طالبان پھر سے
افغان عورت کی طرف پلٹے ہیں
بچی ہو یا دوشیزہ
بیوی ہو یا ماں
سب لرزہ بر اندام ہیں
جو
ماضی میں مرنے سے بچ گئی تھیں
ان پر بھی کپکپی طاری ہے
قاتلوں کیلئے دروازے چوپٹ کھلے ہیں
موت جسمانی ہو یا روحانی
آخر موت ہے
افغان عورت کے کبھی نہ بھرنے والے گھاؤ
پھر سے ہرے ہو چکے ہیں
ان کی اذیت بھری رات بے حد طویل ۔۔۔۔ بے حد طویل ہے
جو بھی اس کے علاوہ
کچھ اور کہتا ہے
یا تو وہ سادہ لوح ہے
یا پھر ان مجرموں کا ٹولی وال
اب تو ان عورتوں تک
روشنی کی مدھم سی لکیر بھی
نہ پہنچ پائے گی
انھیں تصویر کائنات کا
سب سے اجلا رنگ
قرار دے کر دبیز استعاروں میں
دفن کر دیا جائے گا
وہ
ماں کی کوکھ سے نکل کر
پھر سے لوٹنا چاہیں گی
اپنی ماں کی کوکھ میں
جمی پپڑی کی طرف
ان میں سے جو بھی کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنا چاہے گی
مکتب کی طرف دیکھے گی
یا پھراپنے پاؤں پر چلنے کے
خواب دیکھے گی
مسمار کر دی جائے گی
وہ چاہے جتنی بھی دعائیں مانگ لیں
عرب دنیا کے کھوکھلے باجے
جتنا بھی بھوں پوں کرلیں
افغانستان میں سر کاٹنے والی
مشینوں کے تیز دھار آرے
بڑی سرعت سے گھومتے ہیں
شاید ان کے پاس
ہر مسئلے کا یہی حل ہے
طالبان مرد
اپنی سلطنت کی بنیاد
اسی پدر سری
طرز ِ انصاف پر رکھتے ہیں
جسے وہ اپنے تئیں
عین اسلامی بھی سمجھتے ہیں
کون آزادی پسند عورت
اس گھٹن میں سانس
لے پائے گی
فلم ڈائریکٹر اس وحشیانہ قتل عام پر فلمیں بنا کر
مال سمیٹیں گے
فوٹو گرافر اپنے میگزینوں کے سرورق تراشیں گے
لکھاری افسانوں اور ناولوں کی
دنیا آباد کر کے
سر بلند ہوں گے
تمام گرافکس افغان عورت کی
بے حرمتی کی
تجسیم ہوں گے
مگر وہاں ۔۔۔۔۔افغان عورت کا
پرسان ِ حال کوئی نہ ہوگا
فنونِ لطیفہ کا یہ کھیل تو
جاری رہے گا
مگر
منہ کی کھائے گا
کہ ان چابک برداروں کی شلواروں میں آزار بند نہیں ہیں
وہاں رہنے والی عورت
صرف اور صرف
اپنی نفی کر کے ہی رہ پائے گی
لیکن میں ۔۔۔۔۔
اس پھیلتی بڑھتی ندامت سے مغلوب ہوکر بڑبڑاتی رہوں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھو ! میری سہیلی
میرے کاندھے پہ سر رکھ کر
آزادی سے آنسو بہا لو ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعرہ ۔۔۔۔۔۔ جمانہ جداد
ماخوذ فطرت سوہان