ہمارے کمپیوٹر پر فیس بُک/ ٹویٹر پر لکھا گیا ہر اردو لفظ اسی شخصیت کا مرہون منت ہے۔ اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے جنہوں نے کمپیوٹر کی دنیا میں ہم گونگوں کو زبان بخشی اور قومی زبان ڈیجیٹل میڈیا پر پروان چڑھی- جس نے ہمیں اردو سے محبت کرنیوالے کئی نئے ہیرے اور موتی دیئے- اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے- آمین-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیدائش: 22 جنوری 1952ء
وفات: 30 نومبر 2018ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عطش درانی پاکستان کے ایک ماہر لسانیات، محقق، تنقید نگار، مصنف، ماہر تعلیم اور ماہر علم جوہریات تھے۔ ان کا پیدائشی نام عطا اللہ خان تھا۔
انہوں نے بیسیوں کتابیں لکھیں اور متعدد اطلاقیے بنائے۔ نیز اردو اور انگریزی میں 500 مقالے لکھے۔ عطش درانی کی ان علمی و تحقیقی خدمات پر انہیں تمغہ امتیاز اور ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔
احسان دانش سے شاعری میں اصلاح لیا کرتے پھر انہی کی کہنے پر شاعری چھوڑ کر نثر پر توجہ دی۔
1976 میں سید قاسم محمود کی سربراہی میں مکتبہ شاہکار میں اسلامی انسائیکلو پیڈیا اور متعدد کتابوں پر کام کیا۔ سیارہ ڈائجسٹ کی ادارت اڑھائی تین برس کی۔ مجلس زبان دفتری کے حوالے سے لاہور میں گورنمنٹ سروس اور اردو نامہ کی ادارت کی۔ حکومت پنجاب کے رسالے ”اردو نامہ“ کی ادارت سنبھالی اور ایک سرکاری جریدے کو علمی تحقیقی جریدے میں تبدیل کر دیا۔
حکومت پنجاب کی ملازمت سے پھر قومی مقتدرہ زبان میں چلے گئے اور وہاں طویل عرصہ گزار کر لسانیات کے حوالے سے خاطر خواہ کام کیا۔
قومی مقتدرہ زبان کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ ’’پاکستانی زبانیں‘‘ کے سربراہ رہے، نیشنل بک کاؤنسل کی نوکری سال ڈیڑھ سال کے لیے کی۔
اصطلاحات سازی
خادم علی ہاشمی اور منور ابن صادق کے ساتھ مل کر علم التعلیم، سائنس اور فنیات کے اصطلاحات سازی پر اصطلاحات مرتب کیں جنہیں مقتدرہ قومی زبان نے اصطلاحات فنیات اور تعلیمی اصطلاحات کے عنوانات کے تحت شائع کیا۔
گھوسٹ حرف تھیوری (Ghost Character Theory)
اس تھیوری کے مطابق تمام عربی، فارسی اور پاکستانی زبانوں کے بنیادی 52 حروف میں بیس ہزار حروف تہجی تیار ہو سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اب ایک ہی سافٹ وئیر اور کی بورڈ پر تمام زبانوں میں کام ہو سکتا ہے۔ جسے 'خالی کشتیوں' کی تھیوری بھی کہتے ہیں۔ گھوسٹ کریکٹرز وہ حروف ہیں جو بے نقط ہوں اور انہیں تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ استعمال کیا جا سکے۔ ڈاکٹر عطش درّانی کے مطابق ان کریکٹرز کی تعداد 19 ہے:
ئ، ا، ب، ح ، د ، ر، س، ص، ط، ع ، ف، ق، ک، ل، م، ں، ہ، و ، ی ۔
یہ کریکٹرز عربی رسم الخط سے آئے جب ایران نے عربی رسم الخط اپنایا تو انھوں نے چند نئے حروف متعارف کروائے جن میں نقطے اور ایک لائن ہو۔ یہی رسم الخط ہندوستان آیا تو ان پر چار نقطوں کا اضافہ ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، عربی اور فارسی زبانوں میں تین بنیادی گھوسٹ کریکٹرز شامل ہو گئے۔ و، ہ، گ ، ھ، ے، تھے۔ وہ زبانیں جو عربی رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ ان میں گھوسٹ کریکٹرز کی تعداد 22 ہے جو یہ ہیں:
ا ب ح د ر س ص ط ع ف ک گ ل م ن ں و ہ ء ی ھ ے
مکمل 52 بنیادی کریکٹرز کم از کم 660 بنیادی حروف بناتے ہیں۔ 660 گھوسٹ بنیادی حروف 19800 رسمی حروف بناتے ہیں۔ کل ملا کر 20600 حروف بنتے ہیں۔ ان کی پیش کردہ اس گھوسٹ تھیوری سے انٹرنیشنل Unicode پر مختلف الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مدد سے ڈاکٹر عطش درّانی نے کمپیوٹر پر مختلف زبانوں کے الفاظ کے استعمال کو بہتر بنایا ہے۔ تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو، براہوی، بلتی، شنا، کشمیری، گوجری کو کمپیوٹر پر لکھا جا سکتا ہے۔
وفات
30 نومبر 2018ء کو ڈاکٹر عطش درانی وفات پا گئے۔
خراج تحسین:
معروف ڈراما نویس، شاعر اور کالم نویس امجد اسلام امجد نے ان الفاظ میں انہیں خراج تحسین پیش کیا:
"اردو کے ایک جدید اور بین الاقوامی معیارات کے درجے اور صلاحیت کی زبان بنانے کے سلسلے میں ان کا کام بے حد وقیع ہی نہیں مستقبل گیر اور سمت نما بھی ہے۔ وہ اپنے بھاری بھرکم جسمانی وجود کی طرح ایک غیر معمولی اور وسیع تر ذہن کے مالک تھے اور اردو رسم الخط کو کمپیوٹر کے بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق بنانے کے سلسلے میں ان کی تحقیق اور علمی اجتہادات یقینا ایک بہت قیمتی تحفہ ہیں اور ان کی خدمات کو صحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہتر طریقہ بھی غالباً یہی ہے کہ ان کی جلائی ہوئی شمعوں کو روشن رکھا جائے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصانیف
عطش کی آخری تصنیف کتاب الجواہر جو البیرونی کی تصنیف کتاب الجماہر فی معرفة الجواہر کے اُس حصے کا ترجمہ ہے جو جواہرات سے متعلق ہے، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے جولائی 2018 میں شائع کی۔
اسلامی فکر و ثقافت ، مکتبہ عالیہ لاہور نے 1980 میں شائع کی۔
مغربی ممالک میں ترجمے کے قومی اور عالمی مراکز ، قومی مقتدرہ زبان نے 1986 میں شائع کی۔
"لسانی و ادبی تحقیق وتدوین کے اصول" ، 19 ابواب اور 419 صفحات پر مشتمل کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کی۔
کتابیات قانون ، قومی مقتدرہ زبان، 1984
پاکستانی اردو کے خد و خال ، قومی مقتدرہ زبان، 1997
لغات و اصطلاحات میں مقتدرہ کی خدمات ، قومی مقتدرہ زبان، 1993
اردو اصطلاحات نگاری (کتابیاتی جائزہ) ، قومی مقتدرہ زبان، 1993
اردو اصطلاحات نگاری (تحقیقی و تنقیدی جائزہ) ، قومی مقتدرہ زبان، 1993
اصناف ادب کی مختصر تاریخ ، 1982
اماں سین ، 2002
اماں سین اور دیگر شخصے ، پورب اکادمی ، اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد