بس ایک رات ملاقات کا ہوا وعدہ
وہ دن اور آج کا دن، نیند پھر نہیں آئی
ثمینہ راجہ
11 ۔ ستمبر ۔ 1961: یوم پیدائش
اردو کی معروف شاعرہ، مدیرہ اور مترجمہ، ثمینہ راجہ 11ستمبر 1961ء کو راجہ کوٹ رحیم یار خان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم راجہ کوٹ میں حاصل کی۔ انہوں نے بی اے اور ایم اے (اردو ادب) پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ ثمینہ راجہ معروف ادبی جریدہ ’’آثار‘‘ اور نیشنل بک فائونڈیشن کے ماہنامہ ’’کتاب‘‘ کی اعزازی مدیرہ رہیں۔ ثمینہ راجہ شاعری میں ایک بلند مقام کی حامل تھیں۔ ان کی شاعری میں رومانس، حسن، درداور جذبات کا ہر رنگ پایا جاتا ہے۔ وہ بہت حساس شاعرہ تھیں اور زندگی کے ہر نشیب و فراز اور دکھ درد کو محسوس کرتی تھیں۔
1999ء میں ان کے شعری مجموعے ’’اور وصال‘‘ کو وزیراعظم ایوارڈ ملا۔ اب تک ان کے بارہ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے نام بازدید، اور وصال، خوابنائے، باغ شب، ہویدا، شہر سبا، وہ شام ذرا سی گہری تھی، کتاب خواب، دل لیلیٰ،، ہفت آسمان، کتاب جاں، عشق آباد ہیں۔
ثمینہ راجہ 30اکتوبر 2012ء کو اسلام آباد میں انتقال کر گئیں۔
منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت:-
شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی
خاک کی لوح پہ لکھا تو گیا نام مرا
اصل مقصود ترا مجھ کو مٹانا ہی سہی
خواب عریاں تو اسی طرح تر و تازہ ہے
ہاں مری نیند کا ملبوس پرانا ہی سہی
ایک اڑتے ہوۓ سیارے کے پیچھے پیچھے
کوئی امکان کوئی شوق روانہ ہی سہی
کیا کریں آنکھ اگر اس سے سوا چاہتی ہے
یہ جہان گزراں آئینہ خانہ ہی سہی
دل کا فرماں سر دست اٹھا رکھتے ہیں
خیر کچھ روز کو تکمیل زمانہ ہی سہی