اردو میں ناول کا نام تجویز کریں ۔ ۔ ۔
جرمن نام ؛ Der Vorleser
انگریزی نام ؛ (The Reader )
مصنف ؛ برنارڈ شیلنک ( Bernhard Schlink )
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
حصہ اول ؛ باب ۔ اول
میں ، جب ، پندرہ سال کا تھا تو مجھے یرقان ہو گیا ۔ یہ سردیوں میں شروع ہوا اور موسم بہار تک برقرار رہا ۔ گزرتا سال تاریک اور ٹھنڈا ہوتا گیا جبکہ میں کمزور سے کمزور تر ۔ چیزیں اس وقت تک بہتر نہ ہوئیں جب تک نیا سال نہ چڑھا ۔ جنوری گرم تھا اور میری ماں نے میرا بستر باہر بالکونی میں لگا دیا ۔ وہاں میں آسمان ، سورج اور بادل دیکھ سکتا اور نیچے صحن میں کھیلتے بچوں کی آوازیں بھی سن سکتا تھا ۔ فروری کی ایک شام مجھے کوئل کی آواز سنائی دی ۔
میں پہلی بار باہر نکلا ۔ مجھے ’ بلومنسٹراسا ‘ ، جہاں ہم صدی کے شروع میں بنی ایک بڑی عمارت کی دوسری منزل پر رہتے تھے ، سے ’ بون ہفسٹریس‘ جانا تھا ۔
پچھلے برس اکتوبر میں اسی راستے پر سکول سے گھر واپس جاتے ہوئے مجھے قے آئی تھی ۔ مجھے کئی دنوں سے کچھ ایسی کمزوری محسوس ہو رہی تھی جو میرے لئے بالکل نئی اور عجیب تھی ۔ مجھے اپنا ہر قدم اٹھانے کے لئے کوشش کرنی پڑ تی ۔ جب بھی مجھے سکول یا گھر پر سیٹرھیوں کا سامنا کرنا پڑتا تو میری ٹانگیں جواب دے جاتیں اوریہ مشکل سے ہی میرا وزن اٹھا پاتیں ۔ میری بھوک مر چکی تھی ۔ چاہے میں کتنا بھی بھوکا ہوتا لیکن ، جیسے ہی ، میں کھانے کی میز پر بیٹھتا ، مجھے متلی محسوس ہونے لگتی ۔ ہر صبح جب میں جاگتا تو میرا منہ خشک ہوتا اور میرے جسم کے اندر انجانی جگہوں پرسنسنی کا احساس ہوتا جس سے میرا جسم بوجھل ہو جاتا ۔ مجھے اپنے یوں کمزور ہونے پر شرمندگی محسوس ہوتی ۔ اور جب میں نے الٹی کی تو مجھے اور بھی شرمندگی کا احساس ہوا ۔ یہ ایک اور واردات تھی جو میرے ساتھ پہلے کبھی پیش نہ آئی تھی ؛ میرا منہ اچانک بھر گیا تھا ۔ میں نے کوشش کی کہ منہ آیا سب واپس نگل لوں اور میں نے اپنے ہاتھ سے منہ کو زور سے دبا کر دانت تک بھینچ لئے تھے لیکن سب کچھ میری انگلیوں کے بیچ سے سیدھے باہر نکل آیا تھا ۔ میں ایک عمارت کے ساتھ لگ کر جھک گیا اور اپنے پیروں کے گرد پھیلی قے کو دیکھا اور پھر سے مجھے ابکائی آئی جو تھی تو پانی کی طرح لیکن چپچپی اور لیس دارتھی ۔
مجھے جب مدد میسر آئی تو یہ ایسے تھا جیسے کسی نے مجھ پر حملہ کر دیا ہو ۔ ایک عورت نے میرا بازو پکڑا اور مجھے گھسیٹتی ہوئی صحن کے تاریک در میں لے گئی ۔ اوپر کھڑکیوں پر تاریں لگی تھیں جن پر دھلے کپڑے لٹکے تھے ۔ صحن میں لکڑی کے ڈھیر تھے ؛ کھلے میں قائم ایک ورکشاپ میں ایک آرا چل رہا تھا اور برادہ ہوا میں اڑا رہا تھا ۔ اس عورت نے پانی کا نل کھولا ، پہلے میرے ہاتھ دھوئے اور پھر اپنے ہاتھوں کا پیالہ بنا کر پانی میرے منہ پر پھینکا ۔ میں نے اپنے رومال سے منہ پونچھا ۔
” ان میں سے ایک اٹھاﺅ ! “ ، ٹونٹی کے پاس دو بالٹیاں پڑی تھیں ؛ اس نے ایک پکڑی اور اسے بھرا ۔ میں نے دوسری اٹھائی ، اسے بھرا اور اس کے پیچھے پیچھے داخلی راستے کی طرف بڑھا ۔ اس نے بالٹی والا بازو لہرایا اور پانی راستے پر یوں پھینکا کہ وہ میری قے کو بہاتا گٹر میں جا گرا ۔ پھر اس نے مجھ سے دوسری بالٹی لی اور اس کا پانی بھی عمارت کے داخلی راستے پر بہا دیا ۔
وہ ، جب ، سیدھی ہوئی تو اس نے مجھے روتے ہوئے دیکھا ۔ ” ارے ، بچے “ ، وہ گھبرا تے ہوئے چونک کر بولی ، ” ارے ، بچے “ ۔ ۔ ۔ اور اس نے مجھے اپنے بازﺅں میں لے لیا ۔ میں قد میں اس سے بڑا نہ تھا اور میں اپنے سینے کے ساتھ لگی اس کی چھاتیاں محسوس کر سکتا تھا ۔ جب اس نے مجھے بانہوں میں لیا تھا تومجھے اپنے منہ کی گندی باس اور اس کے تازہ پسینے کی خوشبو بھی محسوس ہوئی ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کدھر دیکھوں ۔ میں نے رونا بند کر دیا ۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں رہتا تھا ۔ اس نے بالٹیاں واپس اپنی جگہ رکھیں اور مجھے لئے میرے گھر کی طرف چل دی ۔ اس نے ایک ہاتھ میں میرا بستہ پکڑ رکھا تھا جبکہ دوسرے سے مجھے تھاما ہوا تھا ’ بون ہفسٹریس ‘ سے ’ بلومنسٹراسا ‘ کا راستہ کچھ زیادہ نہ تھا ۔ وہ تیز تیز چلتی رہی اور اس کے فیصلہ کُن رویے نے مجھے بھی اس کے ساتھ قدم ملائے رکھنے پر مجبور کیا ۔ ہمارے گھر والی عمارت کے سامنے پہنچ کر اس نے مجھے الوداع کہا اور چلی گئی ۔
اسی دن ، میری ماں نے ڈاکٹر کو بلایا ۔ اس نے تشخیص کیا کہ مجھے یرقان ہو گیا تھا ۔ بعد میں کسی وقت میں نے ماں کو اس عورت کے بارے میں بتایا ۔ اگر میں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو میں شاید اس سے ملنے نہ جاتا ۔ لیکن میری ماں نے سادگی سے خود ہی یہ طے کردیا تھا کہ میں جیسے ہی بہتر ہوجاﺅں تو مجھے اپنے جیب خرچ سے اس کے لئے ایک گلدستہ لے کر جانا چاہیے ، خود کو متعارف کرانا چاہیے اور اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔ یہی کارن تھا کہ میں فروری کے آخر میں ، ’ بون ہفسٹریس‘ کی طرف جا رہا تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔