اردو میں تاریخ گوئی اور داستان گوئی کی روایت اور فن
تاریخ گوئی اور داستان گوئی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہوئے انھیں ایک دوسرے سے ممیز بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور دونوں کا خمیر یکسان طور پر گندھا ہوا ہے۔ اس کا اثر ہندوستانی اور پاکستاںی ڈرامہ اور تھیڑیکل میدان پر گہرا نظر آتا ہے۔ داستان گوئی اور تاریخ گوئی کی نظری مبادیات کو تین نکات میں منقسم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ راوی،۔۔۔۔۔ قصہ گو کی صورت میں ایک کہانی یا داستان میں موجود ہوتا ہے۔
۲۔ زبانی داستان گوئی، تاریخ گوئی ، رویت، اساطیر تاریخ اور ثقافت کے روایتی سلسلے ہوتے ہیں
۳۔ داستان گوئی، الفاظ، تصاویر اور آواز کے زیر وبم کے زریعے سے واقعات کو برجستگی سے ابلاغ کرتے ہیں۔
فنِ تاریخ گوئی سے مراد کسی شعر، مصرع یا نثر کے حروف کے ابجد سے کسی واقعہ کی تاریخ کا برآمد کرنا ہے۔ یہ روایت اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ہے۔ جو شعر برآمد ہو اسے 'مادہ' یا مادۂ تاریخ' کہا جاتا ہے۔ فارسی و اردو میں یہ 'تاریخ' اور عربی میں قطعہ تاریخ اور ترکی میں یہ 'رمز' بھی کہلاتا ہے۔ اردو میں یہ روایت کئی صدیوں سے جاری ہے مگر اب اس کا رواج اردو سے عدم واقفیت کی بناء پر کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاریخ گوئی بامعنی الفاظ کے زریعے کسی واقعے کی تاریخ، بحساب ابجد نکلالنا ہے۔ اور تاریخ کو حتمی طور پر متعین کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ دن مہینہ سال ایک جملے یا مصرعے سے اخذ کی جاسکتی ہے۔۔ اسے " مادہ تاریخ " کہا جاتا ہے۔ کبھی کبھار یہ پچیچدگی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اور " تاریخ گوئی" کی ہیت کا مخاطبہ تشکیک اور ابہام کا شکار ہوکر " معمہ گوئی" کی شکل بھی اختیار کرکے چیستانی سوال کی صورت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ داستان گوئی کا دہلی میں سب سے زیادہ چرچا رہا اور یہاں داستان گوئی کے فن کے کو ایک پرفارمنس آرٹ کے طور پر رواج دیتے ہوئے، داستان کے بیانیہ اظہار کو خلقی اور نیا رنگ عطا کیا۔ اور یہ فن ارتقا کی منازل طے کرتا رہا۔ روایت ہے کہ ایک نشست میں میر تقی میر نے بھی داستاں گوئی کے جوہر دکھائے تھے۔ داستان سے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار اپنے خطوط میں ملتا ہے۔ مگر غدر کے ہنگامے کے بعد داستان گوئی کا فن اٹھ کر لکھنّو چلا گیا۔ اور بھر یہ فن اودہ اور رام پور کے دربار میں " داستان گویاں" کے نام سے معروف ہوا۔ اس کے علاوہ مرثیہ گوئی کے زیر اثر داستان سرائی میں حرکات اور سکنات، لب ولہجہ اور اعضئا اشارے اور جنبش سے داستان گوئی میں تنوع پیدا ہوا۔ سہیل بخاری کے بقول
دراصل پورے ایشیائی ادب کا مزاج عاشقانہ ہے اس لیے داستان بھی محبت کے جذبے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتی تھی۔ داستان کے ہیرو کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے کسی ایسی ہستی کا انتخاب کیا جائے جو مافوق الفطرت عناصر اور کم سے کم عمال، وزراء اور امراء کی شکل میں پیش کیے جائیں کیوں کہ ہیرو کو عوام سے بالاتر اور محکم تر پیش کیے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہیرو میں چند انتہائی صفات ہوتی ہیں۔ وہ بے پناہ حسن کے ساتھ ساتھ وفا کا پتلا بھی ہوتا ہے ۔ ہیروئن عاشق کے لیے یہاں تک ایثار کرتی ہے کہ والدین کو چھوڑ کر اس کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے ۔ داستان ”بیثرن و منیثرہ“ میں منیثرہ کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کی بنا پر روایتی اقدار کے باوجود اپنے عاشق کے لیے ہمت و جرأت کا اظہار ملتا ہے ۔ دیو، دیونی اور بھوت پریت کا ذکر تقریباً کسی نہ کسی صورت میں کم و بیش ہر داستان میں ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی آتشی خلقت ہے جو عموماً مشاہدے میں نہیں آتی مگر ان کا وجود تحریر و تقریر میں موجودہوتا ہے ۔ گویا آنکھوں سے نہیں دیکھا کانوں سے سنا ہے ، ذہنوں میں ان کا وجود جاگزیں ہے اور انھیں غیر معمولی قوتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔"۔
داستانوں کے پلاٹ میں زیادہ تنوع نہیں ہوتا۔ تمام قصے کچھ ان خطوط پر چلتے ہیں کہ ہیرو کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اسے راہ میں بہت سے حوادث، دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تمام مصائب کا وہ مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے اور فتح یاب ہوتا ہے ۔ جہاں تک داستان کی اصل غایت کا تعلق ہے وہ کہانی کی غایت سے مختلف نہیں۔ زیادہ تر داستانوں کے موضوعات ہلکے پھلکے عشقیہ و تفریحی ہوتے ہیں۔ کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اخلاق آموزی، تہذیب نفس، عالمانہ دقیقہ سنجی، مذہب اور تخلیق پر زور دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ تمام باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور داستان کی اصل غایت میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔ داستانی تکنیک کو کلچرل، اخلاقی اور دیگر مسائل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ سننے والے یا پڑھنے والے ان داستانوں کو درس آموز کلیات کے طور پر شعوری یا لاشعوری طور پر ذہن نشیں کر سکیں۔ داستانوں میں اخلاقی تعلیم یا مذہبی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں یعنی معلمین اخلاق اور علمبرداران مذہب نے بھی داستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اخلاق و مذہب کے مبادیات تفریحی مطالعہ کے طور پر آسانی سے سمجھائے جا سکتے ہیں۔ تفریح اور عشق کا التزام کسی نہ کسی داستان میں ضرور ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ عجائب نگاری کی بہت زیادہ کوشش ہوتی ہے ۔ طلسم و سحر، نیرنگ و فسوں پر دفتر کے دفتر سیاہ کر دیے جاتے ہیں۔ بقول صغیر افراہیمداستان دراصل زندگی اور اس کی حقیقتوں سے فرار کا دوسرا نام ہے ۔ خواہشات کی تکمیل جب حقیقی عنوان سے نہ ہو پاتی تو تخیل کے سہارے ان کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی اس لیے انسان جب اپنے حالات سے فرار حاصل کرتا تو عموماً داستانوں کی دنیا میں پہنچ کر ذہنی و قلبی سکون حاصل کرتا۔ سہیل بخاری کے بقول دراصل پورے ایشیائی ادب کا مزاج عاشقانہ ہے اس لیے داستان بھی محبت کے جذبے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتی تھی۔ داستان کے ہیرو کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے کسی ایسی ہستی کا انتخاب کیا جائے جو مافوق الفطرت عناصر اور کم سے کم عمال، وزراء اور امراء کی شکل میں پیش کیے جائیں کیوں کہ ہیرو کو عوام سے بالاتر اور محکم تر پیش کیے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہیرو میں چند انتہائی صفات ہوتی ہیں۔ وہ بے پناہ حسن کے ساتھ ساتھ وفا کا پتلا بھی ہوتا ہے ۔ ہیروئن عاشق کے لیے یہاں تک ایثار کرتی ہے کہ والدین کو چھوڑ کر اس کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے ۔ داستان ”بیثرن و منیثرہ“ میں منیثرہ کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کی بنا پر روایتی اقدار کے باوجود اپنے عاشق کے لیے ہمت و جرأت کا اظہار ملتا ہے ۔ دیو، دیونی اور بھوت پریت کا ذکر تقریباً کسی نہ کسی صورت میں کم و بیش ہر داستان میں ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی آتشی خلقت ہے جو عموماً مشاہدے میں نہیں آتی مگر ان کا وجود تحریر و تقریر میں موجودہوتا ہے ۔ گویا آنکھوں سے نہیں دیکھا کانوں سے سنا ہے ، ذہنوں میں ان کا وجود جاگزیں ہے اور انھیں غیر معمولی قوتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔"۔ داستان گوئی دراصل براہ راست لوگوں کے سامنے پیش کیا جانے والا فن ہی ہے،
داستانوں کے پلاٹ میں زیادہ تنوع نہیں ہوتا۔ تمام قصے کچھ ان خطوط پر چلتے ہیں کہ ہیرو کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اسے راہ میں بہت سے حوادث، دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تمام مصائب کا وہ مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے اور فتح یاب ہوتا ہے ۔ جہاں تک داستان کی اصل غایت کا تعلق ہے وہ کہانی کی غایت سے مختلف نہیں۔ زیادہ تر داستانوں کے موضوعات ہلکے پھلکے عشقیہ و تفریحی ہوتے ہیں۔ کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اخلاق آموزی، تہذیب نفس، عالمانہ دقیقہ سنجی، مذہب اور تخلیق پر زور دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ تمام باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور داستان کی اصل غایت میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔ داستانی تکنیک کو کلچرل، اخلاقی اور دیگر مسائل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ سننے والے یا پڑھنے والے ان داستانوں کو درس آموز کلیات کے طور پر شعوری یا لاشعوری طور پر ذہن نشیں کر سکیں۔ داستانوں میں اخلاقی تعلیم یا مذہبی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں یعنی معلمین اخلاق اور علمبرداران مذہب نے بھی داستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اخلاق و مذہب کے مبادیات تفریحی مطالعہ کے طور پر آسانی سے سمجھائے جا سکتے ہیں۔ تفریح اور عشق کا التزام کسی نہ کسی داستان میں ضرور ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ عجائب نگاری کی بہت زیادہ کوشش ہوتی ہے ۔ طلسم و سحر، نیرنگ و فسوں پر دفتر کے دفتر سیاہ کر دیے جاتے ہیں۔ بقول صغیر افراہیم داستان دراصل زندگی اور اس کی حقیقتوں سے فرار کا دوسرا نام ہے ۔ خواہشات کی تکمیل جب حقیقی عنوان سے نہ ہو پاتی تو تخیل کے سہارے ان کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی اس لیے انسان جب اپنے حالات سے فرار حاصل کرتا تو عموماً داستانوں کی دنیا میں پہنچ کر ذہنی و قلبی سکون حاصل کرتا۔صفدر امام قادری نے لکھا ہے۔"اردو میں داستانوں پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اکثر اُن کی زبانی روایت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ داستانیں تحریرکے قالب میں آنے سے پہلے زبانی روایت کا حصّہ تھیں لیکن اِسی کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی یاد رہتی ہے کہ اِن داستانوں کو قلم بند کرنے کا سلسلہ بھی اردو کے حلقے میں بھی چار پانچ سو برس سے بھی ضرور قائم ہے۔ اس میں کچھ ترجمہ اور کچھ بادشاہوں کی فرمائش کا بھی ہاتھ رہا ورنہ ’سب رس‘ جیسی کتاب آج سے تقریباً چار سو برس پہلے کیسے سامنے آگئی ہوتی۔ سچّائی یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل داستانوں کو تحریری شکل میں ہی پڑھتی رہی ہے اور اُن کے الفاظ یا داستانی روایت کا مکمّل عرفان ہم نے کتابوں کے مطالعے سے کِیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھاپہ خانے اور بدلتی ہوئی دنیا میں زبانی روایت کے معاملے محدود کر دیے اور رفتہ رفتہ ہم کتابوں میں سِمٹنے کے لیے مجبور ہوئے۔" برصغیر پاک وہند میں ویسے تو بہت سی داستانیں مشہور ہوئیں لیکن سب سے مشہور داستانِ امیر حمزہ تھی۔جب اسے فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا تو وہ بہت پھیلتی چلی گئی۔
19 ویں صدی کے آخیر میں جب داستانِ امیر حمزہ کو چھپوانا شروع کیا گیا تو اُس کی کوئی 46 جلدیں بنیں۔ داستانِ امیر حمزہ کا ہی ایک ٹکڑا ہے طلسمِ ہوش رُبا جو نو جلدوں پر محیط ہے۔ ان 46 جلدوں کو اکٹھا کرنے اور پڑھنے اور تنقید کرنے کا کام بھارت کے نقاد شمس الرحمان فاروقی صاحب نے کیا۔ قصہ گوئی کے بارے میں اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ داستان گوئی کا کمال یہ تھا کہ بڑے بڑے مجمعوں میں داستان گو اپنی داستان اگر شروع کرتا تھا تو لوگ سحر زدہ حالت میں اسے سنتے تھے۔ وہ اپنی کہانی شروع کرتا تھا درمیان میں فرض کریں بادشاہ کا ذکر آیا تو مجمع میں سے ہی ایک شخص بادشاہ کے لباس میں ملبوس بادشاہ کی کہانی شروع کر دیتا تھا۔ پھر فرض کریں ذکر آیا ملکہ کا تو ایک اور شخص ملکہ کے لباس میں موجود ملکہ کی کہانی شروع کرتا تھا۔ گویا داستان گو حضرات نے ایسا ڈرامائی تاثر قائم کیا تھا جسے ایک زمانے تک عوام میں پذیرائی ملی"۔ میر باقر علی اردو داستان گوئی اور دلی کی تہذیب کی آخری نشانی تھے ۔ داستان گوئی کے فن میں میر باقر علی نے خصوصی شہرت حاصل کی تھی۔یہ فن انہیں اپنے ننھیال سے ملا تھا۔ان کے نانا میر امیر علی اور ماموں میر کاظم علی کا تعلق دہلی دربار سےتھا ۔ یہ دونوں مانے ہوئے داستان گو تھے ۔1890 میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام میر حسن علی تھا۔کم عمری میں والد کے انتقال کے بعد ننھیال میں پرورش پائی،اور غالباًنانا اور ماموں کے ساتھ محفل داستان سرائی کی محفلوں میں شرکت سے بچپن ہی سے داستان گوئی سے رغبت پیدا ہوگئی،اور ایسی رغبت پیدا ہوئی کہ اس فن میں امام کا درجہ پایا۔ انہوں نے 18مارچ 1928 کو دہلی میں انتقال فرمایا۔شاہد احمد دہلوی نے ان کی داستان گوئی کی محفل کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ “اجلی اجلی چاندنیوں کے فرش بچھ جاتے،میر صاحب کے لئے ایک چھوٹا سا تخت لگا دیا جاتا اس پر قالین اور گاؤ تکیہ ہوتا۔سامعین گاؤ تکئے سے لگ کر بیٹھ جاتے۔پان اور حقہ کا دور چلتا ۔گرمیوں میں شربت اور جاڑوں میں چائے سے تواضع کی جاتی۔یہ صاحب تخت پر براجمان ہوتے۔کٹورے یا گلاس میں پانی منگواتے ۔جیب سے چاندی کی ڈبیا اور چاندی کی چھوٹی سی پیالی نکالتے ۔ڈبیا سے افیون کی گولی نکالتے۔اسے دوائی میں لپیٹتے ۔پیالی میں تھوڑا سا پانی نکال کر اس میں گھولتے رہتے۔اور دوستوں سے باتیں کرتے رہتے۔جب ساری افیون پانی میں آجاتی تو روئی نکال کر اگالدان میں پھینک دیتے۔اور گھوٹوے کی چسکی لگا لیتے۔اس کے بعد چائے کا ایک گھونٹ پیتے۔اور فرماتے “چائے کی خوبی یہ ہے کہ لب بند ، لب ریز اور لب سوزہو”پھر داستان شروع کر دیتے۔
16ویں صدی میں پنپنے والی داستان گوئی کی صنف کا سلسلہ ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا۔ دلی کے آخری داستان گو میر باقرعلی کا انتقال 1928 میں ہوا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ داستان گوئی کے قواعد کے بارے میں زیادہ کوئی علم موجود نہیں ہے۔
داستان گوئی سے متعلق مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خیال ہے کہ ”داستان طرازی من جملہ فنون سخن ہے ، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے ۔“ بقول کلیم الدین احمد ”داستان کہانی کی طویل پیچیدہ اور بھاری بھرکم صورت ہے ۔“ گیان چند جین کے مطابق ”داستان کے لغوی معنی قصہ۔ کہانی اور افسانہ کے ہیں۔ خواہ وہ منظوم ہو یا منثور۔ جس کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ضرور ہو اور جس میں فطری اور حقیقی زندگی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ غیر فطری، اکتسابی اور فوق العادت شاذ و نادر فوق العجائب بھی ہو سکتے ہیں۔ افسانوں کی قسموں میں داستان ایک مخصوص صنف کا نام ہو گیا تھا۔“ یورپ میں جو عاشقانہ داستانیں تصنیف کی جاتی تھیں اور ان میں کچھ کہانیاں ہیجان انگیز اور پْرکشش ہوتی تھیں وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ ان تخیلی عاشقانہ داستانوں کو ”رومان“ کہا جاتا تھا۔ رومان کی کئی قسمیں ہوتی تھیں۔ اردو میں تاریخ گوئی اور داستان گوئی ایک عرصے سے ہورہی ہے جس پر فارسی ادبیات کا خاصا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی۔ اس سلسلے میں تسلیم سہوانی کی " ملخص تسلیم بہ زبان فارسی {۱۸۸۵۔} ۔۔ الم کی " گبن تاریخ"{۱۸۹۵}، کافی مشہور ہوئی۔ اس حوالے سے حافظ فیروز الدین کی ایک عمدہ کتاب" تاریخی خزانہ " ہے۔
حوالے جات:
ہماری داستانیں۔ سیدوقار عظیم، مکتبہ عالیہ زیارت خرمہ والی۔ راج دوارہ، رامپور، یو.پی.، طبع اول نومبر1968 اردو زبان اور فنِ داستان گوئی۔ کلیم الدین احمد، ادارہ فروغ اردو امین آباد، پارک لکھنوٴ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنوٴ اردو کی نثری داستانیں۔ ڈاکٹر گیان چند جین، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنوٴ فارسی زبان میں داستان نویسی کا آغاز و ارتقا۔ ڈاکٹر محمد استعلامی کناڈا، ترجمہ رئیس احمد نعمانی داستانوں کی تکنیک۔ ڈاکٹر گیان چند جین، رسالہ آج کل، دہلی جولائی 1955، ص8-9 اردو داستان تنقید و تحقیق۔ سہیل بخاری، پاکستان، ص۔47-50 نثری داستانوں کا سفر۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم، ایجوکیشنل بک ہاوٴس، علی گڑھ یو.پی. ص۔22 :
"میر باقر علی داستان گو – داستانیں اور داستان گوئی " ازعقیل عباّس جعفری، انجمن ترقی اردو، پاکستان 2014۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔