اردو میں ناول کا نام تجویز کریں ۔ ۔ ۔ فوڈ فار تھاٹ
میں نے جب برناڈ شیلنک کے ناول ’ Der Vorleser ‘ ( The Reader ) کی ' تحریر مُکرر' شروع کی تو میرے مد نظر دو باتیں تھیں ؛ ایک ، اس ناول اور فلم کا انتہائی مقبول ہونا اور دوسرے ، ان دونوں کا برطانوی ، امریکی اور جرمن نصاب میں شامل کیا جانا ۔
یہ ناول 1995 ء میں لکھا گیا جب جرمنی کو متحد ہوئے ابھی پانچ سال ہی ہوئے تھے ۔ نئی صدی کے چڑھنے تک اس کی پانچ لاکھ سے زائد کاپیاں جرمنی میں جبکہ ان ملکوں میں ، جہاں انگریزی پڑھی جاتی ہے ، اس کی دس لاکھ سے زائد کاپیاں بک چکی تھیں ۔
ناول اور فلم دونوں اس لئے بھی اہم ہیں کہ ان میں ایک نہیں کئی ’ تھیمز ( Themes ) ہیں جو ان کے مطالعے کو اہم بناتی ہیں ۔ یہ ہمیں اس سیاسی اور ثقافتی ماحول کو ایک خاص انداز میں پیش کرتی ہیں جو جرمنی کے اس وقت سے جُڑا ہے جسے آپ ، جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کے زمانے سے لے کر پچھلی صدی کی آٹھویں / نویں دہائی ، کا زمانہ کہہ سکتے ہیں ۔
یہاں ایک بات اہم ہے کہ ہم پہلے ایک اصطاح کو سمجھیں اور یہ اصطلاح ہے : ’ دوسری نسل ‘ ؛ دوسرے نسل سے مراد جرمنوں کی وہ نسل ہے جو جنگ عظیم دوم کے بعد اس وقت پیدا ہوئی جو ساٹھ کے دہائی کے خاتمے تک جوان ہو چکی تھی اور جنہیں اپنے والدین اور ان کی پیڑھی سے یہ گلہ تھا کہ انہوں نے براہ راست یا بلاواسطہ طور پر ہٹلر اور اس کے فاشزم کا ساتھ دیا تھا ۔ جرمنی ( اس وقت کے مغربی جرمنی ، کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی جرمنی پر کو سوویت یونین کے غلبے کے تحت اشتراکی حکومت قائم کر دی گئی تھی ۔ جنگ کے خاتمے پر جرمنی کے چار ٹکڑے تھے ؛ یہ سوویت یونین ، برطانیہ ، امریکہ اور فرانس کے قبضے میں تھے ۔ مئی 1949 ء میں اتحادیوں نے اپنے قبضے میں آئے تینوں حصوں پرکو یکجا کرکے مغربی جرمنی ، فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کی بیناد رکھی تھی جبکہ سوویت غلبے والا حصہ مشرقی جرمنی یا جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کہلایا ۔ جرمنی اکتوبر 1990 ء میں دوبارہ متحد ہوا تھا ۔ ) کی ہم عصر تاریخ میں یہ نسل ' 68ers ' کہلاتی ہے ۔ یہ وہ نوجوان نسل تھی جو اپنی پہلی پیڑھی کے اس ’ براہ راست یا بلاواسطہ ‘ جرم ، فاشزم میں ملوث ہونے، اس کا ساتھ دینے ، اسے برداشت کرنے یا اس پر خاموش رہنے اور بعد میں جنگی جرائم میں ملوث رہنے والوں کو قبول کرنے کی وجہ سے خود بھی’ قصوروار‘ سمجھتی تھی ؛ یہ نسل اپنے والدین اور اپنی پہلی پیڑھی کے لوگوں سے محبت نہ کر سکی ؛ وہ اس بات پر بھی نالاں تھے کہ انہوں نے فاشزم کو کیسے قبول کیا اور ’ یہودیوں کے قتلام‘ ( Holocaust ) کو کیونکر ہونے دیا ۔ اس نسل نے نہ صرف اپنے خاندانوں سے تعلق کو توڑا بلکہ ان کا خیال تھا کہ جرمنی ( مغربی جرمنی) کی حکومت اس وقت بھی نازی ازم سے جڑی تھی اور اس کے کئی منتخب نمائندے اور اہل کار ماضی میں نازی پارٹی کا حصہ رہ چکے تھے ۔ ان نوجوانوں میں کئی طرح کے رجحانات تھے جن کا اظہار انہوں نےنے احتجاجوں اور گوریلا سرگرمیوں کے ذریعے کیا تھا ۔ ان نوجوانوں کا ایک اہم حصہ اس وقت ’ Baader-Meinhof group‘ ( سرخ فوج) کہلاتا تھا ۔
اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ میری عمر کے ان نوجوانوں پر مشتمل تھا جس نے پاکستان میں پہلے سخت مارشل لاء ، جسے ایوب خان نے 1958 ء میں لگایا تھا ، کے خلاف 1968 ء میں تحریک چلائی تھی اور پاکستان میں جمہوریت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی ۔ ہم بھی اپنے دل میں اسی طرح کی ندامت کا شکار تھے کہ ہمارے بڑوں نے پچاس کی دہائی میں ہر دوسرے روز حکومت بدلنے کے عمل کو کیونکر قبول کیا ؟ 1953ء میں ' احمدیوں ' کے قتلام اور لاہور میں لگے مارشل لاء کو کیسے ہونے اور لگنے دیا ۔ پہلے آئین کو 1956 ء میں نافذ نہ ہونے پر کیوں خاموشی اختیار کی ؟ 1958 ء میں ایوب کے لگائے ملک گیر مارشل لاء کو کیونکر قبول کیا ؟ اور ۔ ۔ ۔ اور 1962 ء میں کیونکر مادر ِملت ، فاطمہ جناح ، کو بی ڈی ' BD ' ممبران کے چنائو کے ذریعے ہروایا اور ایوب خان کے جیت اور اقتدار کو قبول کیا ۔
’ Der Vorleser ‘ ( The Reader )کا راوی اور مرکزی کردار ’ مائیکل برگ ‘ ( جو برناڈ شیلیک کے خیالات کا غماز ہے ) جرمنی کی اسی دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہے جو ' 68 ers ' سے متفق تونہیں لیکن اس نے اپنی پہلی و سابقہ محبوبہ کی کہانی کو اپنی ہی نسل کی خالی بڑھک بازی اور تذبذب کے پس منظر میں بیان کیا ہے ۔ اسی لئے وہ ہانا شیمٹز کے کردار کھڑا کرتا ہے اور ' 68 ' ers میں سے کردار کھڑا نہیں کرتا جو صرف اپنے والدین اور ان کی پیڑھی کی ہی نِندا کرتے تھے ۔ یاد رہے کہ اس ناول کا مصنف ’ برناڈ شلنک ‘ خود بھی ’ 68 ers‘ ہے ۔
مصنف نے اس ناول میں نازی ازم اور ’ یہودیوں کے قتلام ‘ کے متنازع موضوع کو اپناتے ہوئے اپنے کردار ’ ہانا ‘ کی طرف جو ہمدردانہ رویہ اپنایا، وہ اس ناول کی کاروباری لحاظ سے کامیابی کی بنیادی وجہ بنا ۔ یہ بیسٹ سیلر ہونے کے ساتھ ساتھ ، جرمنی اور دیگر ممالک جو کبھی اتحادی ملک کہلاتے تھے ، میں ادبی
اور علمی سطح پرنئی بحثوں کا محرک بھی ثابت ہوا ۔ اس میں مصنف کا ’ ہانا ‘ کے کردار کی ' ہمدردانہ صورت گری ' سب سے زیادہ زیر بحث آئی ۔
برناڈ شلنک نے یہ ناول اس سمجھ بوجھ اور فہم کے ساتھ لکھا جو 1990 ء کی دہائی میں جرمنی کا خاصا تھی ۔ اس نے اسے تین حصوں میں منقسم کیا اور مائیکل برگ کے نقطہ نظر سے اسے بیان کیا ہے ۔ جو اپنی یادوں اور یادداشتوں کو اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کے ساتھ منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، اپنی اس پہلی جوشیلی محبت سے جوڑتا ہے جو اس نے پندرہ سال کی عمر میں ایک درمیانی عمر کی عورت ’ ہانا شمیٹز‘ ساتھ کی ہوتی ہے ۔
پہلے حصے میں مائیکل اور ہانا 1950ء کی دہائی کے مغربی جرمنی میں دکھائے گئے ہیں ۔ اس حصے میں وہ آپس میں ملتے ہیں اور ان کے درمیان جنسی تعلق بھی قائم ہوتا ہے یہاں تک کہ کئی ہفتوں کے میل ملاپ اور ہم بستری کے بعد ایک روز اچانک ، ہانا ، مائیکل کو بِنا کچھ بتائے غائب ہو جاتی ہے ۔ دوسرا حصہ 1960 کی دہائی پر مشتمل ہے جب مائیکل نے ابھی اپنی پڑھائی مکمل نہیں کی اور بطور ’ قانون‘ کے ایک طالب علم کے ، وہ ’ جنگی جرائم ‘ کے حوالے سے کھڑے کئے گئے مقدمدوں میں سے ایک کی کارروائی دیکھتا ہے ۔ اسے اس دوران اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہانا ایک سابقہ ’ concentration ‘ کیمپ میں گارڈ رہی تھی اور تین سو یہودیوں کے قتل میں ملوث تھی ۔ تیسرے حصے میں 1980 کی دہائی کا زمانہ ہے جب مائیکل ہانا سے آخری بار ملتا ہے اور بعد ازاں 1990 کی دہائی میں اس لڑکی سے ملتا ہے جو اپنی ماں کے ساتھ اس واقعے میں ہلاکت سے بچ جاتی ہیں ، جس میں 300 اموات ہوئی تھیں ۔ ناول میں اس کردار کا کوئی نام نہیں بلکہ صرف ’ بیٹی ‘ کا لفظ برتا گیا ہے جبکہ فلم میں اسے ’ الانا ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔
جرمن زبان میں ’ Der Vorleser ‘ کا مطلب ، ایسا آدمی ہے جو اونچی آواز میں پڑھے ۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ ’ The Reader ‘ کیا گیا اور 2008 ء میں فلم بھی اسی نام سے بنائی گئی ۔ گو ناول اور فلم کی کئی تشریحات کی گئیں اورکی جا سکتی ہیں لیکن اس نام کے تین مطالب ہیں ؛ اولاً یہ کہ یہ مائیکل کی کہانی ہے جو ہانا کے لئے اونچی آواز میں پڑھتا ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنی کہانی بھی سنا رہا ہے ۔ دوم یہ کہ اسے ایک ایسا بندہ سمجھا جائے جو سنا رہا ہے تو ناول کی کہانی ہانا کے اس سفر کی داستان ہے جس میں وہ پہلے اپنی ناخونداگی سے نابلد ہے لیکن بعد ازاں وہ پڑھنے لکھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتی ہے ۔ سوم یہ کہ یہ آپ بھی ہو سکتے ہیں ، جو اس ناول کو پڑھ رہے ہیں اور اس کہانی کے اپنے مطالب نکالیں اور تشریحات کریں ۔
جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ ناول ادبی اور علمی سطح پرنئی بحثوں کا محرک ثابت ہوا تھا اور اس میں مصنف کا ’ ہانا ‘ کے کردار کی ہمدردانہ صورت گری سب سے زیادہ زیر بحث آئی تھی لیکن بیشتر دانشوروں نے علمی سطح پر ’ ناخواندگی ‘ کی تمثیل پر زیادہ دھیان دیا اور مائیکل و ہانا کے جنسی تعلق کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ انہوں نے اس ’ تمثیل ‘ کو ان لوگوں کی علامت کے طور پر لیا ، جو جنگ کے دوران اپنی اخلاقی زبان کے حروف تہجی ہی بھول جاتے ہیں ۔
ناول کے موضوعات
اس ناول میں ایک سے زیادہ موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے: ہانا اور مائیکل کا رشتہ صفائی اور پڑھائی کی الوہی شکل اختیار کرتا ہے ؛ یہ تعلق لبریز جنس سے بھرپور ہے ، پُر تشدد ہے اور اکثر ابلاغی فقدان کا شکار ہے جسے مائیکل اِسے ہانا کی ناخواندگی کا ایک نتیجہ قرار دیتا ہے ۔ اس ناول کو ایک عام پڑھنے والا ، کم از کم تین موضوع تو بہت آسانی سے شناخت کر سکتا ہے گو کچھ پڑھنے والے ایسے بھی ہوں گے جو اس میں مزید موضوعات بھی تلاش کر سکتے ہیں ؛
صفائی ؛ یہ ہانا کی اس پشیمانی سے جڑی ہے جو اس کی اخلاقی بے حسی اور اس کے احساس جرم سے تحت الشعوری طور پرجڑی ہے ۔ اس لئے وہ نہانے اور خود کو صاف ستھرا رکھنے میں اس کے ذہن میں کار فرما ہے ۔ بعد ازاں جب وہ اپنا آپ چھوڑ دیتی ہے ، زیادہ کھاتی ہے اور خود کو بے ڈھبا ہوتے دیتی ہے تو یہ بات پڑھنے والے کو عندیہ دیتی ہے کہ اب وہ شعوری طور پر اپنے جرم سے آگاہ ہو چکی ہے ۔
پڑھنے کاعمل؛ رحم دلی کی وجہ سےقیدیوں میں سے کمزور اور نازک عورتوں یا لڑکیوں کا انتخاب ( جس کے بارے میں مائیکل کا یقین ہے کہ وہ ان کی زندگی کا آخری مہینہ زیادہ قابل برداشت بنانا چاہتی تھی ) ایک سِنکی اور مایوسی بھرا نقطہ نظر ہے جبکہ اس کے برعکس اسے زیادہ مثبت انداز میں یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی کمزوری ( ناخواندگی ) کو بھی استعمال میں لاتی ہے اور یہودی قیدی نازک و نحیف خواتین/ لڑکیوں جن پر وہ بطور گارڈ متعین ہے، کو ہلاک کئے جانے کے عمل کو ، اپنے تیئں ، کم مشقت طلب اور نسبتاً کم تکلیف دہ کر سکے ۔
تشدد ؛ علمی سطح پر یہ بحث بھی کی جاتی ہے کہ مائیکل پر ہانا کا تشدد کرنا ، اس بات سے جڑا ہے جو اس کی اپنی غیر یقینی صورت حال ، اپنے ظاہر ہونے کے خوف ، اپنی بے بسی ، زمانے سے اپنی ناراضگی اور آزردگی کے امتزاج سے مل کر بنتی ہے ۔
ان کے علاوہ ’ دوسری نسل‘ کی ’ ذات ‘ کے المیے ، جنگی جرائم کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی بھی اس ناول کے موضوعات میں شامل ہیں ۔
اس ناول میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ مظلوم کون ہے ؛
وہ تین سو قیدی عورتیں ، جو ناول میں یہودیوں کے قتلام کی نمائندہ ہیں ؟
بچ جانے والی ماں اور بیٹی ہیں ؟
یا پھر کہ ہانا، جو اپنی ناخواندگی کی وجہ سے پہلے جنگی مجرم بنتی ہے اور بعد میں جنگ کے بہت بعد ، کئے جانے والے ’ انصاف ‘ شکار ہوتی ہے ؟
ناول کے اختتام پر ہانا اپنی رہائی والے دن صبح سویرے خود کو پھندا لگا لیتی ہے ۔
( میرے مضمون ' ناول اور فلم کا ایک تنقیدی جائزہ ' کا ایک حصہ ، جو کتاب کا حصہ بنے گا ۔ )
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔