یہ سوال اردو کے معروف ادیب ڈاکٹر احمد سہیل صاحب آپ نے سوال کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس تحریک کا مختصر سا پس منظر درج کرکے مزید ضمنی اس تحریک کے متعلق سوالات کیے ہیں اور اس پر اپنے رائے کا اظہار کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ ضمنی سوالات نیچے درج ہیں۔
(۱) کیا انگارے ترقی پسند تحریک کی پہلی دراڑ تھی؟
(۲) یہ ہے کہ کیا پاکستان میں حکومت کی حمایت اس تحریک لے ڈوبی؟
(۳) بقول احمد علی سجاد ظہیر، عبدالعلیم اور محمود الظفر آہنی روئیہ اختیار کیا جو اس تحریک کے زوال کا سبب بنا؟
(۴) کیا ترقی پسند نظریہ روسی کیمونزم کا ثقافتی بازو تھا؟
(۵) پاکستان میں راولپنڈی سازش کیس ترقی پسند تحریک کے زوال کا سبب بنا؟
(۶) کیا احمد علی، اختر حسین رائے پوری، منٹو، بیدی اور عصمت وغیرہ کی ترقی پسند شکنی کے سبب اس تحریک کا ذوال کا سبب بنا؟
(۷) کیا مئی ۱۹۴۹ کی بھمیری کی کل ہند کانفرس کے بعد اس تحریک میں ٹوٹ بھوٹ شروع ہوگئی؟
(۸) کیا تحریک کا ادبی نظریہ، مخاطبیہ اور وابستگی کا نظریہ ابہام کا شکار تھا۔ جو اس تحریک کی ناکامی کا سبب بھی تھا؟
(۹) اردو کی ترقی پسندانہ تحریک کا براہ راست نو آبادی نظام اور اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنا مہنگا پڑا؟
(۰۱) کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ اردو کی ترقی پسندانہ تحریک ایک مکتبہ سیاسی اور نظریاتی تھا۔ جس میں سجاز ظہیر، عبدالعلیم اور سرادر جعفری شامل تھے تو دوسرے مکتبہ فکر میں احمد علی اور اختر حسین رائے پوری شامل تھے۔ جس کو غیر نظریاتی سیاسی اور ادبی دبستان کہا جاتا تھا؟
یہ سوال کہ کیا اردو کی ترقی پسند تحریک ناکام ہوئی؟ سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ اس تحریک کو اردو کے دائرے میں مقید کرنا درست نہیں ہے۔ دوسرا ایسا نہیں ہیں کہ اس کا مختصر سا جواب دیا جاسکے۔ اس کے لیے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
اس تحریک کی بنیاد رکھنے والے ادیب جنہوں لندن میں بنیاد رکھی تھی صرف اردو کے نہیں بلکہ ان ہندی اور بنگلہ کے ادیب بھی شامل تھے اور ان کا مقصد اور منشور برصغیر کے حوالے سے تھا کہ ادب کو روایت پسندی سے آزاد کراکے حقیقت نگاری پر لایا جائے۔ اس طرح اس کے اجلاسوں اور جلسوں میں صرف اردو کے ادیب ہی نہیں بلکہ برصغیر کی تمام زبانوں کے ادیب شریک ہوتے تھے۔ لہذا اسے اردو کی ترقی پسند تحریک کہنا غلط ہے۔ البتہ اس تحریک کو متحرک کرنے والوں یا تحریک کی قیادت کرنے والوں کی اکثریت اردو سے تعلق رکھتی تھی۔ یہاں ان سوالات کے جوابات دینے سے پہلے کچھ اس تحریک کے بارے مختصر پس منظر تفصیل دینا چاہوں گا۔ اس کے بعد اس تجزیہ پیش کروں گا۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں اور اہم یہ ہے اس تحریر کو محض یاداشت کے سہارے لکھ رہا ہوں، اس لیے اس کی جزویات میں غلطی ہوسکتی ہے۔
جنگ عظیم کا سے پہلے کا زمانہ تھا دنیا بھر میں کساد بازاری کی وجہ سے بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ جرمنی میں ہٹلر آچکا تھا اور یورپ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے دنیا کے ہر خطہ میں مختلف تحریکں جنم لے رہی تھیں۔ روس کی کیمونسٹ حکومت اپنا اقتدار مستحکم کرچکی تھی اور وہ دنیا بھر میں کیمونسٹ اور شوشلسٹ تحریکوں کی مدد اور حمایت کر رہا تھا۔ پیرس میں ان دنوں ایک بائیں بازو کے ادیبوں کی کانفرنس ہوئی۔ جس میں ادب کو انفرادیت سے ہٹا کر اجتماعیت کے متعلق لکھنے کی بات کی کئی۔ دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی ادبی تحریک کام کر رہی تھی جو کہ ادب کو حقیقت پسندانہ روش پر لانا چاہتے تھے۔ ان تحریکوں سے متاثر ہوکر برصغیر کے کچھ نوجوان ادیبوں نے لندن میں یہ سوچا کہ برصغیر میں ملکی ادب کو اسی نہج پر ڈالا جائے اور اس کا مقاصد اور منشور بنایا گیا۔
ان نوجوان ادیبوں میں ایک سجاد ظہیر جو کہ سر وزیر حسن کے صاحبزادے تھے۔ یہ وطن واپس آئے اور اپنے مقصد کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ سجاد ظہیر نے جلد ہی فیض احمد فیض، ملک راج آنند، احمد علی اور محمود الظفر اور ان بیگم ڈاکٹر رشدہ جہاں اپنے گرد جمع کرلیا کہ ادب کو روایت پسندی سے نکال کر حقیقت پسندی پر لایا جائے، اس مین پیرس کے ادیبوں اجتماع کے برعکس اجتماعیت کی نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی بات کی تھی۔
حقیقت پسندی کوئی غلط بات نہیں تھی اس لیے اس تجویز کی برصغیر کی مختلف زبانوں کے ادیبوں نے خیر مقدم کیا اور اس تحریک کی تائید کی۔ اس تحریک نے کانگریس اور دوسری بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل کرلی جو کہ کوئک انگریز کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ اس کے اجلاسوں اور جلسوں اور میں شریک ہونے والے عام ادیب نہیں تھے۔ ان میں منشی پریم چند، حسرت موہانی، سید سلیمان ندوی جسیے ادیبوں نے شرکت کی اور ان کے جلسوں کی صدارت بھی کی۔ اس تحریک میں شامل و تعائید کرنے والوں میں اردو کے علاوہ علاقائی زبانوں کے بے شمار ادیب بھی شامل تھے۔ جن کی لمبی نہیں بہت ہی لمبی فہرست ہے اور ان سب کا مقصد ایک تھا کہ ادب کو روایاتی طرز سے آزاد کرایا جائے اور اسے حقیقت پسند بنایا جائے۔ اس نعرہ پر برصغیر کے لکھنے والوں کی اکثریت نے لبیک کہا۔ اس تحریک نے بڑے بڑے کامیاب جلسے کئے۔ اس تحریک کی قیادت کرنے والے آزاد خیال اور بائیں بازو کے نظریات کے حامل ادیب تھے۔ اس لیے اس تحریک ہند کو برطانوی حکومت مشکوک نگاہ سے دیکھتی تھی۔ تاہم ان کی ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ دوسری طرف جنگ عظیم جاری تھی اور انگریزوں کو اس وقت جرمنی اور جاپان دونوں سے شکت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھے۔ شاید یہ سب پابند سلاسل ہوجاتے مگر روس کے خلاف جرمن اور جاپان نے جنگ چھیڑ دی۔ اس لیے بائیں بازو کی پارٹیاں جو جنگ کی مخالفت کر رہی تھی وہ بھی محوری طاقتوں کی مخالف ہوگئیں۔ جنگ جاری تھی کہ ہند کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ادیبوں کو بھی فوج میں شامل کیا جائے تو فیض نے غالباً کرنل کا عہدہ حاصل کرکے چلے گئے۔ اس طرح اس سے بھی تحریک پر اثر ہوا۔ جنگ ختم ہوئی اور انگریزوں برصغیر کو آزادی دینے کا اعلان کیا اور تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ تقسیم کے بعد اس تحریک پر ضرب پڑی اور خاصی کمزور ہوگئی کیوں اس طرح اس تحریک کی مرکزیت ختم ہوگئی جیسا کہ مئی ۱۹۴۹ کی بھمیری کی کل ہند کانفرس سے ثابت ہوا جو کہ انتشار کا شکار ہوئی۔ سجاد ظہیر پاکستان آچکے تھے جس سے بھارت میں اس تحریک کی تنظیم متاثر ہوئی۔
سوال جو کیا گیا ہے کہ کیا ترقی پسند تحریک ناکام ہوئی؟
میرے جواب نہیں میں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے بحثیت تنظیم ترقی پسند تحریک فنا ضرور ہوگئی۔ لیکن جس مقصد کے لیے یہ تنظیم وجود میں آئی تھی وہ مقصد پورا کرگئی۔ ہمارے ادب کا رجحان اگر حقیقت پسندی کی طرف ہے تو اس میں اس تحریک کا ہاتھ بھی شامل ہے۔ اگر آج ہم روایت پسندی یا قصہ کہانیوں سے نکلے ہیں تو اس میں اس تحریک کا بھی ہاتھ ہے۔ اس میں بھی شک نہیں یہ تحریک نہیں اٹھتی تب بھی ادب میں حقیقت پسندی پھر بھی آتی۔ حقیقت پسندی کا آغاز تو غالب کے خطوط سے ہوگیا تھا۔ اسی راہ پر سرسید بھی چل پڑے۔ اردو کے ابتدائی ناول ہادی حسن رسوا کا امراؤ جان ادا اور ڈپٹی نذیر احمد کا توبۃ نصوح میں بھی حقیقت پسندی کا رجحان نظر آتا ہے۔ اسی راہ پر چلتے منشی پریم چند کو بھی دیکھتے ہیں۔ مگر اس تحریک کی بدولت اردو اور برصغیر کی دوسری زبانوں کے دایبوں کو حقیقت نگاری کا سفر میں جس پر وہ پہلے سست رفتاری سے سفر کر رہے تھے تیزی آگئی۔ ویسے بھی تحریکیں زیادہ عرصہ نہیں چلتی ہیں اور بہت جلدی اپنا کام کرکے ختم ہوجاتی ہیں اور انہیں ختم بھی ہوجانا چاہیے۔ کیوں کہ جب کوئی بھی تحریک طاقت حاصل کرلیتی ہے تو وہ اپنے مقصد سے ہٹ کر ایک سیاسی قوت بن جاتی ہے اور سیاسی قوت بنے سے اس کے مقاصد بدل جاتے ہیں اور اصل مقصد پس پشت جلاجاتا ہے۔ اس طرح تحریک کی کامیابی مقاصد کی موت ہوتی ہے۔ تاریخ پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں ان گنت اس طرح کی مثالیں نظر آئیں گیں۔
اب ہم ضمنی سوالات کی طرف آتے ہیں۔ یہاں ان کے جوابات ترتیب وار درج کئے جا رہے ہیں۔
(۱) یہ واقعی بدقسمتی تھی کہ اس تحریک کے رہنمائی کرنے والوں نے روایتی ادب کے برخلاف جسے ہم بیانیہ کہیں گے افسانوں کا مجموعہ انگارے شائع کیا۔ اس میں سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر اور ان کی بیگم ڈاکٹر رشدہ جہاں کے افسانے شامل تھے۔ اس مجموعہ کی کوئی ادبی حثیت نہیں ہے۔ اگر اس کی کوئی اہمیت ہے تو صرف یہ کہ اسے ترقی پسند تحریک کے رہنماؤں نے لکھا تھا۔ اس میں لکھنے والوں نے کچھ زیادہ ہی آزاد خیالی برتی اور ان افسانوں کا محور سیکس تھا۔ اس لیے اس تحریک پر ضرب پڑی۔ اس تحریک میں شامل ہونے والے ادیبوں کے کچھ نہ کچھ سیاسی نظریات تھے۔ مگر وہ شائستگی کو مقدم رکھتے تھے۔ حقیقت نگاری تو پسند کرتے تھے مگر معاشرے میں اتنی آزاد خیالی بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اس سے بھی اس تحریک پر ضرب پڑی۔
(۲) اس سوال کا جواب اوپر دے چکا ہوں۔
(۳) ہوسکتا ہے احمد علی کی بات درست ہو مگر میرے نذدیک اس کے ذوال کی وجہ وہی ہے جو کہ اوپر درج کی ہے، کیوں کہ اس تحریک میں یہ سب یعنی احمد علی، محمود الظفر اور عبدالعلیم تو کارکن تھے اور ان کی قیادت سجاد ظہیر کر رہے تھے۔ وہی شروع سے ہی اس تحریک کے روح و رواں تھے۔ سجاد ظہیر انڈہا چلے گئے تو تحریک میں جان نہیں رہی مگر وہ انڈیا میں بھی اس تحریک میں جان نہیں ڈال سکے۔
(۴) اس سوال کا جواب اوپر دے چکا ہوں کہ ان کے نظریات کیا تھے۔
(۵) اس کا بھی جواب اوپر دے چکا ہوں
(۶) میرا خیال نہیں ہے کہ ان ادیبوں کے اختلاف رائے سے تحریک پر کوئی ضرب نہیں پڑی۔ یہ ادیب اگرچہ تنظیم سے اختلاف رکھتے تھے مگر ان کی نگارش تو ترقی پسند تحریک کے مطابق تھی۔ ویسے بھی جب کوئی تحریک طاقت حاصل کرتی ہے تو سیاسی تحریک میں بدل جاتی ہے اور سجاد ظہیر کی راولپنڈی سازش کیس سے بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سیاسی عزائم بھی رکھتے تھے اور یہی سبب تنظیم سے اختلاف کا سبب بنا۔
(۷) اس سوال کا جواب اوپر دے چکا ہوں۔
(۸) ہاں بہت حد تک درست ہے اس کے اوپر بحث کرچکا ہوں
(۹) نہیں اگر سجاد ظہیر نے راولپنڈی سازش کیس میں حصہ لیا تھا۔ مگر اس سے پہلے ہی اس تحریک کمزور ہوچکی تھی۔
(۰۱) ہاں یہ بھی ان میں آپس میں اختلاف کا سبب تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...