(Last Updated On: )
’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ غلام نبی کمار کی وہ تصنیف ہے جس کے سبب انھیں اردو داں طبقے میں منفرد شناخت حاصل ہوئی ہے۔دراصل مذکورہ تصنیف ’’تخلیق کی تخلیق ہے‘‘۔یعنی جو ادب پچھلی دو تین دہائیوں سے منظرِ عام پر آرہا ہے۔اس پر’’تحقیق و تنقید‘‘کی شکل و صورت میں مذکورہ کتاب منظرِ عام پر آئی ہے۔اس سے قبل یہ تبصرے و مضامین ملک کے مختلف اورمقتدررسائل وجرائد میں شائع ہوئے ہیں۔غلام نبی کمار کی یہ تصنیف ایک ضخیم کتاب کی صورت میں جلوہ پذیر ہے جس میں تقریباً پچھتر تبصرے ہیں جن کے مطالعہ سے قاری مختلف النوع ادبی اصناف سے حظ اُٹھا سکتا ہے۔مثلاً شاعری، تحقیق و تنقید، خودنوشت نگاری، مکتوب نگاری، ادب اطفال اور صحافتی ادب وغیرہ۔اس کتاب کا مطالعہ بہت سی کتابوں کے بارے میں کئی اہم ادب کے گوشوں اور پہلوؤں سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔
ہمارے یہاں تبصرہ نگاری کو عموماً دوسرے درجے کا ادب بھی نہیں مانا جاتا ہے جبکہ اس فن کی اپنی ایک قابلِ قدر روایت موجود ہے۔ایک تبصرہ بیک وقت کئی قاریوں کو کتاب و ادب کی سمت و رفتار و تعین رفتار کا پتہ دیتا ہے اور کتب بینی کے شوق کو پران چڑھاتا ہے۔اس طرح نئے ادب کے منظرِ عام پر آنے کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں اور شوقِ مطالعہ کی اور بھی لے جاتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس سے شعراء و ادباء،قلم کار اور محققوں کے خیالات سے ہم آہنگی کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے اور یہاں بھی بیک وقت دو چیزوں سے قاری کا سروکار رہتا ہے اور وہ چیزیں ہیں’’قلم کار اور کتاب‘‘ اور زیرِ تبصرہ کتاب میں بھی کئی اہم قلم کاروں ،شاعروں، محققوں اور ادیبوں کی ایک جگمگاتی کہکشاں نظر آتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مضامین کی بوقلمونی بھی اپنی اہمیت اور رنگ کی بو باس بھی چھوڑ رہی ہے۔ تبصرے اوّل اوّل قاری کو کسی کتاب یا تخلیق کی اور لے جاتے ہیں اور اسے مطالعہ کرنے کی لچک اور للک پیدا کرتے ہیں۔زیر نظر کتاب میںیوں تو سارے قلم کار غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں جنھوں نے اپنی علمی اور قلمی کاوشوں سے اردو زبان و ادب کی آبیاری کرکے ادب کے کئی گمنام گوشوں کو روشن کرنے کی سعی کی ہے جس سے اردو زبان و ادب کا دامن نہ صرف وسیع تر ہوتا گیا بلکہ اس کی رنگینی و چاشنی سے اسے مزید جِلا ملی ہے زیر تبصرہ کتاب کے چند اہم مضامین مندرجہ ذیل ہیں جن کی طرف اختصاراً اشارہ کیا جائے گا۔مثلاً مناظر عاشق ہرگانوی کے تنقیدی زاویے، پروفیسر ارتضی کریم کی فکشن و شعری تنقید، ڈاکٹر عباس رضا نیر کی رثائی تنقیدیں، ڈاکٹر حنیف ترین کا مجموعہ کلام،سلام بن رزاق کے مضامین اور پروفیسر مجید بیدار کی نظر میں کارآمد ادب وغیرہ۔
’’مناظر عاشق ہرگانوی کے تنقیدی زاویے‘‘ مضمون میں کئی اہم گوشوں کی طرف تبصرہ نگار نے توجہ دلائی ہے جن سے اب تک ادب کا قاری ناواقف تھا۔ اردو ادب کے منظر پر مناظر عاشق ہرگانوی کسی طلوع ہونے والے سورج کے مثل ہے جن کی اردو کی مختلف اصنافِ ادب میں سو سے زائد تصانیف شائع ہوئی ہیں۔شاید ہی اس طرح کا کوئی درخشندہ ستارہ آسمانِ ادب پر جلوہ گرہوا ہو۔جنھوں نے نہ صرف ادب کے حوالے سے کئی گرانقدر پہلوؤں کی نقاب کشائی کی ہے بلکہ زبان و ادب کے حوالے سے فکر مند بھی رہے ہیں اور اردو زبان کے مسائل کے جواز کے اسرار و رموز بھی منکشف کیے ہیں جو ان باتوں کی طرف قاری کا ذہن لے جاتا ہے کہ کس قدر ان کے یہاں اردو زبان و ادب کی محبت،اس کی وفا اور بقا سرایت کر چکی ہے۔
’’پروفیسر ارتضیٰ کریم کی فکشن و شعری تنقید‘‘(مابعد دجدیت اور پریم چند کے حوالے سے) میں غلام نبی کمار نے لکھا ہے:
’’ارتضیٰ کریم نے تقریباً اردو کی تمام اصنافِ سخن میں اپنی تنقیدی انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں۔انھوں نے فن کو موضوع بنایا اور فن کار کو بھی۔لیکن شخصیت پرستی کے کبھی شکار نہیں ہوئے۔‘‘
’’مابعد جدیدیت اور پریم ‘‘پروفیسر ارتضیٰ کریم کی ایک اہم تنقیدی تصنیف ہے جس میں شاعری ،افسانہ،ناول، ڈراما،تنقید اور بیشتر اہم موضوعات کو موضوع ِ بحث بنایا گیا ہے۔کتاب میں کل سولہ مضامین ہیںجو اہمیت اور انفرادیت کے حامل ہیں۔اس کتاب میں بیشتر مضامین ترقی پسند ادیبوں کی ادبی خدمات کے اعتراف اور ادب میں ان کی حیثیت کو مدِ نظر رکھ کر تحریر کیے گئے ہیں۔موصوف نے اس کتاب میں پریم چند کے ایسے افسانوں اور ناولوں کے نام بھی لیے ہیں جن میں ان کا جدید نقطہ نظر واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔۔اسی طرح ’’حنیف ترین:پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں کا شاعر‘‘ میںغلام نبی کمار نے اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ(حنیف ترین ) شہر غزل کا خوش بیاں شاعر ہے۔ان کے مطابق حنیف ترین کے اب تک ایک درجن سے زائد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔جن سے اردو زبان و ادب کی آبیاری ہوئی ہے جو صنفِ غزل میں بھی اپنی جڑیںمضبوط سے مضبوط تر کرتی ہیں۔انھوں نے اردوشاعری کو رومان،ارمان،احساس،ماضی،حقیقت،ہجراور خوش گوار یادوں کی مالا سے پرویا ہے۔حنیف ترین کی شاعری کے بارے میں غلام نبی کمار لکھتے ہیں:
’’حنیف ترین کی شاعری پڑھ کر ایک قاری اپنے آپ کو کسی کھلے سبز جنگل یا سبزہ زار میں پاتا ہے۔جہاں کی مہکتی،صاف و شفاف ،معطرو معنبر ہوائیں اور بھینی بھینی خوشبوئیں ہم محسوس کرتے ہیں۔‘‘
اس طرح موصف حنیف ترین کی شاعری کو نئے احساسات اور تجربات کی البیلی اور دھنگ رنگ شاعری قرار دیتے ہیں جس میں قاری جہاں ایک طرف ہجر و وصال کی کیفیات سے اور دوسری طرف زمانے کی دشوار گزاریوں و تلخ حقائق سے بھی آگاہ ہوجاتا ہے۔اسی طرح سلام بن رزاق کا نہ صرف تعارف دیتے ہیں بلکہ ان کے حوالے سے جو ادب جن اصناف میں شائع ہوا ہے اس اعتبار سے بھی ان کے فن پر مدلل اور مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔سلام بن رزاق کو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کا شرف حاصل ہے۔افسانہ نگاری، افسانچہ نگاری، ناول نگاری،مضمون نگار،ترجمہ نگاری،ڈرامہ نگاری اور سوانح نگاری،خاکہ نگاری اور ادبِ اطفال وغیرہ جیسی اصناف پر انھوں نے قلمی جواہر کو نمایاں کیا ہے۔
’’اسی طرح ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ مضامین کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کی بھینی بھینی خوشبوئیں ہر ایک قاری محسوس کر سکتا ہے اور پچھلی صدی میں جو ادب نہ صرف کتابوں کی شکل میں بلکہ رسائل وجرائد کے حوالے سے منظر عام پر آیا ہے اس پر کماحقہ احاطہ کیا گیا ہے۔کورہ کتاب کا مطالعہ ہمیں سے اردو زبان و ادب کی ترقی اورسمت و رفتار کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔یہ کتاب خوبصورت گیٹ اپ اور جبِ نظر سرورق میں شائع ہوئی ہے اور اس کاتیسرا ایڈیشن جی۔این۔کے۔پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔اس کا ایک ایڈیشن پاکستان سے کتابی دنیا نے بھی شائع کیا ہے۔اردو ادب میں یہ کتاب ایک بے بہا وسیلۂ خزینہ سے کم نہیں ہے۔