امر جلیل کے افسانے کی تحریر سے میں نے کیا اتفاق یا اختلاف کرنا ہے، ادب ودب سے نابلد میَں بُدھو تو اس قابل ہی نہیں۔ لیکن ڈیڑھ سال پہلے اُردو میں کچھ لکھنے کے ارادے سے جب خود قلم سنبھالا تو احساس ہوا کہ جلاوطنی کے بیس سال کے بعد میَں اپنے قارئین کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں۔ کیونکہ میں انسانوں سے عام طور پر اور اُردودان قارئین سے خاص طور پر بہت محبت کرتا ہوں اسلئے میرا فرض تھا کہ اُن کی نفسیات کو جاننے کی کوشش کروں تاکہ میرے قلم سے کچھ ایسا نہ نکل جائے جن سے اُن کے جذبات مجروح ہوں۔ تخلیقی کام واقعی جِن کو قابو کرنے جتنا مشکل ہوتا ہے۔امر جلیل صاحب کی تحریر پڑھ کر، خود سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے لوگوں کے تبصروں کو دیکھ کر میَں نے سوچا اِس وحشی اُونٹ کو بٹھا نے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
اپنی اپنی سمجھ دانی کے مطابق جن کو تحریر سمجھ میں آ گئی اور انکے کیمیکلز برانگیختہ نہیں ہوئے اُن کو تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن جو میرے پیارے دُکھی ہوئے ہیں اُن کے لئے کچھ کہنا ضروری ہے۔ ان کے جذبات کے اظہار کی مختصر لسٹ مندرجہ ذیل ہے۔ میَں اِن احساسات سے بالکل انکار نہیں کرتا، نہ ہی اُن کے بولنے کے حق سے اختلاف۔ فیڈبیک بہت ضروری ہے۔ اور محبت کے تقاضے میں جھنجھوڑنا بھی۔
’’افسانے نما گندگی۔ متنازعہ بنا ہوا ہے۔فورم پہ اسے لگانا جلتی پہ مزید تیل پھینکنا ہے۔ سہل پسندی اور کاہلانہ سوچ۔جذبات کو مزید مجروح کرنا ٹھیک نہیں ۔انتہائی بکواس اور توہین آمیز تحریر۔ جتنے بھی لوگ اس بڈھے شیطان کی حمایت کر رہے ہیں وہ سب کے سب دہریے اور ملحد ہیں۔ چارٹر آف ہیومن رائٹس۔ جس کمیونٹی میں رہا جائے یا وزٹ کیا جائے وہاں کی کلچرل حساسیت کا احترام کیا جائے۔ویٹیکن سٹی میں نیکر پہننے کی اجازت نہیں۔ یہودیوں کے ہولوکاسٹ پر بات کرنا انتہائی نا پسندیدہ ہے۔جہاں لوگ مذہبی ہیں اور خدا رسول کی محبت اور عزت کے معاملے میں جذباتی ہیں۔ یہ افسانہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ خیالات باسی اور بچکانہ ہیں، زبان عامیانہ ہے اور انتہائی ۔۔بے سر پیر کا فلسفہ ہے جسے پڑھ کر سوائے منہ کا ذائقہ خراب ہونے کے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ ذہن کو جلا ملتی ہے نہ دل کو روشنی اور نہ ہی خیال کو اڑان۔ تحریر اپنی پرسنل ڈائری میں لکھ کر رکھو۔ فیڈ بیک پر رونا کیسا۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ‘‘
میرے پیارو! آنکھیں بند کر کے چھوٹا سا مراقبہ کرو۔ پندرہ سو سال پہلے کے زمانے کے مکّہ میں چلے جائیے۔ (میَں بالکل یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ جناب امر جلیل صاحب بھی اُسی پائے کے ہیں یا آپ مُشرک ہیں۔ ’’خدا‘‘ نہ کرے!)۔میَں یہاں ہمارے رَدِّ عمل کا نفسیاتی موازنہ کر رہا ہوں۔ تاریخ پڑھ لیجئے کہ مکّے والوں نے اپنی اکثریت کے زُعم میں کیا کیا کہا تھا۔ آپ سب کی شکایات آج اُتنی ہی جائز ہیں جتنی پندرہ سو سال پہلے مکہ والے اپنی شکایات کو جائز سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے بھی یہی الفاظ استعمال کئے تھے۔ اُنہوں نے بھی کہا تھا تُم ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کر رہے ہو۔ تُم ہمارے باپ دادا کے مذہب کے خلاف بول رہے ہو۔ مکہ کے لوگوں کو بھی اپنی حساسیت کا علم تھا۔ وہ بھی اس حساسیت کا احترام چاہتے تھے۔ کیا یہ احترام اُن کو دیا گیا تھا ؟ اُن کو بھی ہمارے خیَر البشرؐ کی باتیں سمجھ میں نہیں آئی تھیں (شکر ہے کہ ہمیں سمجھ آ گئیں یا ہمارا خیال ہے کہ ہمیں سمجھ آ گئیں)۔
چالیس برس تک غاروں میں اُجالا کرنے کے بعد ( پرسنل ڈائری میں لکھنے کے بعد) جب اُس شمعؐ نے جاہلیت کا اندھیرا اور مکہ والوں کی سہل پسندی اور کاہلانہ سوچ دُور کرنے کی کوشش کی تو کیا ہوا؟ کلچرل حساسیت کا نعرہ لگا کہ نہیں؟ انتہائی بکواس اور توہین آمیز باتیں کہا گیا کہ نہیں؟ ہیومن رائٹس کا حوالہ اپنی زبان میں دیا گیا کہ نہیں؟ پتھر مارے گئےکہ نہیں؟ وہ لوگ بھی اپنے اپنے لات و منات خداؤں اور رسو م و رواج کی عزت کرتے تھے۔ اُن کے مُنہ کا مزہ خراب ہوا کہ نہیں؟ کیا اُنہوں نے اوپر سے اُترتی (آج ہمارے لئے مقدس خزانہ) آیتوں کو نہیں کہا کہ اِن سے ذہن کو جلا ملتی ہے نہ دل کو روشنی اور نہ ہی خیال کو اڑان؟ کیا اُنہوں نے بھی ایسی ہی فیڈبیک دی کہ نہیں؟ احمق اور پاگل کہا کہ نہیں؟ انتہائی بے سر پیر کا فلسفہ کہا کہ نہیں؟
اور آج ہمارے ایمان کے مطابق وہ غلط تھے یا نہیں؟ اور کیا ہم بھی اپنی سمجھ میں غلط ہو سکتے ہیں یا نہیں؟کیا ہم فرشتے ہیں؟ کیا ہم میں کوئی آدمی بھی ہے یا نہیں؟
یہ مثال میَں صرف ایک مقصد کے لئے دے رہا ہوں کہ’’خدا‘‘ کے لئے اپنا محاسبہ بھی کیجئے۔اپنے اپنے تصوراتی خدا سے دُعا کیجئے کہ ہمیں اِس تکبر سے نکالے جو ہمیں خدائی پر مجبور کرتا ہے کہ ’’ہم زیادہ جانتے ہیں اور جو جانتے ہیں وہ صحیح ہے‘‘۔ ہمیں ہماری اِس بلیک اینڈ وائیٹ سوچ سے نجات دے جس نے ہمیں خوفزدہ کر رکھا ہے، پریشان کر رکھا ہے، کنفیوز کیا ہوا ہے، کہ ایک طرف تو ہمیں بچپن سے مکمل برین واش کر دیا گیا تھا کہ ہم سچے اور بہترین ہیں اور دوسری طرف اِس سچائی کا کوئی عملی ثبوت ہمیں اپنے معاشرے میں نہیں مِل رہا۔ نہ مذہب کے نام پر سیاست میں، نہ معیثت میں، نہ تعلیم میں، نہ ہُنر و فن میں، نہ میڈیا میں، نہ سڑکوں پر ٹریفک میں، نہ علامہ اقبال کی شاعری کو ترنم سے گانے اور اُس پر اپنا سَر دُھننے میں، نہ ہی حُسنِ قِرأت کے مقابلوں میں۔
کیونکہ مُعمہ یہ ہے کہ جو انتہائی اہم چیز ہم سمجھتے تھے ہمارے ہاتھ میں ہے، اب ہم جان گئے ہیں کہ ہمارے دِل میں بھی نہیں ہے۔ کچھ تو پردہ داری ہے۔ ہمیں واقعی سمجھ نہیں آئی۔ کیونکہ اگر ہمیں سمجھ آ جاتی تو غیر ہمیں دیکھ کر عَش عَش کر اُٹھتے۔ یہ قصور ہمارے مذہب کا نہیں ہے۔ یہ قصور ہماری ناسمجھی کا ہے۔ ہماری ترجیحات اُوپر نیچے ہو گئی ہیں۔ فرض سمجھ کر ہم نماز’’ پڑھ‘‘ لیتے ہیں لیکن ہم عبادت نہیں کرتے۔ بدنی طہارت ہم کر لیتے ہیں لیکن بیت الخلأ اور ماحولیاتی گندگی کی صفائی کسی اقلیت کا کام سمجھتے ہیں۔ ہماری گلیوں میں پانی کے پائپ تک نہیں بِچھے ہوئے۔ ہمارے گندے گٹر اُبل رہے ہیں۔کہیں انصاف کا دور دورہ نظر نہیں آتا۔دُنیا کے ہر کام میں ہم پیچھے ہیں لیکن شِدتِ جذبات میں پتھر اُٹھانے میں سب سے آگے۔ اوراپنی جان پر سب سے بڑا ظُلم تو یہ ہے کہ ہم اِسے صحیح سمجھ کر کرتے ہیں۔ واقعی ہماری دُعا ہونی چاہیئے، ’’ ہم نے اپنی جان پر ظُلم کیا، اے خدا ہمیں معاف کر دے اور واپس آ جا!‘‘
اگر یہ سب مشاہدہ سچ ہے تو امر جلیل کی مانند ہم کیوں نہیں اقرار کر لیتے کہ ہمارا ’’خدا‘‘ گُم ہو گیا ہے یعنی ہمارے دماغ و روح سے بالکل نکل گیا ہے، ہم نے اسے دھکا دے کر مگرمچھوں میں پھینک دیا ہے۔ ہم اِس سچ کو کیوں جُھٹلا رہے ہیں؟ کیا اِس لئے کہ ہماری انا ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ نہیں ہم تو کسی زمانے میں پھنے خان تھے اور اب بھی ہیں۔ ہمارا خدا ہمارے قابو میں ہے گُم ہو ہی نہیں سکتا۔ پھنے خاں کو غصہ بھی بہت جلد آ جاتا ہے کیونکہ جُھوٹے تکبر کے پاؤں نہیں ہوتے۔ مکہ والوں کو بھی یہی غصہ تھا، یہی خوف تھا، آباؤاجداد کے غلط ہونے کا خوف، رسوم و رواج کے غلط ہونے کا خوف، انا کو ٹھیس پہنچنے کا خوف۔ خداؤں کے گُم جانے کا خوف۔ عدم تحفظ کا خوف۔
آپ بے شک میری تحریر سے اختلاف کیجئے۔ لیکن ایک طرف یہ منطق کہ یہودیوں کے ہولوکاسٹ پر بات کرنا ناپسند کیا جاتا ہے اسلئے میرے جذبات کا خیال رکھئیے۔ اُن کے تو ساٹھ لاکھ لوگوں کو نسل کے نام پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا جو حقیقت تھی ۔ دوسری طرف پاکستان میں توہین کے نام پر انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے اور وہ بھی حقیقت ہے لیکن اُن کا احتجاج کرنا ہمارے جذبات مجروح کرتا ہے۔ اُنکے جذبات کو مجروح کرنا، اُن کو قتل کرنا، اُن کو اپنی دکان میں نہ آنے دینا، ہم اپنا خداداد حق سمجھتے ہیں۔ اُن کے قاتلوں کو ہم ہار پہناتے ہیں، غازی اور شہید کہتے ہیں، اُن پر پتھر نہیں اُٹھاتے۔ ہم واقعی انتہائی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔ عجیب و غریب رنگین عینک پہنے پھنے خاں قِسم کی!!
آپ اختلاف کیجئے لیکن واضح ثبوت کے ساتھ۔ اینویں یاویاں نہ ماریں! اور یہ یاد رکھئے کہ میں اِس اختلاف کے باوجود آپ سے بے انتہا محبت کرتا ہوں، آپ کو بالکل دُکھ نہیں دینا چاہتا۔ لیکن کیا کروں؟ ستر سالوں سے حسین صبحیں روشن ہو رہی ہیں اور ہم خواب غفلت میں ماضی کے سنہرے دور، مدینہ کی ریاست اور آخرت کی جنت کے نظارے دیکھ رہے ہیں جہاں دودھ اور شہد کی نہریں ہونگی لیکن جب جاگتے ہیں تو ٹُونٹی میں صاف پانی تک نہیں ہوتا، گھر میں بجلی یا گیس نہیں ہوتی، نہ ہی بازو میں وائرس کی ویکسین۔ آپ کو جگانے اور جھنجوڑنے سے تکلیف تو ہو گی۔ اس کی معافی دے دیجئے گا کہ محبوب معاف کر دیتا ہے اور خدا بھی۔ اگر گُم نہیں ہوا تو۔
“