(Last Updated On: )
ترجمہ کی تعریف مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں مختلف طرح سے کی ہے۔ جیسا کہ نوراللغات میں مولوی نورالحسن نیئر نے ترجمہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ، "ایک زبان کے لغت کو دوسری زبان میں بیان کرنا" اس کے علاوہ عطش درانی نے ترجمہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ! "ترجمہ کسی زبان پر کیے گئے ایسے عمل کا نام ہے جس میں کسی اور زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا متبادل متن پیش کیا جائے۔"
ترجمے کے مفہوم کو اگر آسانی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ترجمہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں کسی ایک زبان کے معنی و مطالب کو کسی دوسری زبان میں ڈھال دیا جائے یا منتقل کر دیا جائے۔ اور خالد اقبال نے اپنی کتاب "فنِ ترجمہ اصول و مبادیات" میں ترجمہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے!
"میرے خیال میں ترجمہ، ایک زبان میں پیش کردہ حقائق کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا ہےکسی تحریر، تصنیف کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے"
اس کے بعد ترجمہ کی روایت پر اگر بات کی جائے تو بڑے چشم کشا حقائق سامنے آتے ہیں کہ ترجمہ کی روایت بہت قدیم ہے دوسری زبانوں مثلاََ فارسی، عربی وغیرہ میں لکھی جانے والی قدیم داستانوں، قصوں اور کہانیوں وغیرہ کے اردو زبان میں تراجم ہوئے، اس کے بعد خاص طور پر جب انگریز برصغیر میں در آیا اور مختلف کالجز بنائے اور مختلف کتب غیر اردو کے اردو میں تراجم کرنے کا کام کیا، اس میں فورٹ ولیم کالج اور اس کے تراجم کی بہت اہمیت ہے۔ یہ روایت اسی طرح آگے بڑھتی گئی اور سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی نے بھی تراجم کا کام کیا۔ پھر اردو میں بچوں کا ادب بھی تراجم کی مدد سے داخل ہوا۔ ترجمہ کی روایت میں دارالترجمہ عثمانیہ کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے۔ یہ روایت اسی طرح چلتی رہی اور بہت سےناول اور افسانے انگریزی سے ترجمہ کر کے اردو ادب میں داخل کئے گئے۔ اردو ترجمہ کی روایت میں صوفیاء کا بھی حصہ ہے اس حوالے سے مرزا حامد بیگ اپنی کتاب "اردو ترجمے کی روایت" میں رقم طراز ہوتے ہیں کہ!
"جن مسلمان صوفیاء نے اردو زبان کی نشو ونما اور اردو میں ترجمے کی بنیادیں رکھیں، ان میں سے بیشتر امر بالمعروف والنہی عن المنکر کا کام کرتے تھے"
ترجمے کی اہمیت اور مقاصد کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یہ بات قابلِ دید ہے کہ کسی بھی زبان کے الفاظ کا ترجمہ جب کسی دوسری زبان میں کیا جاتا ہے تو ہدفی زبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ تراجم کی بدولت ہی معلومات کی ترسیل ہوتی ہے، اور اس ترسیل کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ترجمہ کتنے شفاف انداز میں کیا گیا ہے، ترجمے کی اہمیت اور مقاصد کا اندازہ اس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ترجمہ ہی تھا جس کی بدولت اب تک اردو ادب اور لسانیات کا دامن وسیع ہوگیا ہے، ترجمے کی اہمیت و مقاصد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی بدولت کسی غیر زبان کی ثقافت اور تجربات سے آگاہی ممکن ہو جاتی ہے، غیر زبان کے مذہب سے آگاہی کے لیے بھی ترجمہ ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، بہت سی نئی تراکیب اور نئی اصطلاحات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے، ترجمے کی اہمیت و مقاصد کو واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر قمر رئیس اپنی کتاب "ترجمہ کا فن اور روایت" میں لکھتے ہیں کہ!
"ترجمہ وہ کنجی ہے جس کے ذریعے علوم و فنون کے خزانے سب کے لئے کھل جاتے ہیں اسی لیے روز بروز ترجموں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اور ترجمے نے بھی تخلیق کا درجہ پا لیا ہے"
ترجمے کی بدولت علوم کے خزانے ایک زبان سے دوسری زبان میں داخل ہوتے ہیں اسی لیے آج کل ترجمہ کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اور اسی اہمیت کے پیش نظر فن ترجمہ کاری آج ایک تخلیق کا درجہ پانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ترجمہ کی اہمیت تو مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی بدولت مختلف معاشرتوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ جب ایک معاشرت کے لوگ کسی دوسری معاشرت کی ثقافت، تہذیبی روایات اور اخلاقی و جمالی اقدار کا ترجمے کی بدولت مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ان کی تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج سے آشنا ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترجمہ کی بدولت ہی ثانوی زبانوں کی تدریس میں معاونت بھی ممکن ہوتی ہے، اسی حوالے سے پی- لائیو کہتے ہیں کہ!
"ترجمہ ثانوی زبان کی تفہیم میں طلباء کے لیے معاون ہو سکتا ہے۔ اس سے طلباء اس بات کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی تفہیم درست ہے یا غلط۔ یہ دوسری زبان میں خیال سازی اور اظہار خیال میں طلبہ کی مدد بھی کرتا ہے۔ ترجمہ ثانوی زبان سیکھنے کے شوق کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔"
ترجمے کی اہمیت و مقاصد کو ظاہر کرنے کے لیے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کہتے ہیں کہ!
"نوزائیدہ اور ترقی یافتہ دونوں زبانوں میں علمی اور فلسفیانہ ابلاغ و اظہار میں ترجمے بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ترجموں کی ہی مدد سے کوئی زبان ابتدا میں گردوپیش کی زبانوں کا اثر و نفوذ قبول کرتی ہے۔ نئے الفاظ کا اخذ و انتخاب کرتی ہے، اور ترجموں کی ہی مدد سے اس میں بلحاظ ہیت و معنی، علمی و ادبی مباحث کے اظہار کا ذریعہ بننے کی صلاحیت اور قوت پیدا ہوتی ہے۔(نگار، جنوری ۱۹۳۶ء)
ترجمے سے زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے، گہرائی پیدا ہوتی ہے، نئے آسالیب جنم لیتے ہیں، ترجمے ہی کی بدولت کوئی بھی زبان نئی اصناف سے آشناء ہوتی ہے، ترجمہ دو تہذیبوں اور دو زبانوں کے درمیان ایک پل کا کام دیتا ہے، جس کی بدولت خیالات اور تصورات ایک تہذیب اور ملک سے دوسری تہذیب اور ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ ترجمہ ہر دور میں کسی بھی زبان کی اہم ترین ضرورت رہا ہے۔ ترجمے کی مدد سے ہی کسی بھی زبان کا جمود ختم ہوتا ہے۔ تراجم سے علم و ادب کے سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے، جدید ٹیکنالوجی اور سائنس سے متعلقہ جو مواد ہوتا ہے وہ ترجمے کی بدولت ہی دوسری زبانوں میں منتقل ہوتا ہے، اس وجہ سے ہم اس مواد کو اپنی زبان میں زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ پاتے ہیں، اس لئے ترجمے کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔