زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر آری اس سے ہوتی ہے۔ وہی اس کے محافظ و مختار ہیں۔ انہیں نے عوارض اور ضروریات کے مطابق اس کو پنے ڈھب کا بنایا ہے۔ ہمیشہ ہر کہیں ایسا ہی ہوتا ہے۔ زبان کا ہر جز و ترکیبی مسلسل تغیرات کا ماحصل ہے، جو اہالیان زبان کے ارادے اور رغبت سے عمل پذیر ہوا۔ یہ لوگ تاریخی عوارض، انسانی فطرت اورداعیے کے تہیج سے متاثر تھے جن کے نشانات ہماری نظر میں صاف نمایاں ہیں، اور یہی زبان کو سائنٹفک تحقیق و تفحص کا شایاں موضوع قرار دیتے ہیں۔ انہیں امتیازی اعتبارات سے مطالعہ زبان کی نوعیت کا، مثل تاریخ و اخلاقیات کے تعین ہوتا ہے۔ زبان انسانی تہذیب اور نوع انسان کی تاریخ کا ایک شعبہ ہے۔ زبان متعدد علوم سے استعانت کرتی ہے لیکن باوجود اس کے انسان کا ذہن افکار کے اظہار کی تلاش اور چھان بین میں زبان کی ترقی و دخل معضلات اور روابط و نتائج کے درمیان ایک قسم کی حد وسطیٰ ہے۔ تاریخ کی مانند زبان کی بھی تحلیل عامیہ مثل کیمیا اور طبعیات کے ایک معمول میں ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معمل میں اسی شے کا دخل ممکن ہے جو امر واقعہ ہو اور قانون قدرت کے کلیہ کے تحت جگہ پا سکے۔ زبان امر واقعہ تو ہے مگر بہ تقاضائے نوعیت ہمیشہ معرض تغیر میں ہے اور یہی مابہ الامتیاز لسانیات کو دوسرے علوم سے حاصل ہے۔لسانیات کے باب میں تحلیل و تجزیے کی وہ اصول عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے جو طبیعات ومادیات پر حاوی ہیں۔ زبان سالمات یا سالبات کے قدغن سے مبرا ہے۔ ہاں علما کوشش میں ہیں کہ زبان کو سائنس۔۔۔ کہئے علم نفسیات و صوتیات کے تحت لائیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ اول الذکر جیسا کہ اس وقت ہے، ضرور یہ شان رکھتا ہے کہ لسانیاتی مسائل پر اس کے خاص نظریوں کی روشنی میں فکر کی جائے۔ یہ امر متقدمین اردو کے ذہن نشین تھا۔ اہالیان اردو نے زبان کی طرف سے علمی تخیل کو کبھی طلاق نہیں دی۔افعال کے صیغوں کی تنظیم، سائنٹفک اصول پر صفت و موصوف اور مضاف، مضاف الیہ کی تقدیم و تاخیر کا آئین، حروف جار کی معنوی حیثیت کی تعیین، اسلوب اور زبان کی داخلی استعداد کے مطابق مرکبات کی توضیع، تارید کے موقعوں پر تصرف کا مستحسن استعمال، محاورے کی سلاست اور منطقی تدوین، ضرب الامثال کی عمومیت، کلیت اور قوت تالیف، اور تعقید و اضمار قبل الذکر کی معائب انشا میں شمولیت وغیرہ وہ امر ہیں جو عہد قدیم و متوسط میں اہالیان اردو کے حسن شعور اور سلیقہ تنظیم کی ہزار زبان سے داد دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض امور جستہ جستہ آپ کی توجہ کے لئے پیش کئے جائیں گے۔خدا معلوم وہ دن اردو زبان کے حق میں کتنا اہم اور نتیجہ خیز تھا جب حضرت شاہ سعدا للہ گلشن نے شمس الدین ولی کو ہدایت کی، ’’ایں ہمہ مضامین فارسی کہ پیکار افتادہ اندوریختہ بہ کار ببر۔ از تو کہ محاسبہ خواہد گرفت۔‘‘ترجمہ، ’’یہ اتنے سارے فارسی کے مضمون جو بیکار پڑے ہوئے ہیں، ان کو اپنے ریختے میں میں استعمال کر، کون تجھ سے جائزہ لے گا۔‘‘استاد کی ہدایت کی تعمیل میں وہ مضمون تو شاگرد رشید نے اٹھا لیے، جن کی بدولت اس کے کلام کو شہرت دوام کا تمغہ نصیب ہوا، مگر زبان اس نے شاہ جہاں آباد کی اردوئے معلی ہی رکھی۔ شاہ صاحب کا عندیہ یہ تھاکہ ولی دکنیت کو ترک کر کے اردو زبان کو ایران کی نظر گفتاری، تشبیہ و استعارہ وغیرہ محاسن کلام یا اصناف شعری سے متمول کرے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ تین صدی بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ اس مفید مشورے کے الٹے معنی لئے جائیں گے اور چند حروف جار اور امدادی افعال وغیرہ کے سوا اردو کلمے کلام سے خارج کر دیے جائیں گے۔اردو نے قدیم اور متوسط زبانوں میں کیا لسانی ترقی کی، اس اعتبار سے اب اس کی کیا حالت ہے اس کا مجمل تذکرہ آج کیا جائے گا۔ تحقیق اس امر کی منظور ہے کہ عہد حاضر میں اردو لسانیاتی اعتبار سے کس درجہ کو پہنچی ہے اور یہ کہ وہ حالت اطمینان کے قابل ہے یا نہیں؟ یہ تحقیق نہ صرف اس یا اس جماعت بلکہ ہر شخص کا فرض ہے جو اردو کو ا پنی زبان کہنے کا دعویٰ کرتا ہے۔زبان کے ترکیبی فعلوں میں سے یہاں صرف دو کا ذکر کیا جائے گا یعنی اختراعی یا ابداعی استعداد اور اخذ کی قابلیت۔ یہی دو علامتیں ایک زبان کے سر جیون ہونے کی ہے۔ یہ قابلیت اور استعداد جب کسی زبان میں زائل ہو جاتی ہے تو اس کی ترقی کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔ اور اسباب بھی ہیں جو زبانوں کی ترقی بلکہ زندگی کے مزاحم ہوتے ہیں، جیسے راوج و پسند عام کو قطعاً نظر انداز کر دینا اور زبان سے متعلق ہر امر کو سائنٹفک تنقیح قرار دے کر قاعدے کے قیود و تعینات میں جکڑ بند کر دینا جیسا کہ سنسکرت کے ساتھ ویاکرنیوں نے کیا۔میں مانتا ہوں کہ قاعدے اورآئین کی ضرورت مسلم ہے لیکن اس کا استبداد اور باون تولے پاورتی جیسے یقینات عامہ کو حکم ناطق زبان کی شبابیات اور اپج کا دشمن ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اختراع بغیر حسن شعور اور ذوق سلیم کے اور اخذ بغیر تصرف حسنہ کے ممکن نہیں۔ اردو کی موجودہ حالت دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ بے چاری اس مقام کے قریب تو نہیں پہنچ رہی ہے جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم انانیت اور بر خود غلط ہونے سے دور ہٹ کر نظر غائر سے کام لیں تو خوف ہے کہ شبہ یقین کے قریب پہنچ جائے گا۔ لسانیات اور ادبیات یا کہئے کہ زبان اور لٹریچر میں جو امتیاز ہے اس کی تصریح کی ضرورت نہیں۔مختصر یہ کہ یہ امر تمام اردو دنیا کا دل بڑھانے اور امید دلانے والا ہے کہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کے دارالترجمہ کا تتمہ نہیں یعنی کسی خط تواناں کا ورق ثانی نہیں بلکہ زبان کی ترقی و اصلاح بھی اس کے مقاصد میں ہیں۔ آج کا موضوع محض اس غرض سے انتخاب کیا گیا کہ جامعہ کے معزز اراکین اور اصحاب حل و عقد اور دوسرے ادیب اور نکتہ رس اصحاب جو اس صحبت میں تشریف رکھتے ہیں، ان کی توجہ اس طرف منعطف کی جائے، یعنی اردو کی لسانیاتی حالت کی جانب، تاکہ وہ بزرگ اس کیفیت وکمیت کا موازنہ کریں۔ اس لحاظ سے شاید ہندی بھی اسی ضغطے میں ہے جس میں اردو ہے لیکن میرا روئے سخن اردو کی طرف ہے۔عرض کیا گیا ہے کہ جب کوئی زبان اختراع و اخذ کے بارے میں قوت فعل سے عاری ہو جاتی ہے تو ارتقا کی شاہراہ سے بھٹک جاتی ہے۔ اگر ابھی سے روک تھام نہ کی گئی تو خوف ہے کہ اب سے دور ی موذی مرض کہیں لا علاج نہ بن جائے۔ پہلے اس کا جائزہ لیا جائے گا کہ اردو کی لسانی ترقی سے متعلق متقدمین اور متوسطین نے کیا کچھ کیا اور پھر بتایا جائے گا کہ ان کے متعاقبین اور عہد حاضر کے کارنامے کیا ہیں لیکن یہ سب امور ایک واحد لکچر میں احاطہ نہیں ہو سکتے۔ جو کچھ کہا جائے گا بالا جمال ہوگا۔متقدمین کرام کو جس وقت یہ چیٹک لگی کہ اردو یا ریختہ کو منظم کریں، تو ان کے سامنے کوئی مکمل دیسی ہندوستانی نمونہ موجود نہ تھا۔ اس وقت کی ہندی یا برج بھاشا سور سینی یا پراکرت کو آج کل کے لسانیاتی معیار اور اصول کے متبع مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ اگر کسی میں اعلیٰ نظم موجود تھی تو نثر مفقود اور کسی میں نثر تھی تو نظم مہتم بالشان ندارد تھی۔ اس لئے تحقیق اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ’’ہند ایرانی‘‘ مسالے سے جو بت تیار ہوا تھا اس کی پوشاک توہندوستانی رہی لیکن اس کے لے زیور کچھ ہندستان اوراور زیادہ تر ایران کا استعمال کیا گیا۔ یہ آپ جانتے ہیں، زیور کس قدر پیارا اور سہانا ہوتا ہے۔ اردو زبان کی تدوین و تزئین کے بہت سے اصول اور طریقے بتائے گئے ہیں لیکن جو گر سید انشا مرحوم نے دریافت کیا، فلسفہ زبان کا سر تاج ہے اور رہے گا۔ جب تک کہ اردو زندہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں،’’مخفی نماند کہ ہر لفظے کہ در اردو مشہور شد، عربی باشد یا فارسی یا ترکی یا سریانی یا پنجابی یا پوربی، از روے اصل غلط باشد یا صحیح، آن لفظ لفظ اردو است۔ اگر موافق اصل مستعمل است ہم صحیح، و گر خلاف اصل است ہم صحیح۔ صحت و غلطی آن موقف بر استعمال پذیرفتن در اردو است۔ زیرا کہ ہر چہ خلاف اردو است، غلط است، گو در اصل صحیح باشد و ہر چرہ موافق اردوست، صحیح باشد، گودر اصل صحت نہ داشتہ باشد۔‘‘ترجمہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا، اردو ہو گیا خواہ وہ عربی یا فارسی ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہویا پوربی، از روے اصل غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے مطابق ہے تو بھی صحیح ہے اور اگر اصل کے خلاف مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے۔ اس کی صحت اور غلطی اردو میں اس کے استعمال میں آنے پر منحصر ہے کیونکہ جو اردو کے خلاف ہے، غلط ہے خواہ وہ اصل زبا ن میں صحیح ہو۔ اور جو اردو کے موافق ہے صحیح ہے خواہ وہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو۔‘‘سید مبرور نے ان چند فقروں میں تہذیب لسان کے ضابطے کالب لباب پیش کر دیا ہے۔ اسی اصول پر اردو بنی اور پروان چڑھی۔ اسلاف کا دستور العمل یہی تھا۔ یہ تصرفات اردو جن کو میں ایک لفظ ’’تارید‘‘ سے تعبیر کروں گا، تفریس و تعریب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور رکھیں گے جب تک اردو زندہ اور چالو زبان ہے کیونکہ اول تو وہ عربی یا سنسکرت کی طرح صرف زبان نہیں اور دوسرے یہ کہ اس کی بنیاد ہی کاٹ چھانٹ اور تصرف ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ آیا زبان کی ساخت کا یہ گر اردو والوں نے ہندی سے سیکھا جس کا بہت امور میں سنسکرت سے انحراف بدیہی ہے۔بہرحال کامل تحقیق اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دسویں صدی کے قریب سو ر سینی اپ بھرنش سے مغربی ہندی نکلی جس کے میل سے دو آبہ گنجم 1 میں ایک نئی زبان پیدا ہوئی۔ اسے مستشرق اور لسان ہندوستانی کہتے ہیں۔ پھر اس کی دو شاخیں ہو گئیں جس کی وجہ اول اول رسم الخط تھی۔ یہ دو شاخیں آپ کی ہندی اور اردو ہیں۔ زبان کی تاریخی روداد کے اس مجمل حوالے سے میرا مطلب یہ ظاہر کر دینا ہے کہ جو دعویٰ ہم اردو کے بارے میں کرتے ہیں، بہت ممکن بلکہ اغلب ہے کہ اس میں ہندی والوں کا بھی حصہ شریک ہے، کیونکہ یہ امر ثبوت اور استدلال کا محتاج نہیں کہ جب تک ہندوستانی دو شاخوں میں منقسم ہو کر جداگانہ ضبط تحریر میں نہ آئی، سب برابر کام کرتے رہے اور اسے بناتے رہے۔اس سلسلہ میں پہلے اسموں کو لیا جائے گا۔ اردو دانوں نے نہ صرف یہ کیا کہ الخالُق کو الخالَق (پوشاک کی چیز جیسے اچکن) جا جُم کو جاجَم اور موسِم کو موسَم بنا لیا، بلکہ بہت سے عربی الفاظ کی جنسیت بھی بدل دی۔ فارسی خوش نصیب تھی کہ اس نے یہ بکھیڑا پالا ہی نہیں۔ مثلا شمس جو عربی میں مؤنث تھا اردو میں مذکر ٹھہرا۔ آپ کہیں گے کہ یہ مداخلت بیجا کیوں، یہ تو سخت لسانی بدعت ہے؟ میں کہتا ہوں اس لغت کے لئے ان کے پاس صرف دو متبادل طریق عمل تھے۔ یا تو وہ اس لفظ کو لیتے ہی نہیں اور لیتے تو اس کے مترادف لغت ہندی کی جنسیت کا اتباع لابد تھا، جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یعنی سورج۔یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ غیر زبان کے اسموں کی تذکیر و تانیث سے متعلق ان کا نظریہ یہ تھا کہ ان کو دیسی مرادف اسموں کی جنس کا متبع کرتے تھے۔ مدتوں اہل اردو اسی دستور پر چلتے رہے اور جو محتاط ہیں اور ذوق سلیم رکھتے ہیں، اب بھی اس پر عامل ہیں۔ انہوں نے مُندیل کو مَندیل، جادّہ (بروزن مادّہ) کو جادہ، تُوَشک (بجز فوقانی سب حرف ساکن) کو توشک اور بغچہ (غین معجمہ کو) بقچہ کر دیا، قِس علی ہذا۔میں جلدی سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان اور بیسیوں دوسرے الفاظ میں تصرف کی معقولیت اور وجاہت کے حق میں زبر دست دلائل پیش ہو سکتے ہیں، جس کا یہ موقع نہیں۔ تصرف کا عمل الفاظ فارسی و عربی کی صوتی حیثیت یعنی تلفظ اور جنسیت تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ اصل معنوں میں بھی تصرف کئے گئے۔ تحفہ سوغات کے معنی رکھتا تھا لیکن وہ ا چھے، سجل اور تازے کے معنے میں بھی استعمال ہونے لگا۔وہ زمانہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا کہ با ت بات میں ملی نچ نکالی جاتی۔ ان لوگوں کے نزدیک ہندو مسلمان اور ان کے مذہب یا مذہبی روایتیں اور اصطلاحیں یکساں تھیں۔ انہوں نے اپنی زبان کو بنانے اور سنوارنے کا عزم کیا تھا، شدھی یا تبلیغ کا نہیں۔ ان کا قول و فعل تھا، عیسیٰ بدین خود و موسیٰ بدین خود۔ خیر قرآن کا جامہ پہننا اور گنگا اٹھانا تو رہا ایک طرف، انہوں نے صلوۃ جیسے لغت کے معنیٰ میں جو جناب رسالت مآبؐ کی مقدس ذات سے مخصوص ہو چکا تھا، تصرف کیا۔ اگر چہ اتنا پاس ادب ضرور رہا کہ اسے محض صیغہ جمع تک محدود رکھا۔ میر تقی میر مغفور فرماتے ہیں؛پڑھتا تھا میں تو سبجہ لئے ہاتھ میں درودصلواتیں مجھ کو آکے وہ ناحق سنا گیاانہوں نے گنگا کو الٹا کر پھر شوجی کی جٹاؤں میں پہنچا دیا۔ منشی اسیر کا شعر ہے،ہم تو پیاسے رہے، مے غیر کو دی، پیر مغاںالٹی اس شہر میں بہتی ہوئی گنگا دیکھیاصل میں تھا ’’لا الی الذین و لا الی الذین‘‘، یعنی نہ ان میں سے نہ ان میں سے۔ اس سے بنا لیا اِللذی نہ اُللذی بمعنی مذبذب، ڈانوا ڈول، چنانچہ سید رضی نے کہا،نہ تو عاشقوں ہی میں جا ملی، نہ وہ فاسقوں سے بنی رہیتری وہ مثل ہے اب اے رضی کہ اِللذی نہ اُللذیکلمہ مقدس لن ترانی کی شان ورود تشریح کی محتاج نہیں۔ اس کے معنی قرار پائے خود ستائی، انانیت، شیخی وغیرہ۔ شیخ ناسخ نے فرمایا۔لن ترانی سنتے ہیں، دیدار سے محروم ہیںیعنی اس حیرت کدہ میں کور ہیں ہم کر نہیںٹھاکروں کی پوجا میں سب سے پہلے گنیش کی پوجا کی جاتی ہے، مگر وہ بھی تصرف و اختراع کی زد سے نہ بچ سکے ’’گوبر گنیش‘‘ کا مرکب آپ کے روز مرہ اور لغات میں موجود ہے۔سامعین کرام! اور بگلا بھگت اور ولی کھنگر کی طرف توجہ فرمایئے، کیا برابر کی جوڑ ہے! شوق قدوائی مرحوم نے فرمایا،کھویا انہیں شوق کیمیا نے اے شوقلوٹا انہیں جھوٹے فقرا نے اے شوقکاہل نہیں ایک اور ولی کھنگر لاکھبس دور کے ڈھول ہیں سہانے اے شوقرام کہانی ہندوؤں کے ہاں رام چندر جی کی کتھا کو کہتے تھے، اردو دانوں نے اس کے معنی میں تصرف کر کے اس طرح استعمال کیا، جرأت مرحوم کا ارشاد ملاحظہ ہو۔درد دل اس بت بیدرد سے کہئے تو کہےجا کے یہ ر ام کہانی توسنا اور کہیںکھٹ سنسکرت میں چھ کا نام ہے۔ کھٹراگ کے لغوی و اصطلاحی معنی ہیں، چھ راگ۔ یہ مرکب ان چھ مول راگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جن سے بہت سی راگنیاں نکلی ہیں۔ مگر اردو میں اس کے معنی کی لے اور سر کیا، ٹھاٹھ ہی بدل دیا۔ صبا کا شعر ہے،پڑے ہیں عشق کے کھٹراگ ہیں ہم اے مطربکسے خیال ہے دھرپد، ترانے تروٹ کامرکب اسموں کے سلسلے میں ایک اور لفظ کا ذکر کیا جائے گا، وہ ہے ’کٹ بدیا۔‘ اس کے معنی آپ جانتے ہیں، مار پیٹ، زدو کوب، یہ وہ بدیا ہے جو بے سکھائے پڑھائے آتی ہے۔مبادا آپ سنتے سنتے اکتا جائیں اس لئے اب اس سلسلے کو ختم کرتا ہوں۔ میں نے کئی سو لفظوں کا ایک نقشہ مرتب کیا ہے جن میں اسم بھی ہیں اور افعال و ضمائر وغیرہ بھی۔ اس کے چھ خانے رکھے ہیں (1) اردو (2) ہندی (3) پنجابی (4) اپ بھرنش (5) پراکرت اور (6) سنسکرت۔ اس موقع پر سارا نقشہ تو پیش کرنا تو طول عمل ہے، نمونے کے طور پر پانچ چھ لفظ عرض کئے جائیں گے جو اردو الوں کے اخذ و تصرف کے سلیقے کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں۔اردو ہند یپنجابی اپ بھرنش پراکرت سنسکرتچھانو چھئیاں چھاں چھاؤ چھا آ چھایابیکا بانکا و ینگا و نگکؤ و کّو و کرکڈھیٹ ڈھیٹھ ڈھیٹھ ڈھٹھو ڈھٹھو دھرشٹسچ سانچسچّ سچّ سُچمسیتمکویل کویَل کولکویل کویلا کوکلادکھا دیکھا ڈٹھا ڈٹھو ڈٹّھ دِرشٹحفظ مراتب کی نظر اور ادبی رواداری ملاحظہ فرمائیے۔ ایک لفظ کو مفرد حالت میں تو اپنی ڈھب کابنا لیا مگر مرکب حالت میں اس کی اصلی ہئیت کو ہاتھ نہ لگایا۔ مثلاً سانچ کو بدل کر سچ کر لیا لیکن ’’سانچ کو آنچ نہیں‘‘ اس میں سانچ ہی رہنے دیا۔ اسی طرح ہست سے بتدریج ’’ہتھ‘‘ بنا، جب ہمارے ہتھے چڑھا، تو ہم نے اس کو ہاتھ بنالیا لیکن مرکبات میں اس کی وہی سور سینی شکل قائم رکھی۔ جیسے ہتھ، چھٹ، ہتھ پھیری، ہتھ پھول، ہتھ کنڈا۔ پھلم سے پھول بنا، مگر مرکب پھلجھڑی اور پھلکاری میں اصل شکل قائم رکھی۔ اسی طرح سو وسینی ’’نک‘‘ میں ایزاد کر کے ’’ناک‘‘ تو بنا لیا لیکن نکٹوڑا، نکٹا میں اس کی ہیٔت کذائی قائم رکھی۔قدما اور متوسطین کہ نکتہ رسی اور معنی آفرینی کی کہاں تک داد دی جائے! ایک معمولی لفظ ’’خوف‘‘ کو لیجئے، اس کے کتنے مترادف الفاظ وضع یا اختراع کئے یا تصرف سے کام میں لائے اور ان کو وہ معنی پہنائے کہ نفسیات کا ماہر دنگ رہ جاتا ہے، ملاحظہ ہو۔دبدا، جھجک، بھچک۔ سئنسا، کھٹکا۔ دھڑکا، سہم، سناٹا، دھچکا، ڈر۔ سب کلمے خوف کے مختلف درجوں کو واضح کرتے ہیں اور پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہماری زبان کا دامن کتنا فراخ ہے۔ مرکبات کو دیکھئے۔ ’مرتکا‘ سے ادل بدل ہوتے ہوئے ماٹی بنا۔ اس بھاشا کی ماٹی کو انہوں نے مٹی بنا لیا اور اس سے نہایت اہم مرکب توصیفی تیار کیا یعنی مٹیالا۔ میرے خیال میں یہ مرکب سنسکرت کی سندھی کے قاعدے پر بنا ہے۔ بے محل نہ ہوگا اگر گریمر کی اس اصطلاح سندھی کی نسبت یہاں دو لفظ کہہ دیے جائیں۔ جب ایک لفظ ایسے حرف پر ختم ہو کہ اس کی آواز متعاقب لفظ کے اول حرف کی آواز کے ساتھ آسانی سے پیدا نہ کی جا سکے، تو ان حروف میں سے ایک حرف کو کبھی کسی کبھی کسی حرف سے بدل دیتے ہیں۔ یا کہیے کہ ایک حرف کو حذف کر کے اس کی جگہ ایک نیا حرف ایزاد کر دیتے ہیں۔سنسکرت کا اصلی فقرہ تھا، ’’ودھی آنے۔‘‘ چونکہ ای اور آ دونوں کی آواز یکے بعد دیگرے آسانی سے ادا نہیں ہو سکتی تھی اس واسطے اس کا ’’ودھیا نے‘‘ بن گیا۔ اسی طرح، ’’روی آتی تیکشنو بھوتی‘‘ میں اتی کے الف کو ر سے بدلا اور ’’روی رتی‘‘ بنا دیا۔ آپ نے دیکھا اب جس کو ہمارے ہاں تنافر حرف کہتے ہیں، رفع ہو گیا۔ سنسکرت میں یہ قاعدہ یعنی سندھی کا قاعدہ مہتم بالشان حیثیت رکھتا ہے۔ میری تحقیقات میں اکثر انڈو یوروپین یعنی آریائی زبانیں اس پر کم و بیش عمل پیرا ہیں۔فارسی کو لیجئے۔ بندہ اور مژہ کی جمع الف نون سے بنانی تھی۔ دیکھا کہ ہائے مختفی کے ساتھ الف کا میل نہیں، چنانچہ بندہ ان کے بدلے بندگان اور مژہ ان کے بدلے مژگان بنایا یعنی ہائے مختفی کو گ سے بدل دیا۔ یہ دقت اور سندھی کے اصول کی پابندی کی ضروت وہیں آ کر پڑتی ہے جہاں دونوں طرف حرف علت ہوں، یا ایک طرف ہائے مختفی اور دوسری طرف حرف علت یا وسرگ۔ایک خاص فقرے کے تلفظ پر آرنلڈ بنٹ کا غصہ سراسر بے محل تھا جب اس نے اسٹ انڈ کے ایکٹروں کی زبان سے سنا، سوڈار ینڈ ملک۔وہ سمجھا کہ ’’سوڈا اینڈ ملک‘‘ کی مٹی خراب کی ہے جاہل ایکٹروں نے۔ مگر مغربی لندن کے جاہل ایکٹر نا دانستہ پاننی کا اتباع کر رہے تھے، جس نے ’’روی اتی‘‘ کو ’’روی رتی‘‘ بنا دیا۔ وضع کرنے والے نے کیوں نہ سوچا کہ دو الف پیہم آواز نہیں دے سکیں گے۔ لوگوں کو اس ترکیب کی غیر فطری ادا کا احساس ہوا اور اب وہ اور تو کچھ نہ کر سکے ’’ملک اینڈ سوڈا‘‘ اور ’’وہسکی اینڈ سوڈا‘‘ بولنے لگے۔اس ضمن میں ایک مثال انگریزی زبان سے اور پیش کی جائے گی۔ یہاں اسی سندھی کے اصول کو قاعدے کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ انگریزی گریمر کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جو لفظ حرف علت سے شروع ہو، اس کے پہلے اے A بمعنی ایک نہیں لاتے بلکہ این An لاتے ہیں۔ اے بک، تو ٹھیک لیکن اے ایکٹ غلط، کیونکہ دو الف کی آواز ایک ساتھ نکالنا آلات نطق کے بس کا روگ نہ تھا اس لئے N یا نون بڑھا کر A کا این بنانا پڑا۔عجمی جب عربی زبان کے قاعدے باندھنے بیٹھے، تو ان کا ذہن سندھی کے اس اصول سے متاثر تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے فصاحت سے متعلق تنافر حروف پر بہت زور دیا لیکن چونکہ عربی ان کی مادری زبان نہ تھی اور سامی حروف کی صحیح آواز پیدا کرنے سے ان کے آلات نطق عاری تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں تنافر حروف نہ تھا، وہاں بھی انگلی رکھ گئے۔ سب جانتے ہیں کہ ہائے ہوّز اور حائے حطی کی آوازیں جدا جدا ہیں۔ لیکن غیر اہل زبان اپنے منہ سے اس امتیاز کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بعض شاعروں نے جن کے آلات نطق الف اور عین کی صحیح سامی آواز پیدا کرنے میں قاصر تھے، الف کی طرح عین کو بھی گرا دیا ہے۔مرکب افعال ایسے ایسے مرتب اور وضع کئے کہ اس بارے میں شاید کوئی زبان اردو کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ مثال کے لئے ایک معمولی مصدر لکھنا کو لیجئے۔ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے،(1) خط لکھو۔(2) خط لکھ دو۔(3) خط لکھ ڈالو۔(4) خط لکھ چکو۔آپ ان چار جملوں کے معنی جانتے ہیں۔ ترکیب نے جو زور اور معنوی امتیاز فعل کو بخشا ہے، اس کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ اردو کی لسانیاتی وقعت جو اسے اسلاف نے عطا کی، ایک اور واقعہ سے ثابت ہے۔ علما کے اس مجمع کے سامنے اس توجیہ کی ضرورت نہیں کہ ہمارا مجموعہ تعزیرات ہند شاید جسٹی نین کے ضابطہ قانون کے سوا، سیاسی قوانین میں سب سے مکمل بلکہ اکمل تسلیم کیا جاتا ہے۔ یورپ کے کئی ملکوں میں اس مجموعہ کو آگے رکھ کر ضابطے مدون کئے گئے۔ باوجود اس کے یہ مجموعہ بھی اردو کا مرہون منت ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اور لارڈ مکالے جیسا وحید عصر اور بے بدل منشی اردو کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گیا۔ یہ اشارہ ہے دفعہ 508 کی تشریح الف کی جانب جس میں لفط دھرنا، قدرے الحاقی تصرف کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ دھرنا دینا کے معنی آپ کومعلوم ہیں جو ہیں۔انہوں نے ماخذ کی پروانہ کرکے ماخوذ سے واسطہ رکھا، اور اسے اپنے مطلب کا بنا لیا۔ چنانچہ عربی یا فارسی لفظوں کی جب اپنے قاعدے کے بموجب جمع بنانے لگے، تو حرف ثانی کی حرکت کو حذف کر دیا۔ محل کی جمع بنی محلوں، حائے حطی کی حرکت غائب، اسی طرح نظر کی جمع بنی نظروں نہ کہ نظَروں۔ اگر انہوں نے فارسی اور عربی یا سنسکرت کے لغات کی اندھی تقلید کی ہوتی تو اردو کو یہ لغاتی تمول ہرگز نصیب نہ ہوتا۔ اب جو کوئی ’’ازا حۃ الاغلاط‘‘ یا ’’تصحیح اللغات‘‘ وغیرہ کا نام لے، تو سمجھ لو کہ وہ اردو کا اہل نہیں۔صفات میں بھی ایسے مرکب وضع کئے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کن الفاظ میں ان کے ذہن رسا اور جدت آفرینی کی توصیف کرے۔ سیتلا منہ داغ اور سیتا ستی کو ملاحظہ فرمایئے۔ اس مرکب توصیفی کو سیتا ستی کے معنوں میں لکھا گیا ہے، ’’ہندی مسلمان عورت۔‘‘ یعنی یہ مرکب مسلمان عورتوں کے استعمال سے خصوصیت رکھتا ہے۔ اس کے معنی ہیں، ’’عفیفہ بیوی زن، جس کے دامن پر نماز جائز ہو۔‘‘ یہ معنی وہ ہیں جو مسلمان مؤلف اس لغت کے سامنے لکھتا ہے۔صفت نسبتی میں انہوں نے نہایت دلچسپ تصرف سے کام لیا۔ تاریخ فیروز شاہی آپ نے دیکھی ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کا مصنف ضیا برنی ہے۔ جغرافیہ کے بڑے بڑے ماہر سے پوچھئے کہ برن کہاں واقع ہے۔ وہ سویٹزر لینڈ کے نقشے میں تو ایک برن آپ کو بتا دے گا لیکن ہندوستان کے نقشے میں یہ مقام معدوم رہے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ بلند شہر کا قدیم نام برن ہے۔ انہوں نے قصبہ کا نام تو بدل دیا مگر صفت نسبتی کو برنی رکھا، بلند شہری نہ بنایا۔ اس کا دوسرا رخ بھی دلچسپ ہے۔ آگرہ کا نام اکبر آباد نہ پڑ سکا۔ اکبر کے عہد کے قبل سے سب آج تک آگرہ ہی کہتے ہیں لیکن شاہ نظیر اکبر آبادی کہلاتے ہیں۔ دہلی شاہجہاں آباد تو بن گئی لیکن اس کے شاعر دہلوی ہی رہے۔ بات یہ ہے کہ ان کا تصرف مصلحت اور حس مشترک پر مبنی تھا، ضد اور استبداد پر نہیں اور ان کے نظریے معقولیت پر مدون تھے۔ذرا غور فرمایئے کہ ان بزرگوں کی ذہنیت کتنی دقیقہ رس اور نکتہ پرور ہوگی، اور ان کے تصرف لسانی کی قوت عمل کتنی زبر دست ہوگی جو بخشنا، خریدنا اور آزمانا، بدلنا، فرمانا وغیرہ مصدر ترکہ میں چھوڑ گئے۔ مختصر یہ کہ اردو کے متقدمین نے اس کی تدوین و تنظیم میں جو مسالا ان کے سامنے تھا، اس سے بہترین کام لیا جس کی بدولت زبان کو مستقل اور قائم بالذات حیثیت حاصل ہو گئی۔ تصرف لسانی کے معنی صرف اپنانا نہیں بلکہ اپنا سا بنا لینا ہیں۔ آپ نے دیکھا عربی لفظ ’’بدل‘‘ کو لے کر بدلنا مصدر بنایا۔ اب اس کی، فعل کے ہر زمانے اور صیغے میں گردان ہو سکتی ہے۔ یہیں تک نہیں حاصل مصدر بنا ’’بدلی‘‘ تابع مہمل بھی اس کے ساتھ ملایا گیا۔ جیسے ا دل بدل۔ مختصر یہ کہ اس کی وہی حیثیت ہو گئی جو آنا، جانا، کھانا، پینا کی تھی۔انگریزی میں یہ عمل اب تک جاری ہے، اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ وہ زبان برابر ترقی کرتی رہی ہے۔ لوٹ انہوں نے ہمارے ہاں سے لیا، اور ایساا پنا سا بنا لیا کہ فعل کی گردان میں ٹولو اور ٹولوٹ بالکل یکساں ہیں۔ چارلس ڈکنس جیسے مستند مصنف نے یہ لفظ استعمال کیا ہے اور پھر ہمارے لٹیرا کی جگہ لوٹر بنا لیا۔ حال ہی میں ایک لفظ انگریزی میں داخل ہوا ہے۔ ہڑتال سے انہوں نے ہڑتالسٹ بنا یا، اور جمع کے لئے ’س‘ پر ایزاد کیا جیسا کہ انگریزی گریمر کا قاعدہ 2 ہے۔ میرا مطلب تصرف سے یہ ہے۔
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...