپنا ایک پورا دن اپنے خاص ادبی دوستوں کے ساتھ گزارا۔ میڈم فہمیدہ ریاض، میڈم فردوس حیدر، محترمہ زاہدہ حنا اور پروفیسر شمشاد صاحب کے ساتھ طویل نشست میں اہم ادبی موضوعات اور تنقید کے جدید رجحانات زیر بحث آئے اور بڑی سیر حاصل گفتگو رہی۔ زاہدہ حنا صاحبہ کی ذاتی زندگی کا موضوع چھڑ گیا تو صدیقہ بیگم نے فوراً ہی یہ کہہ کر موضوع تبدیل کردیا کہ یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد زاہدہ حنا کے زخموں کو کریدنا نہیں ہے۔
پھر فہمیدہ ریاض گویا ہوئیں، صدیقہ تمھیں میں نے اپنی پریشانی کے دِنوں میں بہت پریشان کیے رکھا، کیا کرتی تم سے نہ کہتی اور تم سے شیئر نہ کرتی تو کس سے دکھڑا روتی؟ تمھارے کندھے پر سر رکھ کر جتنا رو سکتی تھی اور جی ہلکا کر سکتی تھی، کرلیتی تھی۔ یہ بھی خیال نہ کرتی کہ دن اور رات کے ایسے پہر میں کہ جب تم خود میڈیسن لے کر آرام کرتی ہو۔ میں تمھیں تنگ کرتی رہی۔ یہ سب کچھ سن کر صدیقہ بیگم نے کہا اپنے کس لیے ہوتے ہیں؟ اللہ دشمن کو بھی اولاد کا دکھ نہ دے۔ تم نے بھی بہت ہمت سے کام لیا۔ اور یہ جو بیٹھا ہے تمھارے پہلو میں ظفر معین بلے اور اس کا سارا گھرانہ بھی اس حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔ خود فخرالدین بلے صاحب نے اور ظفر کی امی مہر افروز بلے نے کمال حوصلے اور تحمل سے اس قیامت کو برداشت کیا، جو اس گھرانے پر آنس معین کی المناک جواں مرگی کی صورت میں ٹوٹی۔ اور اس پر آنس معین کی کرب سے بھرپور اور لبریز شاعری جو اچھے خاصے مضبوط اعصاب کے انسان کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دے۔
اس بات پر فہمیدہ ریاض صاحبہ نے بڑی اداسی کے ساتھ آنس معین کا یہ شعر پڑھا:
عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مِرا ملبہ مِرے اوپر گرا ہے
محترمہ صدیقہ بیگم بولیں مجھے آنس معین کا یہ شعر کبھی نہیں بھولتا:
نہ تھی زمین میں وسعت مِری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
اور اس کے بعد کچھ اور اشعار بھی سنائے۔ فہمیدہ ریاض صاحبہ نے مجھ سے آنس معین کا مزید کلام سنانے کی فرمائش کی۔ چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل میں آنس معین کی کچھ نظمیں سنائیں۔ پھر فہمیدہ ریاض صاحبہ نے آنس معین کی آخری غزل سنانے کی فرماٸش کی۔ ہم نے ان کے اس حکم کی بھی تعمیل کردی۔
اس غزل کا مطلع آپ بھی سن لیجے:
یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
یہ غزل سن کر صدیقہ بیگم اور فہمیدہ ریاض آبدیدہ ہوگٸیں۔
پھر صدیقہ بیگم افسردہ ہوگٸیں اور انھوں نے موضوع بدل دیا۔ فردوس حیدر صاحبہ سے صدیقہ بیگم کا مکالمہ شروع ہوگیا، جو ان کی نجی زندگی اور معاملات کے حوالے سے تھا۔ فردوس حیدر نے اسی نشست میں مجھے مخاطب کرکے فرمائش کی کہ آپ اپنا کلام سنائیے اور اپنا کلام سنانے سے قبل فہمیدہ ریاض کا کوئی کلام، جو آپ کو یاد ہو، سنا دیجے۔ میں (ظفر معین بلے جعفری) نے فہمیدہ ریاض صاحبہ کی خوب صورت نظم چادر اور چار دیواری درج ذیل وضاحت کے ساتھ سنائی.
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر چار یا پانچ اپریل انیس سو اسی 1980 بھار میں ایک شان دار محفل مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان سے پانچ شعرا کو مدعو کیا گیا جن میں مظفر وارثی۔ اقبال ساجد اور محترمہ فہمیدہ ریاض بھی شامل تھیں۔ آل انڈیا ریڈیو سروس سے یہ مشاعرہ بہ راہ راست نشر کیا گیا۔ جب محترمہ فہمیدہ ریاض کو دعوت کلام دی گئی تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ محترمہ فہمیدہ ریاض نے کلام سنانے سے قبل یہ وضاحت بھی فرمائی کہ سامعین و حاضرین گذشتہ دنوں ہمارے دیش میں یہ بڑا چرچا تھا کہ عورتوں کو چادریں پہنا دی جائیں اور انھیں چار دیواری میں رکھا جاٸے۔۔ اس حوالے سے ایک نظم پیش کرتی ہوں۔ چادر اور چار دیواری.
چادر اور چار دیواری : فہمیدہ ریاض
حضور میں اس سیاہ چادر کا کیا کروں گی
یہ آپ کیوں مجھ کو بخشتے ہیں بہ صد عنایت
نہ سوگ میں ہوں کہ اس کو اوڑھوں
غم و الم خلق کو دکھاؤں
نہ روگ ہوں میں کہ اس کی تاریکیوں میں خفت سے ڈوب جاؤں
نہ میں گناہ گار ہوں نہ مجرم
کہ اس سیاہی کی مہر اپنی جبیں پہ ہر حال میں لگاؤں
اگر نہ گستاخ مجھ کو سمجھیں
اگر میں جاں کی امان پاؤں
تو دست بستہ کروں گزارش
کہ بندہ پرور
حضور کے حجرۂ معطر میں ایک لاشہ پڑا ہوا ہے
نہ جانے کب کا گلا سڑا ہے
یہ آپ سے رحم چاہتا ہے
حضور اتنا کرم تو کیجے
سیاہ چادر مجھے نہ دیجیے
سیاہ چادر سے اپنے حجرے کی بے کفن لاش ڈھانپ دیجیے
کہ اس سے پھوٹی ہے جو عفونت
وہ کوچے کوچے میں ہانپتی ہے
وہ سر پٹکتی ہے چوکھٹوں پر
برہنگی تن کی ڈھانپتی ہے
سنیں ذرا دل خراش چیخیں
بنا رہی ہیں عجب ہیولے
جو چادروں میں بھی ہیں برہنہ
یہ کون ہیں جانتے تو ہوں گے
حضور پہچانتے تو ہوں گے
یہ لونڈیاں ہیں
کہ یرغمالی حلال شب بھر رہے ہیں
دم صبح در بدر ہیں
حضور کے نطفۂ مبارک کے نصف ورثہ سے بے معتبر ہیں
یہ بیبیاں ہیں
کہ زوجگی کا خراج دینے
قطار اندر قطار باری کی منتظر ہیں
یہ بچیاں ہیں
کہ جن کے سر پر پھرا جو حضرت کا دست شفقت
تو کم سنی کے لہو سے ریش سپید رنگین ہو گئی ہے
حضور کے حجلۂ معطر میں زندگی خون رو گئی ہے
پڑا ہوا ہے جہاں یہ لاشہ
طویل صدیوں سے قتل انسانیت کا یہ خوں چکاں تماشہ
اب اس تماشہ کو ختم کیجے
حضور اب اس کو ڈھانپ دیجے
سیاہ چادر تو بن چکی ہے مری نہیں آپ کی ضرورت
کہ اس زمیں پر وجود میرا نہیں فقط اک نشان شہوت
حیات کی شاہ راہ پر جگمگا رہی ہے مری ذہانت
زمین کے رخ پر جو ہے پسینہ تو جھلملاتی ہے میری محنت
یہ چار دیواریاں یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک
کھلی فضاؤں میں بادباں کھول کر بڑھے گا مرا سفینہ
میں آدم نو کی ہم سفر ہوں
کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت
…
مشاعرہ رات گئے اختتام پذیر ہوا۔ اور اسلام زدہ امیرالمسلمین آمرِ اعظم یزیدِ ثانی حضرت ضیاء الحق کے حکم پر اسی رات محترمہ فہمیدہ ریاض کے خلاف ملک کے مختلف شہروں کے مختلف تھانوں میں ملک دشمنی کی دفعات کے تحت پچاس سے زاید مقدمات درج کیے گئے۔ ان تمام تر حالات کے پیش نظر ہندستان کی حکومت نے محترمہ فہمیدہ ریاض کو سیاسی پناہ دی اور فہمیدہ ریاض صاحبہ مجبوراً متعدد برس بھارت میں رہنا پڑا۔ فہمیدہ ریاض صاحبہ نےاس کڑے وقت میں بھارت کے ادب دوستوں کے تعاون کا بھرپور انداز میں شکریہ ادا کیا ۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...