”تمیں میری ذرا سی خواہش کا احترام نہیں ہر وقت کہتی رہتی ہوں بانہیں سونی نہ رکھا کرو ،“وہ جب بھی زیادہ غصہ کرتیں تو منہ بنا کر خاموش ہو جاتیں، میں ہنس کر جواب دیتی ”اماں ایسے یونورسٹی میں اچھا نہیں لگتا کہ میں سونا پہنوں“ ”مگر مجھے تو اچھا لگتا ہے کہ میری بیٹی سب سےمنفرد لگے ، مجھے زیور سے الرجی اور اماں کو مجھے زیور پہنانے کا شوق،ہماری نوک جھونک چلتی رہتی ،بھلا وہ کیسے جان سکتی تھیں کہ بیٹیاں جب گھر کا بیٹا بننے کا ٹھان لیں تو پاٸل کی جھنکار یا چوڑی کی چھن چھن کی آوازیں کبھی سناٸی ہی نہیں دیا کرتیں ،آخری سانسیں لیتی ماں کی آخری رسوماتکا سوچ کر دل میں جو وحشت طاری ہو تی ہے وہ والدین کو اپنے ہاتھوں رخصت کرنے والے ہی جان سکتے ہیں ،والدین کو رخصت کرتے سمے بہن بھاٸوں کے کندھے بہت ساتھ دیا کرتے ہیں مگرمطلوبہ سہولیات میسر نہ ہونے پر خود کو خود ہی پرسہ دینا پڑتا ہے اور خلقت کا پرسہ وصول کرنے کی طاقت بھی بنانی پڑتی ہےماٶں کو بیٹیوں کو بنا سنورا دیکھنے کا جو شوق ہوتا ہے وہ ہر جگہ سے نت نٸ اشیا جمع کرنے پر مجبور کر تا ہے ،کوٸٹہ کے نواحی علاقوں میں دور دراز گاٶں”کلی“ کہلاتے ہیں جہاں جا کر نت نۓ کڑھائی کے ڈیزاٸن دے کر آیا کرتیں جو آج بھی نایاب ہیں،
ماں کے پیار کا دنیا کی کسی محبت سے تقابل نہیں