خود نوشتوں سے مجھے ہمیشہ سے بڑی دلچسپی رہی، یہ آپ بیتیاں تاریخ کا بڑا زبردست ماخذ ہوتی ہیں بشرطیکہ لکھنے والے کی سچائی ثابت ہو ورنہ تو اپنی ذات کو نمایاں کرنے کا خبط بہت کچھ الٹا سیدھا بھی لکھوا دیتا ہے ۔
معین بیتی، ڈاکٹر سید معین الحق کی نامکمل خود نوشت ہے ۔
پروفیسر معین الحق سابق پروفیسر تاریخ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1901 میں مراد آباد میں پیدا ہوئے، اپنے والد سید شاہ مجیب الحق(م دسمبر 1940) سے سلسلہ چشتیہ صابریہ میں بیعت تھے۔تحریک پاکستان کے سرگرم رکن تھے تقسیم ملک کے بعد 1948 میں کراچی آئے، کچھ وقت دستور ساز اسمبلی سے وابستہ رہے پھر اردو کالج، کراچی میں پرنسپل مقرر ہوئے تاہم بوجوہ یہ ملازمت ترک کی ۔1950 میں پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی قائم کرنے والے بانی اراکین میں شامل تھے، سوسائٹی کے تحت نکلنے والے انگریزی جریدے journal of Pakistan historical society کے مدیر مقرر ہوئے۔
ایک اور ادارہ "دائرہ معین المعارف " قائم کیا اور اس کے تحت سہ ماہی تحقیقی جریدے "بصائر" کا اجراء کیا ۔اسلامی علوم اور خصوصا تاریخ کے حوالےسے شائع ہونے والا بصائر 1962 سے ان کی وفات تک برابر جاری رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی تدوینی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کے تراجم بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔ابن خلکان کی شہرہ آفاق کتاب "وفیات الاعیان " کا کئ جلدوں میں ترجمہ کیا ۔اس کے علاوہ ابن سعد کی "طبقات الکبری "کا انگریزی ترجمہ بھی کئ جلدوں کو محیط ہے ۔ ابن اثیر کی مشہور کتاب الکامل کی تین جلدوں کا ترجمہ دائرہ معین المعارف سے شائع کیا ۔
انہوں نے سات طبع زاد تصانیف بھی چھوڑیں، زندگی کے آخری برسوں میں سیرت النبی(the life of Mohammad )پر کام کر رہے تھے ۔ کتاب پر نظر ثانی مکمل کر کے 19 اکتوبر 1989 کو اس کا preface لکھا اور اگلے دن یعنی 20 اکتوبر کو انتقال کر گئے ۔کراچی میں تدفین ہوئی ۔
تقسیم ہند کے بعد جن مورخین نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا اور ترک وطن کر کے پاکستان آئے اس میں اے بی اے حلیم۔۔۔محمود حسین ۔۔۔اشتیاق حسین قریشی، اور امیر حسن صدیقی وغیرہ شامل تھے، انہی میں ایک اہم نام سید معین الحق کا بھی ہے ۔
ہر قوم کو اپنی شناخت کے لئے اپنی تہذیب، اپنی زبان اور اپنی تاریخ کی ضرورت ہوتی ہے ۔قیام پاکستان کے بعد پاکستانی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کا مسئلہ بھی، دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اکابرین قوم کو درپیش تھا ۔ پاکستانی مورخین کےلئے صورت حال اس لئے زیادہ گمبھیر تھی کہ تقسیم ہند کے بعد جب اثاثے تقسیم ہوئے تو تاریخی دستاویزات، مخطوطات، کتابیں اور آثار قدیمہ سے متعلق دیگر نوادرات کی تقسیم عمل میں نہیں آ سکی، نہ ہی بھارتی حکومت سے کسی خیر کی توقع تھی کیونکہ انہوں نے تو پاکستان کو ملنے والی رقم بھی اس وقت تک روکے رکھی جب تک گاندھی نے مرن برت کی دھمکی نہیں دے دی، ایک طرف بھارتی حکومت کی یہ بد دیانتی اور دوسری طرف نوزائیدہ ملک پاکستان کو درپیش گوناں گوں مسائل نے اکابرین قوم کو اس طرف متوجہ بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ ہندوستانی حکومت سے علمی و تاریخی اثاثے کی تقسیم کی بات کرتے، یوں تاریخ ہند کے تمام اہم ماخذ، ،اسلامی دور کے آثار اور ان کا ریکارڈ ۔۔۔۔دو سو سالہ استعماری دور کا سارا ریکارڈ ہندوستان میں ہی رہ گیا، جس سے استفادے کی کوئی صورت نہیں تھی ۔اس صورتحال میں پاکستانی مورخین کی ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں ۔یہ تو غنیمت ہوا کہ لندن میں موجود انڈیا آفس لائبریری کی وجہ سے ہمارے مورخین کو وہ سارا ریکارڈ حاصل کرنا ممکن ہو سکا ۔ایسے میں وہ مورخین قابل تعریف ہیں جنہوں نے پاکستانی تاریخ مرتب کی ۔۔۔۔اور تحفیظ تاریخ کے لئے اساسی اور بنیادی نوعیت کے کام کئے، انہی مورخین میں سید معین الحق شامل ہیں ۔ جن کی کوششوں سے پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی قائم ہوئ ۔۔۔۔کئ طرح کے ریسرچ جرنل کا اجراء ہوا ۔۔۔۔سالانہ بنیادوں پر عالمی تاریخ کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا ، فریڈم مومنٹ کی پوری تاریخ کو چار جلدوں میں (ہسٹری اف فریڈم مومنٹ ) محفوظ کیا گیا ۔ تاریخ کے اہم ماخذ کی تحقیق و تدوین کے بعد اشاعت کی گئی ۔
آخرمیں زاہد کاظمی کی شکر گزار ہوں جنہوں نے میری خواہش پر "معین بیتی" کا یہ نسخہ مجھے بھجوایا، جسے پہلے میں نے 2014 میں پڑھا اور پچھلے دنوں دوبارا اس کا مطالعہ کیا ۔
“