اجالے بانٹ رہی ہوں میں اندھے لوگوں میں
بے چہرگی کیلئے آئینے بناتی ہوں
شائستہ سحر
تاریخ پیدائش: 23 ستمبر 1975
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کی ایک خوب صورت پاکستانی شاعرہ شائستہ پروین المعروف شائستہ سحر صاحبہ 23 ستمبر 1975 میں آموں کے حوالے مشہور شہر میر پور خاص کے ایک گجراتی میمن گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ وہ ابھی 5 سال کی معصوم بچی تھیں کہ ان کی والدہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا اور پھر ستم در ستم یہ کہ ان کے والد صاحب نے جلد ہی دوسری شادی کر لی ۔ پھر یہ معصوم شائستہ اپنی سوتیلی ماں کے بدترین سلوک کا نشانہ بنتی رہیں لییکن قدرت نے ان کا ساتھ دیا وہ جیسے تیسے کر کے اپنے ماموں کے تعاون سے تعلیم حاصل کر کے محکمہ تعلیم میں بطور لیکچرر بن گئیں اور ماشاء اللہ وہ اس وقت کراچی کے ایک گرلز کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔ شائستہ کو شاعرہ بنانے میں اپنے عزیز و اقارب اور سوتیلی ماں کے رویوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اپنوں کے غیر مناسب رویوں کی وجہ سے وہ ایک بہترین شاعرہ بن گئی ہیں۔ شاعرہ بننے میں احمد فراز کی خوب صورت شاعری کے مطالعے سے انہیں رہنمائی حاصل ہوئی۔ شائستہ سحر میر پور خاص سے کراچی منتقل ہو چکی ہیں اب تک ان کے 5 شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ، عذاب آگہی، متاع فکر ، کرب آرزو، بے دھیانی ، اور ، آواز کی دھن ، شامل ہیں
غزل
لکیریں کھینچتی ہوں، فاصلے بناتی ہوں
میں قربتوں کے نئے ضابطے بناتی ہوں
اجالے بانٹ رہی ہوں میں اندھے لوگوں میں
بے چہرگی کے لئے آئینے بناتی ہوں
کوئی کیوں آئے مری ذات کی گھپاؤں میں
بدن کے گرد سیاہ دائرے بناتی ہوں
سڑک بناتی ہوں کاغذ پہ آڑی ٹیڑھی سی
پھر اس پہ روز نئے حادثے بناتی ہوں
یہ کیا کہ میرے ہی گھر میں اندھیرا کرنے لگو
دئیوں تمہارے لئے طاقچے بناتی ہوں
کسی کے دل میں طلب ہی نہیں جو منزل کی
تو پھر میں کس کے لئے راستے بناتی ہوں
شائستہ سحر