اگر یہ کہا جائے کہ اردو میں بچوں کے ادب کی مقدار آٹے میں نمک کے مترادف ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ آزادی کے بعد اردو میں بچوں کے ادب کا خانہ تقریباً خالی نظر آتا ہے ۔ کچھ نام تاہم ایسے ضرور ہیں جنہوں نے ادب اطفال کی بقا کے لیے بڑی کوششیں کی ہیں اور ان کی مساعی کے نتیجے میں پاکستان اور ہندُستان میں بچوں کا ادب زندہ رہا۔ ان ناموں میں مسعود احمد برکاتی ، اشتیاق احمد ، پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، کمال احمد رضوی ، سید نظر زیدی اور دیگر کے نام قابل ذکر ہیں ۔
آزادی کے بعد اردو میں بچوں کے ادب میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا رواج محمدی بیگم نے ڈالا اور جب وہ ماہنامہ پھول کی ادارت فرمارہی تھیں تو اس وقت انہوں نے اپنے شوہر سید امتیاز علی تاج کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے چھوٹی کہانیوں کا آغاز کیا ۔ ڈاکٹر اسد اریب ، ملتان نے اپنے ایم فل پی ایچ ڈی کے مقالے میں ان حضرات کا تفصیلی تذکرہ فرمایا ہے۔
ڈاکٹر اسد اریب نے بچوں کے ادب پر یہ تحقیقات کی ہیں ۔
اردو میں بچوں کا ادب
نئے رجحانات
الف سے ے تک
تذکرے تبصرے بچوں کے ادب میں
ادب اطفال کے دوسرے پی ایچ ڈی ڈاکٹر پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی کی تحقیقات میں یہ شامل ہیں ۔
آزادی کے بعد اردو میں بچوں کا ادب
بچوں کا ادب1947ء سے 2003ء تک
مرزا غالب سے مسعود احمد برکاتی تک بچوں کا ادب
اس کے علاوہ دلاور علی قلمی نام میرزا ادیب نے بھی بچوں کے لیے لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک کتاب ''بچوں کا ادب'' بھی تحریر کی لیکن یہ ایک نامکمل تذکرہ ہے جس میں اس دور کے نام ور قلمکاروں کے حوالے نھیں تھے۔ اس سلسلے کا جدید ترین کام کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی کا ہے جنہوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ بچوں کے ادب پر تحقیق کی ، ہزاروں کی تعداد میں کہانیاں بھی لکھیں اور کتابیں بھی ۔
بچوں کے ادب کے سلسلے میں ادارے ہنوز خاموش رہے اس میں نجی اور سرکاری دونوں ادارے شامل ہیں ۔ وہ چاہے نیشنل بک فائونڈیشن ہو یا دعوۃ اکادمی ۔ کسی ادارے نے بچوں کے ادب کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کیا اور اکادمی ادبیات پاکستان نے تو بچوں کے ادیبوں کو سول اعزازات دینے سے بھی انکار کیا کہ بچوں کا ادب سرے سے ادب میں شمار نہیں کیا گیا۔اسی بنا پر پروفیسر سید مجیب ظفر انوار حمیدی ، مدعود احمد برکاتی ، مرزا ادیب ، کمال احمد رضوی ،الطاف گوہر، و دیگر کو ایوارڈز نہیں دیے گئے۔ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ادب کو ''ادب'' تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔اس بات کا پرچار بھی دنیا میں پاکستان کے لیے باعث ندامت ہے کہ یہاں بچوں کے ادب کا خانہ خالی ہے۔
فی زمانہ پاکستان سے بچوں کے دو سو سے زائد اخبارات و جرائد شایع ہورہے ہیں لیکن بعض میں تحریریں بچوں کی فہم سے بالا ہیں جن سے ادب اطفال کو مقصد فوت ہوجاتا ہے۔آج کل بچوں کے معروف پرچوں میں تعلیم و تربیت ، نونہال ، انوکھی کہانیاں ، پہلے گروپ میں جبکہ پھول ، بزم قرآن ، بزم منزل ، دوسری درجہ بندی میں اور گو گو ، جگنو ، بچوں کی دنیا ، بچوں کا باغ تیسری درجہ بندی میں آرہے ہیں ۔ 70 کی دہائی میں بچوں کی دنیا ، بچوں کا باغ اور جگنو بچوں کے مقبول ترین رسالے تھے ۔ واحد تعلیم و تربیت ایسا پرچا ہے جو 1929ء سے 2012ء تک ہر دور میں بچوں میں پڑھا گیا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس پرچے کو ایک بڑا گروپ فیروز سنز شایع کرہا ہے۔اس کے علاوہ نوائے وقت کا بچوں کا صفحہ پھول اور کلیاں بھی بچوں میں مقبول ہے جبکہ پھول نے احمد ندیم قاسمی کے بعد غلام عباس اور اختر عباس کا زمانہ دیکھا اور کامیاب رہا لیکن محمد شعیب مرزا پھول کے ناکام ترین ایڈیٹر ہیں جنہوں نے پرچے کی روایت کو ہی تبدیل کردیا ہے ۔ اس کے برعکس تعلیم و تربیت کے نئے مدیر جاوید امتیازی اور ان کے بعد نذیر انبالوی نے تعلیم و تربیت کا معیار بڑھایا اور بچوں کے مقبول ادیبوں سے رابطے کرکے تعلیم و تربیت میں فاروق دانش اور پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کی تحریروں کو سجایا۔
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے دعوۃ اکادمی کے 25 سال تو پورے کرلیے 2012 ء میں لیکن ان کے ادارے سے بچوں کی کامیاب کہانیوںکی کتابیں ، بچوں کے ادیبوں کا انسائکلو پیڈیا اور گل دستے کے انتخابات ابھی تک سرخ فیتے کا شکار ہیں۔مسعود احمد برکاتی بھی ہمدرد کے بینر تلے نونہال ادب کے سلسلے میں گذشتہ 15 برس سے کوئی قابلل قدر کتاب شایع نہیں کررہے ہیں سوائے حکیم سعید کی مشہوری کے جبکہ شہید پاکستان حکیم محمد سعید نے 1953ء میں نونہال سیاست سے پاک رہتے ہوئَ بچوں کو بہترین ادب کی فراہمی کے لیے جاری کیا تھا لیکن وہ تاحال رفیع زبیری اور مسعود برکاتی صاحبان کی پالیسیوں کا شکاررہا اور محترمہ سعدیہ راشد بھی نونہال کو گروہ بندی سے پاک نہ رکھ سکیں۔
لے دے کر ہندستان میں بچوں کا ادب امنگ اور پیام تعلیم نے جاری رکھا اور وہ رسالے پاکستانی رسالوں کی بٹر کاپی کرکے اپنے ماہانہ پرچے چھاپتے رہے لیکن اب کمپیوٹر کے ترقی یافتہ دور میں سب کچھ کمپیوٹر سے ہی ممکن ہوگیا ہے ۔
رینکنگ کے لحاظ سے بچوں کا ادب
پاکستان میں 25 فیصد
ہندستان میں 35 فیصد
امریکا میں 77 فیصد
ہالینڈ میں 80 فیصد
برطانیہ میں 98 فیصد
افغانستان میں 11 فیصد
ایران میں 19 فیصد
ترکی میں 56 فیصد
لندن شہر میں 100 فیصد
جاپان میں 79 فیصد
چین میں 55 فیصد
شائع ہورہا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے یہاں بچوں کا ادب اور تعلیم کی شرح تسلی بخش سے بھی کم ہے ۔