ایک زبان جب اپنے مخصوص اظہاریے کے لیے دیگر زبانوں سے الفاظ اخذ کرتی ہے تو اس سے نہ صرف اِس زبان کا دامنِ لفظ وسیع تر ہوتا جاتا ہے بلکہ دوسری تہذیب و ثقافت سے آشنائی اور لسانی یگانگت کا تعلق بھی استوار ہوتا ہے۔ تاہم یہ "اخذِ الفاظ" کا سلسلہ نہ صرف کسی مخصوص زبان سے اپنا رشتہ بناتا ہے بلکہ کئی زبانوں کے روزمرے اور محاوروں تک کو اپنے اندر کھپانے کی کامیاب سعی کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ضرورت کی بنا پر ہو تو فبہا، ورنہ حد سے متجاوز ہو کر دوسری زبانوں کے لفظی اثاثے پر نظر رکھنا قرینِ دانش مندی نہیں۔ کیوں کہ حد سے بڑھا ہوا ’’اخذِ الفاظ‘‘ منفی نتائج کا سبب بنتا ہے۔
ہر معاشرے میں معنیٰ کی ترسیل کے لیے متعین الفاظ ہوتے ہیں۔ علاقائی سطح پہ الفاظ کی نوعیت اور ہیئت کا تغیّر ایک فطری امر ہے۔ ممکن ہے ایک جگہ کسی معنیٰ کے لیے جو لفظ وضع کیا گیا ہو، دوسری جگہ وہ لفظ اس معنیٰ میں مستعمل نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ لفظ سرے سے ہی موجود نہ ہو۔ اس لیے معنیٰ کی ترسیل جس طرح لفظ کی محتاج ہے اسی طرح مختلف جگہوں پر ہونے کی وجہ سے ہم انسان بھی اس معاشرے یا ملک کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب کرنے اور اسے وہاں برتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور ظاہر ہے وہی لفظ برتیں گے جو وہاں رائج ہوں۔
زبان تہذیبی عناصر سے اپنا لفظی سرمایہ جمع کرتی ہے۔ یہی اخذِ الفاظ وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتاہے اور جو زبان کسی تہذیب کے جتنا قریب ہوتی ہے اتنا ہی اس سے الفاظ مستعار لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول :
اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنی حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیر حتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔ اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں۔
قاعدہ یہ ہے کہ الفاظ تب مستعار لیے جاتے ہیں جب زبان میں متبادل موجود نہ ہوں، خواہ مخواہ مستعار لینے کا سبب تہذیبی زوال/ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ اخذِ الفاظ کے سلسلے میں یہ چیز ملحوظ رہنی چاہیے کہ ہمیں موضوغی الفاظ (Content Words) درکار ہیں یا ارتباطی الفاظ (Relational Words)۔ کیوں کہ اکثر تو موضوعی الفاظ ہی تارید کے مرحلے سے گزرتے ہیں، لیکن ممکن ہے کبھی ارتباطی سسٹم بھی اخذِ الفاظ کا تقاضا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند اصولی مباحث :
رشید حسن خان نے مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ :
”عربی میں جو لفظ فارسی سے، سریانی سے، عبرانی سے، ہندی سے آئے ہیں، ان کے تلفظ اور معنی دونوں کے تعیّن کا حق اب اہل عرب کو حاصل ہوگیا ہے، یا وہ الفاظ بدستور اُنھی دوسری زبانوں کے قاعدوں کے اسیر رہے ہیں؟۔۔۔ انگریزی میں سیکڑوں ہزاروں الفاظ لاطینی سے، یونانی سے، سنسکرت سے، عربی سے آئے ہیں، سب لفظوں کے تلفظ و معنی میں تصرف کا پورا حق انگریزوں کو حاصل ہوگیا یا نہیں؟
یہ ظلم آخر اردو پر کب تک جاری رہے گا کہ جس لفظ کو وہ چاہے جتنا اپنا لے، لیکن اسے بولتے ہوئے وہ پابند دوسری زبانوں کی رہے گی اور اس کی تذکیر و تانیث میں، اس کے اعراب میں ، اس کی جمع بنانے میں ، اسے حالتِ ترکیب میں لانے میں اردو والے بے بسی سے منہ دوسروں ہی کا دیکھتے رہیں گے! ذرا کسی دوسری زبان والے کے سامنے یہ اصول بیان کرکے تو دیکھیں کہ لفظ آپ کا لیکن اس کا املا، اس کا تلفظ، اس کی گرامر سب دوسروں کی“۔ [١]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ :
”فارسی اور اردو پر موقوف نہیں، ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ آ کر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتے۔ البتہ چونکہ اردو کوئی مستقل زبان نہیں بلکہ عربی، فارسی، ہندی کا مجموعہ ہے، اس لیے اس کو عربی فارسی کے الفاظ پر تصرف کا بہت کم حق حاصل ہے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے اس بات کا التزام زیادہ موزوں ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ صحیح تلفظ اور ترکیب کے ساتھ قائم رکھے جائیں۔ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں ہو سکتا کہ اساتذۂ قدیم و جدید نے عربی و فارسی کے بہت سے الفاظ کو اردو میں غلط طور سے برتا اور آج وہی غلط استعمالات فصیح اور بامحاورہ خیال کیے جاتے ہیں“۔ [٢]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "نقش سلیمان" میں لکھتے ہیں:
"لفظوں کے لینے اور نکالنے میں عربی و فارسی و سنسکرت ڈکشنریوں کو کسوٹی بنانا اور ان میں سے دیکھ دیکھ کر لفظوں کو چننا اور کام میں لانا ہماری زبان کے حق میں زہر ہے اس کی سچی کسوٹی رواج اور چلن ہے آج جو لفظ عربی، فارسی، ترکی، ہندی، مرہٹی، گجراتی، پرتگالی اور انگریزی کے عام طور سے برتے جا رہے ہیں، وہ ٹھیٹ ہندوستانی الفاظ ہیں، ان کو اسی تلفظ کے ساتھ بولنا چاہیے، جس کے ساتھ وہ بولے جاتے ہیں“۔ [٣]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید انشاؔ نے دریائے لطافت میں لکھا ہے کہ :
”جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کی اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔ اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو“۔ [٤]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کے ان تغیرات پہ سید انشاء جیسے ادیب کا قول سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولوی عبد الحق لکھتے ہیں کہ :
”سید انشاء پہلے شخص نے جنھوں نے عربی فارسی زبان کا تتبع چھوڑ کر اردو زبان کی ہیئت و اصلیت پر غور کیا اور دونوں کے قواعد و ضوابط وضع کیے۔ اور جہاں کہیں تتبع کیا بھی تو وہاں زبان کی حیثیت کو نہیں بھولے“ صرف و نحو کے قواعد بھی بڑی جامعیت اور عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ اس بارے میں جن جن باتوں کا انھوں نے خیال کیا ہے، متاخرین کو بھی وہ نہیں سُوجھیں۔ حالانکہ ایسا عمدہ نمونہ موجود تھا۔ اس سے سید انشاء اللہ خان کے دماغ اور ذوقِ زبان کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی فصاحت و غیر فصاحت و صحت و غیر صحت کے متعلق (اوپر جو حوالہ ذکر ہوا) کتنی سچی رائے دی ہے۔ [٥]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظِ ”مشکور“ بمعنیٰ”شاکر“ :
کچھ لغات نے صراحت سے مگر مختصر ذکر کیا ہے کہ مشکور بمعنیٰ شاکر درست نہیں۔
البتہ مہرؔ فوقی بدایونی نے تفصیل سے لکھا ہے :
”مشکور عربی میں بمعنیٰ ستودہ، پسندیدہ۔ جیسے جعل اللّٰه سعيكم مشكوراً۔ مشکور بمعنیٰ ممنون نہیں آیا۔ تعجب ہے کہ مولانا شبلیؒ نے بھی ممنون کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
مگر اب وہ نہیں ہوں کہ پڑا پھرتا تھا
اب تو اللہ کے اقبال سے تیمور ہوں میں [٦]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید سلیمان ندوی جواز کے قائل ہیں۔ لکھتے ہیں :
”عربی میں مشکور اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے اسی لیے مشکور کی جگہ بعض عربی کی قابلیت جتانے والے اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ شاکر یا متشکر بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنی چاہیے!
خود لفظ شکریہ کو دیکھیے کہ اصل عربی مگر شکل عربی نہیں اب اس سے ہم نے دو الفاظ بنائے ہیں: شکر اور شکریہ! خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور انسانوں کا شکریہ وہ ناشکرا ہے جو زبان کی اس توسیع کی قدر نہیں کرنا چاہتا“۔ [٧]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابو الکلام آزاد مولانا عبد الرزاق کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
السلام علیکم۔ مزاج شریف!
والا نامہ ورود ہوا، شرفِ اعتماد ہمراہ لایا۔ خادم آپ کی اس عنایتِ بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا کہ اس نالائق پر نظرِ مشفقانہ فرمائی اور جوابِ عریضہ سے افتخار و عزت افزائی بخشی :
یہ فقط آپ کی عنایت ہے
ورنہ میں کیا؟ مری حقیقت کیا؟ [٨]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبد الماجد دریا آبادی سے اس لفظ بارے استفسار ہوا۔ آپ نے بذریعہ مکتوب اسے جواب مرحمت فرمایا۔ خطوطِ ماجدی صفحہ 179 سے دو خطوط ملاحظہ فرمائیں :
(1) مشکور بمعنیٰ ممنون اصلاً عربی قاعدے سے غَلَط ہے۔ لیکن اردو میں کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے اور عوام ہی نہیں بعض خواص بھی یہی بولنے اور لکھنے لگے ہیں۔ اس لیے زیادہ سختی اب صحیح نہیں، خاص کر جب اس کا عطف ”ممنون“ کے ساتھ ہو۔
اصلاً صحیح لفظ ”شاکر یا متشکر“ ہے۔ اور سلیس اردو میں ”شکر گزار“۔ [٠٩]
(2) سوال کے جواب میں گزارش ہے کہ میرے محدود علم میں ”مشکور“ اس موقع پر عربی قاعدہ سے صحیح نہیں۔ لیکن اردو میں اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ اب اسے غَلَط کہنا بھی آسان نہیں رہا۔
بہرحال خلافِ احتیاط ضرور ہے۔ میں اس موقع پر ”شکر گزار“ لاتا ہوں۔
اور اگر کوئی ”مشکور“ کا عطف ممنون کے ساتھ لے آئے، اب چونکہ غلط فہمی باقی نہیں رہتی۔ اس لیے بھی گنجائش نکل سکتی ہے۔ لغت سے مقدم اہلِ زبان کا محاورہ ہے۔
ہاں! خوب یاد آیا ” شاکر“ اور ”شکر گزار“ کا متبادل ایک لفظ ”متشکر“ بھی ہے۔ [١٠]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید حسن خان فرماتے ہیں :
”عربی قواعد کے لحاظ سے لغت نویسوں کا فیصلہ بالکل صحیح ہے، لیکن ایک دوسری زبان ان قواعد کی پابند کیوں ہو؟ ”مشکور“ بمعنیٰ ”شکر گزار“ آج بھی برابر استعمال ہو رہا ہے اور پہلے بھی بے تکلف استعمال کیا گیا ہے“۔ [١١]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکور بمعنیٰ شاکر – شعری امثلہ :
ریختہ ڈاٹ کام مشہورِ زمانہ ویب سائٹ ہے۔ یہاں سے دو اشعار پیش ہیں :
جذبۂ ہمدردیٔ الفت ترا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی میرا دامن نم ہوا
مانیؔ ناگپوری
اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں
پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا وہ لے کر گیا
شمیمؔ انور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
یہ شعر مختلف جگہوں پر کلیاتِ میرؔ ، مرتبہ مولانا آسی، صفحہ نمبر 737 کے حوالے سے ملتا ہے۔ مذکورہ صفحہ پر تو نہیں البتہ 733 (در منقبتِ حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر موجود ہے۔ [١٢]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید جواد حسین شمیم امروہوی کا ایک بند ہے :
سایہ کی طرح تھا تن بے سایہ
سیر ہو کر کبھی مولا نے نہ کھانا کھایا
فقر و فاقہ میں فقیروں پہ کرم فرمایا
سعی مشکور ہوئی، مدح میں سورہ آیا
صدقِ دل سے جو کرم آپ نے فرمایا ہے
ہَل اَتیٰ خاص پئے وصف عطا آیا ہے [١٣]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید حسن خان اصولی و تمہیدی گفتگو کے بعد چند حوالے پیش کرتے ہیں۔ یہاں ان کے ذکر کردہ اقتباساتِ محوّلہ کو من و عن نقل کرتا ہوں :
(1) — ”جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو“
(مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
(2) — ”ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں“
(مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین ، ص 274)
(3) — ”آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں“
(خط : سید حسن بلگرامی – تاریخ نثر اردو، ص 598)
(4) — ”خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا“
(قول : ابو الکلام آزادؔ – مرقعِ ادب، ص 45)
(5) — علی اوسط رشک نے ایک جگہ ”شکور“ اسی معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے :
شکرِ خدا کہ عشقِ بتاں میں شکور ہوں
راحت ملی، جو رنج مجھے یار سے ملا
(مجموعۂ دواوین رشک، ص 69)
“شکور” نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس (مشکور) معنی میں اس نے رواج نہیں پایا۔ [١٤]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربی دانوں کے رخسار پہ لطمۂ تحقیق :
بعض لوگ اردو پر عربیت کا اثر و رسوخ بٹھانے کی خاطر کہہ دیتے ہیں کہ «مشکور» مفعول کا صیغہ ہے لہٰذا اسے «شکر گزار» کے معنیٰ میں بولنا درست نہیں۔ تو ایسے قابلِ قدر نابغوں سے گزارش ہے کہ لفظوں کی یہ تعمیر و تخریب اردو والوں ہی کو نہیں سوجھی بلکہ خود عربی میں کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً فاعل ہیں لیکن مفعول کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں اور کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً مفعول ہیں لیکن فاعل کے معنیٰ میں برتے جاتے ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی لفظ کبھی فاعل کے لیے استعمال ہوتا ہے کبھی مفعول کے لیے۔
عربی میں فاعل بمعنیٰ مفعول کی کثیر تعداد ملتی ہے۔ مثلاً :
☜☜ امام جلال الدین سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ فاعل بمعنیٰ مفعول کبھی نہیں آتا، مگر صرف درجِ ذیل اقوال میں :
دافق بمعنیٰ مدفوقٌ (ٹپکا ہوا پانی)
سافٌّ بمعنیٰ مسفوفٌ (زیادہ پیا ہوا پانی)
راضیۃ بمعنیٰ مرضیۃٌ (پسندیدہ)
کاتمٌ بمعنیٰ مکتومٌ (پوشیدہ راز)
لیلٌ نائمٌ بمعنیٰ لیلٌ منومٌ (ایسی رات جس میں سویا جائے) [١٥]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
☜☜ امام ابو منصور ثعالبیؒ نے اپنی کتاب میں باقاعدہ ایک فصل کا نام رکھا ہے : "فصل فی الشیء یأتی بلفظ المفعول مرۃ، و بلفظ الفاعل مرۃ، والمعنیٰ واحد" اور اس میں «مکان عامر و معمور»، «آھل و ماھول» اور دیگر کئی مثالیں ذکر کی ہیں۔ [١٦]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
☜☜ امام رازیؒ سورۂ بنی اسرائیل، آیت نمبر ٤٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :
”قالَ الأخْفَشُ: المَسْتُورُ هَهُنا بِمَعْنى السّاتِرِ، فَإنَّ الفاعِلَ قَدْ يَجِيءُ بِلَفْظِ المَفْعُولِ كَما يُقالُ: إنَّكَ لَمَشْئُومٌ عَلَيْنا ومَيْمُونٌ وإنَّما هو شائِمٌ ويامِنٌ، لِأنَّهُ مِن قَوْلِهِمْ شَأَّمَهم ويَمَّنَهم“ [١٧]
عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔ بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے۔
دائمؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :
[١] ماہنامہ تحریک (دہلی) جولائی ١٩٦٤ء – بحوالہ : زبان اور قواعد، صفحہ ١٧ تا ١٨
[٢] مقالاتِ شبلیؒ، جلد دوم، صفحہ ٦٠ ۔ دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ
[٣] نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٧، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ
[٤] بحوالہ : دریائے لطافت مترجم، صفحہ نمبر ٣٥٣
[٥] [مقدمہ «دریائے لطافت» صفحہ ٠٤
[٦] [بحوالہ : لغاتِ مہرؔ، مہرؔ فوقی بدایونی، بزمِ ارتقائے ادب، کراچی، صفحہ ٣١١
[٧] نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٨، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ
[٨] مکاتیبِ ابو الکلام آزاد – جلد اول، صفحہ ٣٣
[٩] خطوطِ ماجدی – صفحہ ١٧٩
[١٠] ایضاً
[١١] زبان و قواعد، رشید حسن خاں – صفحہ ٥٥ – قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
[١٢] کلیاتِ میرؔ ، مرتبہ مولانا آسی – صفحہ ٧٣٣
[١٣] خاندانِ شمیم کی مرثیہ گوئی – صفحہ ٧٧، تدوین : ڈاکٹر عظیمؔ امروہوی، جامعہ نگر، نئی دہلی، طبع ٢٠٠٩ء
[١٤] زبان و قواعد، رشید حسن خاں – صفحہ ٥٦ – قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
[١٥] المزھر فی علوم اللغۃ و انواعھا از امام سیاطیؒ – جلد دوم، صفحہ ٨٩
[١٦] "فقہ اللغۃ و اسرار العربیۃ، امام ثعالبی – صفحہ ٤٢١
[١٧] التفسير الکبیر للإمام فخر الدين الرازیؒ – تفسیرِ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ٤٥