::: " اردو میں ادبی تنقیدی نظرئیے کی گمشدگی : کیا اردو کا قاری اور ادب کے تنقیدی نظرئیے کو سمجھنے سے عاری ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ " :::
*** اظہاریہ : احمد سہیل ***
ادبی نظرئیے میں تحقیق کو کلیدی حیثت ہوتے ہے۔ موثر ادبی تحقیق اور مناجیاتی سطح پر کئے ہوئے اور مطالعے اور تجزیات ادبی نظرئیے کو معتبّر بناتے ہیں۔ اسے مفروضہ یا قیاس بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ حتمی تصور یا خیال نہیں ہوتا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شکست اور ریخت کے مراحل سے بھی گذرتا ہے ۔ جس طرح کارل مارکس، سگمنڈ فرائیڈ، ژان پال سارتر، لیوی اسٹروس، ژاک دریرا اور ہنگلٹن کے فکریات کی نئی تعبیرات پیش کی گئی ہیں۔ اور نئی مناجیات اور منطقی استدلالیت سے ان دانشورون کے نظریات کو مسترد بھی کیا گیا۔ الطاف حسین حالی نے " مقدمہ شعر و شاعری" میں ادب کی نظریاتی مباحث کی کچی اینٹ رکھی۔ شبلی نعمانی نے تقابلی ادب کی ادبی نظرئیے کی مباحث کی ابتدا کی۔ امداد امام اثر کے ادبی نظرئیے میں تحقیق اور فکری وسعت النظری سبب اردو کے ادبی نظرئیےکو نئے افق دئیے۔ مولوی عبد الحق نے تنقید کی لیے تحقیق کے عمل کو ضروری سمجھتے ہیں۔۔ محی الدیں قادری، عبد الرحمان بجنوری، حافظ محمود شیرانی، امتیاز علی خان، مالک رام، گیان چند جین، قاضی عبد الودود اور رشید حسن خان کے تحقیقی کارناموں میں اردو کی ادبی نظریہ سازی بھی پوشیدہ ہے مگر اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اردو میں تحقیقی مناجیات روایتی طرز کی وہ مشکوک ہے اور اس میں سقم بھی ہیں۔ اس زمانے میں الہیاتی اور مذھبی طریق مباحث سے بھی اردو کے تنقیدی نظرئیے کو تشکیل دینے کی کوشش کی گئی اور تدریسی سطح پر کم ہی سہی مگر مغربی نظریاتی تحقیقاتی مناجیات سے اردو سے متعارف کروایا گیا لیکن اس کو ھمارے " روایتی" قاری" نے " پھیکا" قرار دے کر ادھر ادھر کردیا ۔ 1990 کے بعد اردو میں نظریاتی ادبی مطالعوں میں نئی مناجیات کو لسانیات، فلسفہ، بشریات، عمرانیات ، نفسیات کو مخصوص تکنیکی ہنر مندی کے ساتھ اپنے یہاں استعمال کیا گیا۔ مگر عام اردو کا قاری اس کو نہیں سمجھ سکا اور اس سے اغماّض برتا ۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ اردو نئی مناجیات تحقیق " سکہ بندی" کا شکار ہوگئی اور قاری کی کوتاہ فہمی اور عدم مطالعے کے سبب اس کو وسیع تر معنی نہیں مل سکے۔ لہذا اس پر ماتم ھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں فکری رسائی کو زنگ لگ چکا ہے۔ اردو کا عام قاری ھی نہیں بلکہ اردو کے جید تنقیدی دانش وار، ناقدین، اوراردو ادب کےاساتذہ بھی نظریاتی ادبی تنقیدی نظرئیے کی تازہ ہواوں کو محسوس نہیں کرسکے۔ اور اس سے جان چھراتے نظر آتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔
یہ تحیریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔