تاریخ پیدائش : 20 جولائی 1982
جائے ولادت:فیصل آباد، پاکستان
شریک حیات فیصل محمود
شہریت:کناڈا
حال مقیم:ٹورنٹو، کناڈا
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)روٹی کھاتی مورتیاں
۔ (کالموں کا مجموعہ)
۔ (2)گمشدہ سائے
۔ (افسانوں کا مجموعہ
۔ (3)خواب سے لپٹی کہانیاں
4 ایسا ضروری تو نہیں
(نثری نظموں کا مجموعہ)
5. نا رسائی
اردو کی معروف ادیبہ، شاعرہ، کالم نگار، افسانہ نگار ، بینکار اور اینکر پرسن روبینہ فیصل گزشتہ 20 سال سے کینڈا میں ہیں ۔ ان کے کالم کئی برسوں سے روزنامہ نوائے وقت کی زینت بنتے رہے ہیں ۔روبینہ کے افسانوں کی دو کتابیں منظر عام پر آچُکی ہیں ۔ پہلی کتاب “خواب سے لپٹی کہانیاں “ کو پاکستان کا خالد احمد ایوارڈ مل چکا ہے ۔دوسری کتاب “ گمشدہ سائے “ میں اصغر ندیم سید،حمید شاہد اور امجد اسلام امجد نے ان کے افسانوں کو دلچسپ اور قابل تعریف کہا ہے ۔ان کی پہلی کتاب ان کے کالموں کا مجموعہ “ روٹی کھاتی مورتیاں “ کے نام سے 2010 میں شائع ہوا تھا ۔ 2018 میں ان کا نثری نظموں کا مجموعہ “ایسا ضروری تو نہیں “ منظر عام پر آیا اور کافی پسند کیا گیا اور حال ہی میں ان کی ایک اور کتاب ” نا رسائی” شائع ہو چکی ہے۔
روبینہ فیصل نے” دستک” کے نام سے ٹی وی ٹاک شو بھی کئےہیں ۔ ان کی تحریروں اور ٹاک شو کا موضوع ساؤتھ ایشئین مہاجرین کے تاریخی ،سماجی،ثقافتی اور مذہبی مسائل ہوتے ہیں ۔ روبینہ فیصل کا انداز تحریر اچھوتا اور دلچسپ ہوتا ہے ۔سیدھے سادگی انداز میں گہری باتیں لکھنا ان کا طرہ امتیاز ہے ۔روبینہ فیصل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ کینڈا میں بیس سال سے مقیم ہیں۔
باغی پر ندے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندروں کی گھنٹیاں شور پیدا کرتی ہیں
سات پھیرے یا تین دفعہ سر کا ہلانا
مسجدوں ،مندروں میں سناٹا بڑھا دیتا ہے
گرجا گھر وں کے اندر ایک ودسرے میں پیوست ہو نٹ
شہر کی تاریکی کو بڑھا دیتے ہیں
آسمان پر بکھری دھنک چوری ہو جاتی ہے
دل کولبھانے والے رنگ بارش میں چُھپ جا تے ہیں
دو نام کاغذ کی سطح پر گھل کر تمام عمر کے لئے کُند ہو جاتے ہیں
مگر وہ آزاد پرندے جن کا رشتہ کسی کاغذ پر نہیں بنا
جو ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کی پناہ گاہ بھی ہیں
اور پناہ کے متلاشی مہاجر بھی
ایسے بے شناخت پرندے جلد ہی بچھڑ جاتے ہیں
مندروں کی گھنٹیاں شور پیدا کر تی ہیں
اور دلوں کو خالی کر جاتی ہیں
گرجا گھر کی مدہم روشنی ،آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے
مسجد کی مقدس خاموشی دلوں میں ہیجان پیدا کر دیتی ہے
جب کاغذ کے رشتے جیت جاتے ہیں
توکاغذ کا بوجھ نہ اٹھانے والے مر جاتے ہیں
سرد اکڑی ہو ئی موت ۔۔
نظم
۔۔۔۔۔
اب ڈر نہیں لگتا
۔۔۔۔۔۔
ایک ڈر تھا تنہائی کا
ایک ڈر تھا جدائی کا
جو مسلسل میرے ساتھ رہتا تھا
کل کا دن جو گزر گیا
بہت بھاری لگتا تھا
لگتا تھا کسی ایسے دن کا بوجھ اٹھا نہ پاؤں گی
آدھے ادھورے راستے میں ہی مر جاؤں گی
مگر کل کا دن بھی آ ہی گیا
اور ریت کا وہ گھروندا ساتھ ہی بہا لے گیا
جس میں رکھے تھے میں نے
رنگ برنگ کے پیارے پتھر
تتلیوں کے پر اور مور کے پنکھ
پھولوں کے سب رنگ
اور آسمان کی دھنک
گلہری کا ادھ کھایا اخروٹ
ماں کے پروں تلے بیٹھے مرغابی کے بچے
اس گھروندے پر اتری دھوپ جس نے مجھ سے میرا سایہ جدا کر دیا تھا
کل جب وہ سب بے رحم وقت کی موجوں کے ساتھ بہہ گیا
اور چار سو قبر جیسا اندھیرا پھیل گیا
تو سفید دھوپ جاتے جاتے ایک احسان کر گئی
وہ مجھ کو میرا سایہ لوٹا گئی
اور میں مرتے مرتے بچ گئی ورنہ
میں تو ایسے کل میں مر ہی جاتی
آوازوں کے بچھڑنے سے
نظم
۔۔۔۔۔۔
اپنا سایہ
۔۔۔۔۔۔
جسموں کے کھو جانے
اور رویوں کے بدلنے کے کرب نے مجھے تمام عمر
اندیشۂ ضیاع میں ہی مبتلا رکھا
کل کے دن نے مجھ میں بسے سب خوف مار دئے
چہرے سے نقاب اترا تو سچائی سینہ تانے میرے سامنے آ کھڑی ہوئی
خود سے بچھڑی ہوئی تھی اب خود سے آ ملی ہوں
میرا سایہ مجھ میں نو پھٹا ہو کر جاگ گیا ہے اور
وہ میرا ہاتھ تھامے بیٹھا ہے
اب وہی مورپنکھ وہی جھیل وہی مرغابی کے بچے
اخروٹ کھاتی گلہری اور رنگ بکھیرتی تتلی
میرا سایہ
یہی سب مردہ مناظر کو میرے اندر حنوط کر کے بیٹھ گیا ہے
اب اپنے ہی سائے کی پناہ میں ہوں
جس کے نہ بدلنے کا ڈر نہ بچھڑنے کا وہم
ایک سا بس مجھ میں ہی رہے گا
میرا ہی رہے گا
اس لئے
اب تنہائی سے ڈر نہیں لگتا
اب جدائی سے ڈر نہیں لگتا
اب میں اپنی پناہ میں ہوں
۔۔۔۔۔۔
نظم . . الوداع
مجھے ہجرت کا غم اس روز بھول گیا
جب وطن کی مٹی سے اٹھنے والی
بے حسی اور منافقت نے
میرے تن من کو جلا کر راکھ کر دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : امبر شمیم
ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگس