(Last Updated On: )
اردو اور ہندی زبان وادب کا مرکز ومحور بلکہ سنگم امیر خسرو قرار پاتے ہیں۔ وہ سرزمینِ ہند سے اِس قدرمتاثر ہوئے کہ حاکمانِ وقت کے دربار میں مقامی باشندوں کی ذہانت ، علمی استعداد، محبت، مروت اور شرافت کی تعریف کرتے ہیں۔ اپنی مثنویوں میں ہندوستانیوںکی وفاداری، و حدانیت ، روحانیت اور علوم وفنون سے رغبت کو اُجاگر کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے پیرومرشد حضرت نظام الدین سلاطین کو مشورہ دیتے ہیں کہ عوام کے دلوں پر حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ رعایا کے ساتھ بلاتفریق مذہب وملت ، محبت وہمدردی اور انصاف وایمان داری کا سلوک کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں، مسلمانوں نے صوفیائے کرام کے ارشادات پر عمل کیا ہے۔اِس کی واضح مثال اردو زبان ہے اور جس کے لیے داغؔ کو کہنا پڑا:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
’زبان‘ کی بدولت انسان اور حیوان میں تفریق کی جاتی ہے۔ زبان نے جب بال وپَر نکالے، نوک پلک سے دُرست ہوئی تو تخلیقی عمل وجود میں آیا جس نے ادب کی شکل اختیار کی۔ دنیا کی جملہ زبانوں کا فروغ ادب کے ذریعہ عمل میں آیا ہے اور یہی ادب انسانی خوابوں اور آرزوؤں کو اپنے قالب میں ڈھالتا ہے اور آنے والی نسلوں کو اپنی تازگی اور توانائی کا احساس دلاتا ہے۔ اس لیے ادب کو انسان کی زندگی کابہترین سرمایہ قرار دیا گیا جس پر اشرف المخلوقات کو ناز ہے۔ وہ صاحبِ ذوق اورصاحبِ تخلیق کہلانے میں فخرمحسوس کرتاہے۔ سماجی، سیاسی، معاشی، ثقافتی نظام کو منضبط کرتا ہے، فہم وادراک کی راہوں سے گزر کر شعور کو نئی سمت عطا کرتا ہے۔ ادب کے ذریعہ انسان کے قلب وذہن کو آسودگی ملتی ہے اور معاشرے میں بیداری آتی ہے۔ اِس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کبھی بھی کم نہیں ہوسکتی ہے۔
جس طرح زبان اظہارِ خیال کا ذریعہ ہے اور سمجھنے سمجھانے کا بہترین آلہ ہے اُسی طرح تہذیب وتمدن کو فروغ دینے کے لیے ادب مناسب وسیلہ بھی ہے، خصوصاً وہ ادب جومادری زبان میں خلق کیاگیا ہو کیوں کہ وہ زبان زدِ عام ہوتاہے، اُس کی شیرینی فضا میں رس گھولتی ہے۔ شیریں بیانی کے سہارے معاشرہ میں متکلم کی عزت بڑھتی ہے، شخصیت کی پہچان بنتی ہے۔
کسی بھی قوم کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ اُس کی زبان، تاریخ، ادبی، علمی اور عملی صلاحیتیں ہوتی ہیں، جن پر وہ ناز کرتی ہے۔ رسم ورواج، تیج تیوہار، کھانے پینے کی اشیاء، رہن سہن اور لباس وغیرہ بھی اس زمرے میں شامل ہیں۔ اس لیے کوئی بھی قوم اپنی اِن صفات کے سلب ہونے پر تلملا اُٹھتی ہے اور انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
قوموں کے درمیان اتحاد واتفاق کا ایک اہم ذریعہ زبان ہے۔ باہمی میل جول کی بنا پرقومیں ترقی کرتی ہیں، بلندی پرسرفراز ہوتی ہیں، اُن میں یگانگت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے جو درحقیقت تہذیب وثقافت کو فروغ دینے کا وسیلہ ہے۔ اسی لیے جو قوم اپنی زبان کو زیادہ استعمال کرتی ہے وہ در اصل اُس زبان کو ہی نہیں بلکہ تہذیب وثقافت کو دوام بخشتی ہے۔
۱۸۵۷ء کا انقلاب زبان، تہذیب اور تمدن کا سنگم اور جدید طرز کا اعلانیہ ہے۔ منشی نول کشور اور سرسید سے ذرا پہلے کے عہد کا مطالعہ کریں تو عوام کو اہم خبروں کی اطلاع بھی نہیں مل پاتی تھی۔ عصرِ حاضر کا ایک عام انسان بھی اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ کی وجہ سے ہر اطلاع سے باخبر ہوسکتاہے۔ ٹی۔وی۔ اور انٹرنیٹ پر دنیا میں رونما ہونے والے واقعات وحادثات اِس طرح ہمارے سامنے آتے ہیں جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ یہ کرشمہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہمیں میسر آیا ہے۔
ٹیکنالوجی میں روز افزوں نئی ایجادات واختراعات نے عالمی منظر نامہ کی پیش کش کو مرتب کیا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ذرائع ابلاغ نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اُس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا اہم کردار رہا ہے۔ اس کی وجہ سے آج دنیا ایک عالمی گاؤں (Global Village) میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بدولت تعلیم وتربیت، سیروتفریح، کھیل کود، معیشت اور سیاست میں جتنے لوگوں کی شرکت اب ممکن ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ یہ ہماری سماجی، معاشی، تجارتی، تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی زندگی پر پوری طرح اثر انداز ہوچکے ہیں۔ ان ذرائع کی بدولت وسیع وعریض دنیا اس حد تک سمٹ گئی ہے کہ بٹن دبانے یا اسکرین پر انگلیوں کے لمس سے آن واحد میں دنیا بھر کی سیر کی جاسکتی ہے۔
گلوبلائزیشن (Globalization)اپنی بے پناہ کشش کی وجہ سے لوگوںکی نجی زندگی میں پورے طور پر داخل ہوکر حاوی ہوچکی ہے۔ اس نے سیاسی افکار ونظریات اور اصول وضوابط کی حد بندیوں کو ختم کیا ہے۔ عالمی سطح پر اطلاعاتی نظام کے فروغ نے ترقی کی شاہ راہ پر اتنی اونچی جست لگائی ہے کہ انسانی جذبات، احساسات اور خیالات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ انفرادی آزادی، جمہوریت، حقوق انسانی کے تحفظ اور مذہبی رواداری کی ترویج کا بحیثیت مجموعی فروغ ہوا ہے اور ایک بااخلاق سیکولر، غیر متعصب اور آزاد معاشرہ کے قیام کے امکانات بڑھے ہیں۔ اس رجحان کی بدولت بین الاقوامی تجارت، کاروبار، غیر ملکی سرمایہ کاری اور اس کا لین دین بہت آگے نکل چکا ہے۔ اطلاعات اور تکنیکی وسائل نے مختلف ممالک کے لوگوں کو تو ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے لیکن دنیا دو طبقوں میں منقسم ہوکر رہ گئی ہے، ایک طبقہ وہ جس کے وسائل بہت مضبوط ومستحکم اور غیر معمولی طور پر ترقی یافتہ ہیں اور دوسرا وہ جس کے پاس زندگی بسر کرنے کی بنیادی سہولتوں کافقدان ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے مشینوں پر انحصار کی وجہ سے انسان کی قدرتی صلاحیت کم ہوئی ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں مغربی تہذیب وتمدن کی مشتبہ اقدار کو معیار بناکر پیش کیاجارہا ہے، حد تو یہ ہے کہ لوگ مختلف پہلوؤں پر غوروخوض کیے بغیر محض انگریزی ذریعہ تعلیم کو ہی اپنے بچوں کے مستقبل کی کامیابی کا ضامن خیال کرنے لگے ہیں۔
عالم کاری یعنی Globalizationکے اس سیلاب نے جہاں سیاسی جغرافیے میں تبدیلیاں کیں وہیں تہذیب وثقافت کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے اور معاشی اعتبار سے کمزور ملکوں کے لیے اپنی اساسی شناخت بچانا مشکل ہورہا ہے ۔وہ چاہے طرزِ لباس ہو، کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا رہن سہن کے طور طریقے۔
جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی بنی نوع انسان کی ترقی اور فلاح وبہبود کے لیے استعمال ہوئی ہے وہیں اُس کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے انسانی معاشرہ میں خوف وہراس اور نفرت کاماحول پیدا کرنا بھی بہت آسان ہوگیا ہے۔ موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر سب کی توجہ اِس جانب مبذول ہونی چاہیے کہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے ممکنہ تباہ کاری کو کس طرح روکا جائے ۔فن کاروں، صحافیوں، دانش وروں سے ہمیں بہت توقعات ہیں لہٰذا اُن پر یہ ذمہ داری خاص طور سے عائد ہوتی ہے کہ وہ عالم کاری کی بے راہ روی سے باخبر رہیں اور سب کو باخبر کریںکیوں کہ یہی وہ طبقہ ہے جو سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاسکتا ہے اور آنے والے خطرات سے نبردآزما ہونے کی تدابیر سے بھی آگاہ کرسکتا ہے جیسا کہ اپنے پُرآشوب دور کے تناظر میں ہمارے بزرگوں نے یہ فریضہ خوش اسلوبی سے انجام دیاتھا۔
ماضی بعید کے ہندوستان میں اکثریت کی مادری زبان اردو تھی جو انھوں نے اپنے والدین سے سُنی، اُن کے گھر آنگن میں پنپی، خون وخمیر میں شامل ہوئی ۔ اسے ہر پل وہ سمجھتے، بولتے تھے مگر انیسویں صدی سے اردو اور ہندی کے شعبوں نے الگ الگ حیثیت سے زبان وادب کا استحکام بخشا لیکن اِس گلوبلائزیشن کے دور میں اردو حلقے سے وابستہ نئی نسل مجبوریوں، کوتاہیوں اور تنگ نظری کی بدولت اس کو باقاعدہ پڑھ لکھ نہیں پارہے ہیں، اگر اس پہلو پر نیک نیتی اوردل جمعی سے توجہ دی جائے تو شاید نتائج بہتر نکلنے کے امکانات ہوسکتے ہیں جوآج کے تناؤ بھرے ماحول کے لیے مفید ثابت ہوں گے، کیوں کہ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ تناؤ بھرے ماحول کی دوا بھی ہے۔
تصویر کے اِس ایک رُخ کے ساتھ جودوسرا منظر نامہ ہمارے سامنے ہے وہ یہ کہ موجودہ عہد میں دُنیا کی ترقی اور سماج کی تشکیل میں الیکٹرانک میڈیا، عالمی سطح پر بہت اہم رول ادا کررہا ہے، ہمارے ملک میں بھی شعبۂ ترسیل وابلاغ کی تعلیم کے لیے متعدد اور معتبر معیاری مراکز قائم ہوچکے ہیں مگر اُن کا ذریعۂ تعلیم انگریزی ہے۔ ریڈیو اورٹیلی ویژن کے بیش تر پروگرام اور فلمی دنیا سے وابستہ زیادہ تر سیریل اور فلمیں عموماً فنکشنل اردومیں تیار ہوتی ہیں جنھیں ہندی سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔ شعبۂ ترسیل عامہ سے سند حاصل کرنے کے بعد بھی ہونہار طلبہ کو فنکشنل (کاروباری) اردو پر مہارت حاصل نہیں ہوپارہی ہے، آخر کیوں؟ سبھی جانتے ہیں کہ ریڈیو، ڈراموں،ٹیلی ویژن اور فلموں میں اظہار وابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ زبان ہی ہے۔ فصاحت و بلاغت تودُور کی بات، صحیح تلفظ سے بھی ناواقفیت معمول بنتاجارہا ہے۔ لہٰذا موجودہ ذرائع ابلاغ میں زبان کا غلط العام استعمال، غیر معیاری اور ناشائستہ کلمات کی کثرت اور غلط تلفظ ایک عام سی بات ہوگئی ہے جس سے نئی نسل کی زبان خراب ہورہی ہے۔ جو حضرات زبان کی اہمیت کوبراہِ راست تسلیم نہیں کرتے ہیں وہ بھی ثقافت، تہذیب اور تمدن کا تعلق زبان سے ہی جوڑتے ہیں۔ اس لیے زبان کاصحیح، شائستہ اور مناسب استعمال ہماری ذمہ داری ہے۔ بے پروائی یا عدم دلچسپی شاید اسی لیے کہ الیکٹرانک میڈیا کے کسی کورس میں انسانی اقدار، شہری حقوق اور اُن کی ذمہ داریوں سے متعلق اردو زبان اور تہذیب وتمدن کے توسط سے کوئی سبق یا مضمون نصاب میں شامل نہیں ہے۔ اگر کہیں ہے بھی تو رسمی طور پر، واجبی انداز میں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اس جانب خصوصی توجہ دیں۔ خاص طور سے اُن طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے جوماس میڈیا(Mass Media) کو اپنا کاروبارِ زندگی بنانا چاہتے ہیں۔ اُن کے لیے اردو، ہندی کی تخصیص وتمیز کے خلاف ایک ایسے معیاری اور پُرکشش نصاب کی ضرورت ہے جس میں مناسب الفاظ اورشائستہ لب ولہجہ ہو۔ لفظ کادُرست اور برمحل استعمال سکھانے کے علاوہ ایک اچھی اور خوش گوار فضا تیار کی جائے جومہذب ماحول کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو بلکہ تمام طلبہ کو اس سے آگاہ کیا جائے کہ وہ مثبت پہلوؤں کے پیش نظر انسانی ہمدردی کے جذبہ کے فروغ کو اپنالائحۂ عمل بناتے ہوئے عملی جدوجہد میں شریک ہوں۔ اس طرح کے نظامِ تعلیم اور ذریعۂ تعلیم سے وہ طلبہ بھرپور فائدہ اُٹھاسکتے ہیں جو انگریزی ذریعۂ تعلیم اپناکر ترسیل عامہ (Mass Communication) کا کورس مکمل کرچکے ہیں۔ اس طرح کے تعلیمی نصاب کے فروغ سے ماس میڈیا میں بولی جانے والی ہندوستانی زبان خصوصاً اردو کے استعمال کو بہتر، درست اور موثر بنایاجاسکتا ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ نول کشور پریس اور علی گڑھ تحریک نے محدود ذرائع اور وسائل کے باوجود اخبار اور جرائد کا اجرا کرکے تاریخ ساز کارنامے انجام دیے۔ آج جب کہ ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی اور لامحدود وسائل ہیں پھر ہم ذرائع ابلاغ کے میدان میں کیوں پچھڑے ہوئے ہیں؟ کن وجوہ کی بنا پر ہماری ترقی کی رفتار سُست ہے۔ دانش وروں کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ پُرخلوص اور مثبت انداز میں نشان دہی کریں تاکہ کمیاں، خامیاں، کوتاہیاں دُور کی جاسکیں۔ حیرت تو اِس پر ہے کہ ہم میں سوچنے والے ذہن ہیں۔ قلم پردست رس رکھنے والے قلم کار ہیں۔ رسائل کے انبار ہیں۔ اردو سمجھنے والے کروڑوں لوگ ہیں تو پھر ہم کیوں مقابلہ میں پچھڑتے چلے جارہے ہیں ؟ کیا اردو اخبار ورسائل پڑھنے کی ہماری عادت ختم ہوچکی ہے؟ یا ہم اس افواہ کے شکار ہوچکے ہیں کہ اردو میڈیا باسی ہوچکا ہے۔ یا ہم اپنے وسائل پر یکسوئی سے غور نہیں کرپاتے ہیں۔ یا پھر ہم محض گفتار کے غازی بن کر رہ گئے ہیں۔ تحریکِ آزادی کا حوالہ انھیں وسوسوں کی وجہ سے بار بار آتاہے۔
صارفیت (Consumerism) کے اِس دور میں ہر شخص ذاتی ترقی اور خوش حالی کو مقدم رکھ رہا ہے اور قدروں کی باتیں ازکار رفتہ بن گئی ہیں۔ ہماری نئی نسل اپنی تاریخ، تہذیب اور اردو رسم الخط سے دُور ہوتی جارہی ہے۔ کس طرح ہم اُنھیں اپنے بیش قیمت تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سے منسلک رکھیں، یہ ایک مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ چمک دمک کے جس جال میں وہ گرفتار ہیں اُ س کی گرہیں اتنی مضبوط ہوتی جارہی ہیں کہ نجات کے ذرائع اپنی بے بسی پر اشکبار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بزرگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوں۔ وہ امکانی جتن کررہے ہیں مگر کامیابی دُور ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ آخر کیوں؟ ہم بڑی تعداد میں مقابلہ جاتی امتحانات میں شریک ہوتے ہیں لیکن وہ کامیابی نہیں ملنے پاتی جس کی ہمیں توقع ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو حکومت کے ذمہ داران کی چشم پوشی اور متعصبانہ رویہ ہے لیکن دوسری اہم وجہ خود پر اعتبار و اعتماد کی کمی ہے۔ در اصل انسان کا یہ جوہر ہی مشکل گھڑی میں کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسی جذبۂ حرکت وعمل کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ہم سب کو اس بابت سوچنا ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرنا چاہیے کہ__
۱۔ نئی نسل کو کس طرح قدروں کا احساس دلایا جائے۔
۲۔ مفید فن پاروں سے اُنھیں کس طرح متعارف کرایا جائے اور مستفید ہونے کی طرف انھیں کیسے راغب کیاجائے۔
۳۔ انسانیت، محبت، مروت اور در گزر کے جذبہ کو کیسے فروغ دیا جائے۔
۴۔ نئی ایجادات اور معلومات سے کس طرح مثبت نتائج اخذ کیے جانے کارُجحان پیداکیاجائے۔
۵۔ اکیسویں صدی میں جو عالمی معیار وضع ہورہے ہیں،اُن کی پاسداری کے لیے خود کوکس طرح تیار کیا جائے۔
۶۔ فنونِ لطیفہ کو کیسے اپنے لیے مفید اور کارآمد سمجھتے ہوئے روحانی غذا کے طور پر استعمال کیا جائے۔
۷۔ مادری زبان سے کس طرح رغبت اور اُنسیت پیداکی جائے کہ وہ زندگی کالازمی حصہ بن جائے۔
۸۔ یہ اسباب بھی تلاش کیے جائیں کہ اعلیٰ تعلیم سے رغبت ہونے کے باوجود تناسب کے اعتبار سے ہم اتنے پیچھے کیوں ہیں؟
اردو زبان کسی کی جاگیر نہیں، مشترکہ تہذیب کی علمبردار ہے جو صدیوں سے عوام وخواص کے دلوں پر حکومت کرتی رہی ہے۔ ملی جلی تہذیب کی یہ امین، اپنے چاہنے والوں کے ایک بڑے حلقے میں اچانک معتوب کیوں کر ہوئی؟ حیرانی کا سبب ہے کہ اِس کو دل وجان سے عزیز رکھنے والے محب وطن آخر کسمپرسی کے شکار کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ وہ کیوں اپنے ہی وطن میں عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں؟ کسی ایک غم پر بہائے جانے والے آنسو ابھی خشک بھی نہیں ہونے پاتے کہ دوسرا زخم پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرجاتاہے۔ قانون کی دہائی دینے والے خود اس کی برملا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ انصاف دینے والے مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ ایسے میں اعتبار واعتماد ڈگمگاتا ہے۔ قوتِ برداشت اور قوتِ مدافعت کم زور پڑتی ہے۔ یہ کم زوری کسی ایک فرقہ کی نہ رہ کر ملک وملت کی کم زوری بن سکتی ہے۔ لہٰذا دانش ورانِ وطن کو ایسی صورتِ حال سے ممکن حد تک افراد کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ اس سے افراد ہی نہیں قوم کوطاقت پہنچے گی جوملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اشد ضروری ہے۔
سائنس وٹیکنالوجی کی بدولت نئی نئی ایجادات، جدید علوم وفنون کے تحت فلسفیانہ نظریات اور نت نئے نقطہ ہائے نظر نے انسانی زندگی میں زبردست انقلاب پیدا کردیا ہے۔ صارفیت اور عالمگیریت کے تصور نے زندگی اور متعلقاتِ زندگی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ اردو زبان میں بھی عالمی ادب کی طرح متنوع تبدیلیاں آئی ہیں۔ ٹریننگ اور پلیسمنٹ کے دفاتر کھولے جارہے ہیں۔ جدید ٹکنالوجی میں ورکشاپ کے انعقاد ہورہے ہیں۔ حفاظتی بندوبست کے لیے ان گنت سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جارہے ہیں لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم ان تکنیکی داؤں پیچ کے محتاج ہونے کے بجائے معاشرے کو بھی نئے انداز سے بیدار کرنے کے جتن کرتے رہیں۔ اِس بدلے ہوئے منظر نامے میں جدید تقاضوں کے لحاظ سے سوچنا ہی نہیں بلکہ نہایت منظم طریقے سے اُن پر عمل بھی کرنا ضروری ہے تاکہ نئی نسل کا روشن مستقبل اور بھی تابناک ہو، اور وہ تمام تناؤ سے مبرّا ہوکر ملک وقوم کی خدمت کرسکیں۔ اِس خوش گوار ماحول اور صحت مند فضا کے لیے ہمیں اِس جانب خلوص دل سے توجہ دینی ہوگی کہ:
۱۔ نئی نسل کو کس طرح قدروں کی اہمیت، افادیت اور معنویت کا احساس دلایا جائے۔
۲۔ بُغض وعناد اورفتنہ وفساد سے نئی نسل کو دور رکھنے کے لیے کن اقدامات پر عمل پیرا ہوا جائے۔
۳۔ انسانیت، محبت، مروت اور درگزر کے جذبے کو کیسے فروغ دیا جائے۔
۴۔ نئی ایجادات اور معلومات سے کس طرح مثبت نتائج اخذ کیے جانے کا رُجحان عام کیا جائے۔
۵۔ اکیسویں صدی میں جو عالمی معیار وضع ہورہے ہیں، اُن کی پاسداری کے لیے خود کو کس طرح تیار کیا جائے۔
۶۔ فنونِ لطیفہ کو کیسے اپنے لیے مفید اور کارآمد بناتے ہوئے روحانی غذا کے طور پر استعمال کیا جائے۔
۷۔ اردو زبان سے کس طرح رغبت اور انسیت پیدا کی جائے کہ وہ روز مرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بن جائے۔
۸۔ مثبت سوچ کو کس طرح فروغ دیا جائے اور اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے باہمی اتحاد کو کیسے تقویت پہنچائی جائے۔کیوں کہ ذہنی وقلبی کشادگی سے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں، دل شکنی اور ذہنی اذیت سے نہیں۔
یہ وہ نکات ہیں جن کے لیے نئی راہیں ہموار کرتے ہوئے اُن پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ مرحلہ مشکل ہے، ناممکن نہیں ؎
ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانے
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے