ہماری بے بسی شہروں کی دیواروں پہ چپکی ہے
ہمیں ڈھونڈے گی کل دنیا پرانے اشتہاروں میں
13جنوری 2005 : تاریخ وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر کی ممتاز فکشن نویس قرۃ العین حیدر کی دوست تھیں۔ان کے ناول آگ کا دریا میں حمید بانو کا کردار اصلاً عزیز بانو کا ہی کردار ہے۔ عزیز بانو 1926میں بدایوں میں پیدا ہوئیں ۔ان کا شعری مجموعہ ”گونج“ کے نام سے شائع ہوا۔
اردو کی مشہور ترقی پسند شاعرہ عزیز بانو داراب وفا 23 اگست 1926 کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق شری نگر کے درابو خاندان سے تھا، جہاں ان کے اجداد فرانس کے ساتھ دوشالوں کی تجارت کرتے تھے۔ 1801ء میں ان کے پر دادا فارسی کے مشہور استاد شاعر عزیزالدین آٹھ سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ہجرت کر کے لکھنؤ آئے اور یہیں مقیم ہوئے۔ ان کے دادا خواجہ وصی الدین ڈپٹی کلکٹر اور والد شریف الدین داراب ڈاکٹر تھے۔ ان کا گھرانا اپنی قدیم روایات کے باوجود تعلیم نسواں کا حامی تھا۔ انہوں نے بی اے تھوبرن کالج سے اور ایم اے انگریزی سے 1949 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا، کجھ عرصہ بعد ایک گرلز کالج میں انگریزی کی لکچرر ہوئیں۔
انہوں نے 23 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا، شروع میں ان کا رجحان افسانے اور ناول لکھنے کی طرف تھا۔ مرحومہ نے اپنا دیوان چھپوانے کی طرف کبھی توجہ نہ دی، وہ تو شعر اپنی تسلی و تشفی کے لئے کہتی تھیں۔ بیگم سلطانہ نے 1960ء میں اندرا گاندھی کی صدارت میں ایک مشاعرہ منعقد کروایا جس میں عزیز بانو نے بھی شرکت کی۔ جہاں ان کی شاعری کی تعریف خود اندرا گاندھی نے کی۔ بعد میں انہوں نے ریڈیو پروگرام میں بھی اپنے شعر پڑھے اور مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے ہندوستان اور بیرون ملک کے مشاعروں میں شرکت بھی کی۔ ان کا شعری مجموعہ ”گونج“ کے نام سے ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ وہ 13 جنوری 2005ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئیں۔
اشعار
۔۔۔۔
چراغ بن کے جلی تھی میں جس کی محفل میں
اسے رلا تو گیا کم سے کم دھواں میرا
ایک مدت سے خیالوں میں بسا ہے جو شخص
غور کرتے ہیں تو اس کا کوئی چہرہ بھی نہیں
میرے حالات نے یوں کر دیا پتھر مجھ کو
دیکھنے والوں نے دیکھا بھی نہ چھو کر مجھ کو
میں نے یے سوچ کے بوئے نہیں خوابوں کے درخت
کون جنگل میں اگے پیڑ کو پانی دے گا
زندگی کے سارے موسم آ کے رخصت ہو گئے
میری آنکھوں میں کہیں برسات باقی رہ گئی
یہ حوصلہ بھی کسی روز کر کے دیکھوں گی
اگر میں زخم ہوں اس کا تو بھر کے دیکھوں گی
کہنے والا خود تو سر تکیے پہ رکھ کر سو گیا
میری بے چاری کہانی رات بھر روتی رہی
میں جب بھی اس کی اداسی سے اوب جاؤں گی
تو یوں ہنسے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا
ہماری بے بسی شہروں کی دیواروں پہ چپکی ہے
ہمیں ڈھونڈے گی کل دنیا پرانے اشتہاروں میں
جن کو دیوار و در بھی ڈھک نہ سکے
اس قدر بے لباس ہیں کچھ لوگ
کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی
میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا
میری تصویر بنانے کو جو ہاتھ اٹھتا ہے
اک شکن اور مرے ماتھے پہ بنا دیتا ہے
میں روشنی ہوں تو میری پہنچ کہاں تک ہے
کبھی چراغ کے نیچے بکھر کے دیکھوں گی
میں بھی ساحل کی طرح ٹوٹ کے بہہ جاتی ہوں
جب صدا دے کے بلاتا ہے سمندر مجھ کو
آئینہ خانے میں کھینچے لئے جاتا ہے مجھے
کون میری ہی عدالت میں بلاتا ہے مجھے
ہم نے سارا جیون بانٹی پیار کی دولت لوگوں میں
ہم ہی سارا جیون ترسے پیار کی پائی پائی کو
میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی
زندگی اوڑھے ہوئے میں بے خبر سوتی رہی
تمام عمر کسی اور نام سے مجھ کو
پکارتا رہا اک اجنبی زبان میں وہ
میں اس کی دھوپ ہوں جو میرا آفتاب نہیں
یہ بات خود پہ میں کس طرح آشکار کروں
شیو تو نہیں ہم پھر بھی ہم نے دنیا بھر کے زہر پئے
اتنی کڑواہٹ ہے منہ میں کیسے میٹھی بات کریں
اہمیت کا مجھے اپنی بھی تو اندازہ ہے
تم گئے وقت کی مانند گنوا دو مجھ کو
وہ یہ کہہ کہہ کے جلاتا تھا ہمیشہ مجھ کو
اور ڈھونڈے گا کہیں میرے علاوہ مجھ کو
میں اپنے جسم میں رہتی ہوں اس تکلف سے
کہ جیسے اور کسی دوسرے کے گھر میں ہوں
میں کس زبان میں اس کو کہاں تلاش کروں
جو میری گونج کا لفظوں سے ترجمہ کر دے
اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے
اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو
زمین موم کی ہوتی ہے میرے قدموں میں
مرا شریک سفر آفتاب ہوتا ہے
تشنگی میری مسلم ہے مگر جانے کیوں
لوگ دے دیتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیالے مجھ کو
اس نے چاہا تھا کہ چھپ جائے وہ اپنے اندر
اس کی قسمت کہ کسی اور کا وہ گھر نکلا
جانے کتنے راز کھلیں جس دن چہروں کی راکھ دھلے
لیکن سادھو سنتوں کو دکھ دے کر پاپ کمائے کون
مجھے کہاں مرے اندر سے وہ نکالے گا
پرائی آگ میں کوئی نہ ہاتھ ڈالے گا
ہم سے زیادہ کون سمجھتا ہے غم کی گہرائی کو
ہم نے خوابوں کی مٹی سے پاٹا ہے اس کھائی کو
چراغوں نے ہمارے سائے لمبے کر دیئے اتنے
سویرے تک کہیں پہنچیں گے اب اپنے برابر ہم
اس گھر کے چپے چپے پر چھاپ ہے رہنے والے کی
میرے جسم میں مجھ سے پہلے شاید کوئی رہتا تھا
زندگی بھر میں کھلی چھت پہ کھڑی بھیگا کی
صرف اک لمحہ برستا رہا ساون بن کے
میں اس کے سامنے عریاں لگوں گی دنیا کو
وہ میرے جسم کو میرا لباس کر دے گا
ہمیں دی جائے گی پھانسی ہمارے اپنے جسموں میں
اجاڑی ہیں تمناؤں کی لاکھوں بستیاں ہم نے
خواب دروازوں سے داخل نہیں ہوتے لیکن
یہ سمجھ کر بھی وہ دروازہ کھلا رکھے گا
غزل
۔۔۔۔
مجھے کہاں مرے اندر سے وہ نکالے گا
پرائی آگ میں کوئی نہ ہاتھ ڈالے گا
وہ آدمی بھی کسی روز اپنی خلوت میں
مجھے نہ پا کے کوئی آئینہ نکالے گا
وہ سبز ڈال کا پنچھی میں ایک خشک درخت
ذرا سی دیر میں وہ اپنا راستہ لے گا
میں وہ چراغ ہوں جس کی ضیا نہ پھیلے گی
مرے مزاج کا سورج مجھے چھپا لے گا
کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی
میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا
وہ اک تھکا ہوا راہی میں ایک بند سرائے
پہنچ بھی جائے گا مجھ تک تو مجھ سے کیا لے گا